میں کون ہوں اے ہم نفسو ۔۔۔قسط۔۔11
ایڈورڈز کالج میں بزم ادب کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں نے اسے فعال کیا۔ غالب کی برسی آیؑ تو میں نے ایک نیا تجربہ کیا جس میں تفریح کا سامان بھی تھا۔۔۔ میں نے غالب اس کی شاعری اور خطوط نگاری کا ایک تفصیلہ جایؑزہ پیش کیا۔ اس کے لےؑ میں نے اپنے ریڈیو کے مراسم کو بھی استعمال کیا۔میں نے فراز سے ذکر کیا تو اس نے بادشاہ زریں جان سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ میں موقعے کی تلاش میں رہا۔ ایک دن میں نے اسے پروگرام کے بعد اسٹوڈیو سے نکلتے ہوےؑ روک لیا" مجھے اپ سے چند منٹ بات کرنی ہے۔۔ اکیلے میں"
اکیلے میں کون اس سے کیا کہتا تھا۔وہ اچھا تجربہ رکھتی تھی۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا تو شاید اسے میرے لہجے کی عاجزی اور مسکینی کے پیچھے عاشقانہ جذبات کار فرما نظرنہں اےؑ ہوں گے کہ کویؑ سوال کےؑ بغیر وہ مجھے ہاتھ پکڑ کے ساتھ والےاستوڈیو میں گھس گیؑ اور دروازہ پیچھے بند کرکے ایک استول پر بیٹھ گیؑ۔دوسرے پر میں سامنے با ادب بیٹھا، دروازہ بند ہونے سے میں نروس تھا۔ یہ ڈراما اسٹوڈیو تھا جس میں برے بڑت مایؑک آویزاں تھے۔دونو طرف بند شفاف شیشوں والی کھڑکی تھی جس سے پروڈیوسر اشاروں میں بات کرتے تھے
" اب بولو کیا کہنا چاہتے تھے" وہ حوصلہ افزایؑ کیلےؑ مسکرا کے بولی" اتنے گھبرا کیوں رہے ہو؟"
میں نے کہا" میں کالج میں موسیقی کا ایک پروگرام کر رہا ہوں۔۔یوم غالب پر"
"تم چاہتے ہو کہ میں اس میں گاوں۔۔ تو یہ مشکل ہے"وہ رکھایؑ سے بولی
"نہیں جی۔ اتنی جسارت نہیں کر سکتا میں۔۔ایک دو ارٹسٹ کالج کے ہیں۔۔ میں چاہتا ہوں ان کی ریہرسل یہاں ہوجاےؑ۔۔اس کی اجازت آپ دلا سکتی ہو" میں نے ایک سانس میں کہہ دیا
وہ مجھے دیکھتی رہی اور شاید سوچتی رہی کہ درخواست کس حد تک قابل قبول ہے
میں نے اگلا قدم اگے بڑھایا" مجھے ایک باجے(ہارمونیم) والا اور ایک طبلے پر سنگت کرنے والا بھی چاہےؑ۔۔ ان کو معاوضہ ملے گا کالج سے۔۔ جو بھی اس دن فارغ ہوا چلے گا۔۔ ساونڈ سسٹم ہمارا ہے"
اتنی دیر میں اس نے میری مدد کا فیصلہ کرلیا تھا" رایؑٹر ساحب۔۔ بس اتنی سی بات تھی۔۔ اتنے گھبرا رہے تھے جیسے۔۔ جیسے ۔۔۔ شادی کی بات کرنا چاہتے تھے" وہ اٹھی اور مجھے وہیں دم بخود بیٹھا چھوڑ کے نکل گیؑ۔ مجھے لگا جیسے وہ مجھے میرے جھینپو اوران رومانٹک رویے پر نامردی کا طعنہ دے گیؑ۔ کہ میں تو سمجھی تھی اظہار عشق کروگے۔۔ کم سے یہ تو کہوگے کہ آپ بہت خوبصورت ہیں ۔۔ میں پھر اعتراف کروں گا کہ میں زندگی میں کبھی ایک جارحانہ مزاج والا ڈیشنگ فگر نہ تھا اور بن بھی نہیں سکتا تھا۔۔ ۔یوم غالب کا پروگرام اپنے نۓ پن کی وجہ سے مقبول ہوا لیکن ہال بھرنے کا سبب بعد میں معلوم ہوا۔ہمیشہ کی طرح میں نے ایک اشتہاری قسم کا نوٹس اسلامیہ کالج کے نوٹس بورڈ پر بھی لگوادیا تھا۔ نہ جانے کس نے مشہور کر دیا کہ پروگرام میں بادشاہ زریں جان بھی گاییؑں گی۔۔ اللہ مغفرت کرے۔۔آواز میں ہی نہیں اس کے نام میں بھی جادو تھا۔۔تمہارے نام پہ آییؑں گےغمگسار چلے۔۔۔۔۔۔ کالج کی ایک "ڈیبے ٹنگ" سوسایؑٹی تھی جوہر کالج میں ہوتی تھی اور سال میں ایک دو بارکسی عام سے موضوع پر مباحثے بھی کراتی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اس سے الگ رہتا،، سال بھر بعد میں ان چار لڑکوں کی ٹیم میں تھا جو دوسرے کالجوں میں ایڈورڈز کالج کی نمایندگی کرنے جاتی تھی۔ پہلے سال اس کا لیڈر عابد علی سید تھا جو بعد میں ریڈیو پھر ٹی وی کے کسی اعلیٰ عہدے تک گیا۔۔ پھر میں ٹیم لیڈر ہوگیا اور ہم نوشہرہ مردان ایبٹ آباد تک انٹر کالج مقابلوں میں شریک ہوےؑ۔ کھانے پینے اور رہایش کیلےؑ کالج سے وافر رقم ملتی تھی جو ہم جیب میں ڈال کے ہوسٹل میں مہمان ہو جاتے تھے۔کھانے کےبل اور ٹرانسپورٹ کی جعلی رسیدیں کالج میں جمع کرا دیتے تھے مردان میں تو ہم نے ایک مسجد مین بھی رات گزاری تھی۔۔اللہ معاف کرے۔۔ عابد علی سید نے کہا کہ یار کسی اور کا نہیں خدا کا گھر تو ہے۔۔نماز مغرب کی جماعت میں اس لےؑ شریک ہوےؑ کہ اس کے بعد گھروں سے انے والا کھانا مسجد میں مقیم مسافروں کے درمیان رکھ دیا جاتا تھا۔ اس رات نہ جانے کس کے سویم چہلم کا پلاو زردہ کھایا اور عشا کی نماز کے بعد صفوں پر لمبی تان کے سوگےؑ۔یہ اچھے وقتوں کی بات ہے جب مسجد واقعی خدا کا گھر تھی اور کسی فرقے ۔ جماعت یا فرد کی ملکیت کا تصور بھی نہ تھا۔ نہ مساجد میں وہ اسباب دنیاوی تھے جس کو بچانے کیلےؑ تالے ڈالنا ضروری ہو۔بہت بعد میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں رات دس بجے کراچی کے پاپوش نگرمیں جنازہ بر دوش لوگوں کے ساتھ گلی گلی پھر رہا تھا کہ نماز کیلےؑ کویؑ مسجد کھلی ملے اور بالاخر یہ نماز قبرستان کی مسجد میں ہی ادا ہویؑ۔ وہاں بھی لازمی تھا کہ ساڑھے دس سے پہلے میت آجاےؑ ورنہ دروازے بند کر دےؑ گےؑ تو پھر صبح فجر تک قبر مردے کا انتظار کرے گیاور مردہ قبر کا۔ ۔ جب ایبٹ آباد گورنمنٹ کالج گےؑ تو صرف کپ جیت سکے لیکن وہاں ہاسٹل بڑا تھا اور لڑکے بہت ہلہ گلہ کرنے والے۔۔پہلے تو رات ایک بجے اٹھا دیا کہ مومنواٹھو ۔ حلوہ پکانا ہے۔"۔ سخت سردی میں لحاف سے نکلے اوردو بجے حلوہ کھایا۔پھر نیند آیؑ ہی تھی کہ لحاف کھنچ لےؑ گےؑ۔۔ پوچھا کہ اب کیا ہے تو جواب ملا " یہاں آےؑ ہو تو کیا مس کولمبو کا دیدار کےؑ بغیر ہی چلے جاوگے؟"۔۔
"یہ مس کولمبو کیا چیز ہے؟" آنکھیں ملتے ہوےؑ سوال کیا
جواب ملا " دیکھنے کی چیز ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں۔ آج تم بھی دیکھ لو"۔
ٹھیک سات بجے پتھروں کی 6 فٹ اونچی دیوارپر پندہ بیس عشاق ٹانگیں لٹکا کے صف بستہ ہوگےؑ۔ وہ سوا سات بجے نیچے سڑک پر آیؑ۔ بلا شبہہ ایک بہت حسین لڑکی جو غیر معمولی طور پر لمبی تھی۔ میرا خیال ہے 6 فٹ سے بھی دو تین انچ زیادہ۔۔ وہ ہر روز اسی راستے سے اپنے کالج جاتی تھی اوراستقبال کا یہ منظر روز دیکھتی تھی لیکن بڑی ہمت والی تھی کہ اس نے نہ راستہ بدلا نہ کسی سے کچھ کہا حالانکہ دو چار سیٹیاں اس کے گذر جانے کے بعد ضرور سنایؑ دیتی تھیں۔ اس دن طے شدہ پروگرام کے مطابق مجھے پیچھے سے دھکیل کر گرادیا گیا۔ نیچے دو فٹ کا گھاس والا سلوپ تھا میں گرا اور لڑھک کر سڑک پر عین مس کولمبو کے سامنے اس کے قدموں میں۔ اس کا رد عمل فطری تھا۔ اس نے ایک دم جھک کے مجھے کھڑا ہونے میں مدددی اور پوچھا "کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟"
میں نے کپڑے جھاڑتے ہوےؑ نفی میں سر ہلایا" مجھے انہوں نے ہیچھے سے دھکا دیا" پلٹ کے دیکھا تو دیوار خالی۔۔ مس کولمبو کے عشاق غایؑب۔ وہ سر ہلا کے آور مسکرا کے اگے بڑھ گیؑ۔ میں دیوار پر چڑھا تو دیکھا سب پیچھے دبکے بیٹھے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ میرے گرمی کھانے پر کہا گیا کہ یار خوش قسمت ہو ۔۔اس نے تمہارا ہاتھ تھام کے اٹھایا۔ کیا ایسا اتفاق ممکن ہے کہ آج وہ لڑکی جو اب نانی دادی ہوگی،،یہ سب پڑھ لے اورجوانی یاد آجاےؑ توایک آہ بھر کے مسکرادے۔
۔اسی زمانے میں بی اے فاینل کے طلبا کو ایک مطالعاتی دورے پر لاہور لے جایا گیا۔۔ تاریخ پڑھنے والے شاہی قلعے اور شالا مار وغیرہ دیکھنے گےؑ۔ میں نفسیات پڑھتا تھا جس میں خوابوں کی نفسیات کے ساتھ ذہنی امراض یا پاگل پن کی کیس ہسٹری بھی تھی۔ میں نے ایک دن لاہور کے مینٹل ہاسپٹل میں گزارا۔4 نمبر دو منزلہ بس وہاں جاتی تھی چنانچہ لاہور والے کسی کی بے سرو پا باتوں پر کہتے تھے کہ اسے تو بٹھادو 4 نمبر بس پر۔جیسے کراچی والے کہتے ہیں کہ بھیج دو گدو بندر۔ مینٹل ہوسپٹل میں مجھے ہر مریض کی کیس فایؑ ملی اور اس مریض سے بھی ملوایا گیا ۔ وہاں ایک تو خطرنک مریض تھے جن کوسلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا تھا ورنہ دورہ پڑے تو وہ خوںخوار ہو جاتے تھے۔بیوی کے قتل میں ملوث ایک پاگل نے مجھ سے مسکراتے ہوےؑ سوال کیا کہ "لو جی گھر میرا، بیوی میری۔ سوجی گھی چینی سب میری۔۔اور حلوہ پکا کے کھلاےؑ اپ کو تو میں کیا کروں گا" یکلخت وہ چلانے اور سلاخوں کوبھنبوڑنے لگا" اس حرامزادی کا میں نے حلوہ بنادیا۔۔ پہلے ٹکڑے کےؑ ۔۔۔۔"
دوسری قسم کے مریض وہ تھے جن پر دورہ پڑے تو اول فول بکتے تھے لیکن کسی پرحملہ نہیں کرتے تھے۔ تیسرے سرے سے پاگل ہی نہیں لگتے تھے۔سنکی تھے یا مجزوب کی طرح بے سروپا بولتے رہتے تھے۔ ان میں بیشتر خود کو دیوانہ ہی نہیں مانتے تھے۔۔ لطیفے کی بات ہے۔۔ کسی پاگل سے سوال کیا گیا کہ تم کہتے ہو دنیا پاگل ہے دنیا کہتی ہے تم پاگل ہو ، اس نے اہ بھر کے کہا کہ جمہوریت کا یہی تو نقصان ہے اکثریت کی چلتی ہے۔۔بے ضرر پاگل کھلے پھرتے تھے لیکن اپنی مضحکہ خیز حرکتوں سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک لطیفہ اور سن لیں۔۔پاگل دیوار کے ساتھ کان لگاےؑ بیٹھا تھا۔ وارڈن نے تیسرے چوتھے چکر میں یہی دیکھا تو خود بھی بیٹھ گیا۔ دو منٹ بعد اس نے کہا"یار کیا ھے؟ مجھے تو کچھ سنایؑ نہیں دیا"۔ پاگل نے کہا"اوےؑ پاگل مجھے ایک گھنٹے میں کچھ سنایؑ نہیں دیا تو دو منٹ میں تجھے کیا سنایؑ دے گا"۔۔ یہ ایک تکلیف دہ مشاہدہ تھا ۔ میڈیکل آفیسر نے ایک نرس کو میرے ساتھ کر دیا تھا جوسب کی کیس ہسٹری پر میرے سوا؛ات کے جوابات دیتی رہی۔ اس نے اعتراف کے انداز میں انکشاف کیا کہ بہت سے لوگ پاگل نہیں تھے۔ اولادنے ان کو دولت جایؑداد کے چکر میں یہاں بند کرادیا اور ڈاکٹرز نے پیسہ لے کر ان کو دواون سے پاگل کر دیا۔ یا کویؑ علاج کیلےؑ لایا اوربھاگ گیا۔بڈھوں کوگھرکا پتا نہیں معلوم تو پڑے ہیں یہاں۔نرس کی ڈیوٹی 5 بجے ختم ہوتی تھی مگرمیرے ساتھ ڈیوٹی لگ جانے کے بعد وہ فارغ تھی اس نے کہا کہ بتانے کو ابھی بہت کچھ ہے اور 3 بجے ہی میرے ساتھ چل پڑی ۔۔ میرا تو بھوک سے حال خراب تھا۔
کھانے کے بعد اس نے میرے ساتھ ریگل سینیما میں انگریزی فلم کا 6 سے 9 والا شودیکھتے ہوےؑ کہا" 50 روپے ہیں تو میں تمہارے ساتھ چل سکتی ہولیکن 12 بجے تک مجھے گھر پہنچناہوگا"
۔میں نے کہا " میں تو اسٹوڈنٹ ہوں"
وہ ہنسنے لگی "پھر کیا ہوا۔۔ اچھا۔۔ اسٹوڈنٹ کنسیشن چاہےؑ۔۔ایسے کہو نا ۔چلوتم چالیس دے دینا"
میں نے پوچھا " تم یہ کام کیوں کرتی ہو؟"
اس نے صاف کہا " اور کیا کروں۔ تنخواہ بہت کم ہے وہ میں گھر میں دیتی ہوں۔ لیکن تفریح کومیرا بھی دل چاہتا ہے کبھی کبھی۔آخر لاہور میں رہتی ہوں۔۔ سب کو عیش کرتا دیکھتی ہوں"
میں لکشمی چوک پر ویسٹ اینڈ ہوٹل میں سب کے ساتھ مقیم تھا اور پروفیسر جوناتھن ہمارے ساتھ تھے ۔معذرت نہ کرتا تو کیا کرتا۔ اس دبلی پتلی سانولی سی کرسچین لڑکی کا نام بھی اب یاد نہیں لیکن اس کی صورت خصوصا" اس کی پتلی لمبی نقش چغتایؑ جیسی آنکھؤں پر سودا کا شعر یاد آتا ہے
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
وہ سردیوں کی راتیں تھیں۔ فلم اسٹار بہار کی پہلی فلم "چن ماہی" نے تہلکہ مچا رکھا تھا ۔فیصلہ ہو ا کہ آخری شو دیکھا جاےؑ۔ سب رضایؑ کمبل لپیٹ کر پیدل گےؑ کیونکہ سنیما ساتھ ہی ایبٹ روڈ پر تھا اور سب سے آگے کی 5 آنے والی تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا۔ عوام کے ساتھ خوب سیٹیاں بجاییں۔ رات کو لوٹے تو نہ جانے کس نے تیسری منزل کی بالکونی سے بوٹ پالش والے کو آواز دی، وہ اوپر آیا تو سب دروازے بند اور اندھیرا دیکھ کر لوٹ گیا۔ دس منٹ بعد پھر اسے ڈانٹ کے بلایا۔ وہ بچارا پھر آیا تو وہی منظر۔ تیسری دفعہ آیا توچلانے لگا کہ"کس نے بلایا تھا یار، یہ کیا مزاق ہے" اور دستک دی ایک دروازےپر تو پروفیسر جوناتھن نایؑٹ سوٹ میں آنکھیں ملتے نکلے کہ کیا بات ہے؟ کون ہو تم۔۔ اس نے بات بتایؑ تو مزید جھاڑ کھایؑ کہ" پاگل ہو تم۔۔رات کو ایک بجے کون جوتے پالش کراتا ہے۔ میں بتاتا ہوں مینیجر کو"۔ اس بچارے کو جان چھڑانا مشکل ہوگیا.
1957 میں روس نے پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا تو سب کی طرح میری سمجھ میں بھی نہ آیا کہ یہ کیا خبر ہویؑ جس پر دنیا انگشت بدندان ہے اور امریکی ساینسداں اپنے حریف کی سبقت پر شرم سے سرنگوں ہیں۔ اس پر آنے والے آخراجات بھی اتنے زیادہ تھے کہ جہلاےؑ کرام کا ایک طبقہ تو اسے شیطانی ایجاد اور ایل ایمان کو گمراہ کرنے کاجھوٹا پروپیگنڈا قرا دیتا تھا دوسرے میرے جیسے تھے کہ ساینسدانوں کی سعیؑ لا حاصل پر سوال کرتے تھے کہ کیا ان کوتیسری دنیا میں غربت اور بیماری دکھایؑ نہیں دیتی کہ ایسی ساینسی عیاشی پرفضول خرچی کرتے ہیں۔ جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب کروڑوں ڈالرخرچ کر کے امریک نے مریخ پر پانی کے آثار دریافت کےؑ تو جہلا کی نوجوان اور نیؑ کھیپ وجود میں اچکی تھی۔ تاہم روایتی انداز میں نام نہاد علما اپنے پرانے موقف پر قایؑم تھے کہ میں نہ مانوں۔ فیس بک پر وہی سوال اٹھاۓ گےؑ مگر بندہ بہت لایق فایق ہو چکا تھا چنانچہ پہلے تو جواب 1957 میں سوال کرنے والوں کو دیا۔۔ میں نے کہا کہ پہلے مصنوعی سیارے کیلےؑ بھی یہی سوالات اٹھاےؑ گےؑ تھے۔ آج آپ کے ہاتھ میں موبایل فون ہے نیٹ ہے اور گھر میں دنیا بھر کے چینل دکھانے والا ٹی وی ہے یہ اسی مصنوعی سیارے کے طفیل ہے۔۔ ورنہ ٹی وی کی نشریات 70 کلومیٹرسے آگے دیکھنا ناممکن تھا ۔ امرتسرجاندھر ٹی وی میؑ جون میں کچھ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے لاہور میں بھی نظر آجاتا تھا۔۔ تو اس کیلے بازار سے طویل ترین بانس لایا جاتا تھا۔ اس کے اوپر سلور کے تھال لوٹے باندھ کرداییؑں باییؑں انچ انچ گھمایا جاتا تھا اورنیچے سے ناظرین کا نعرہ " بس ٹھیک ہے" سنایؑ دینے تک یہ عمل جاری رہتا تھا ۔۔۔ لاہور سے پنڈی بھی فون کرکے ماما جی کے فوت ہونے کی اطلاع دینے کیلےؑ کال بک کراکے انتظار میں بیٹھنا پڑتا تھا کہ دیکھو کب باری آتی ہے اور لایؑن کب ملتی ہے ۔ تدفین سے پہلے کہ سویم کے بعد ۔۔۔ لیکن اب آپ بھی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کل جب اس دنیا میں ہماری دن رات کی جدوجہد براےؑ کثرت اولاد کی کامیابی کے سبب جینے مرنے کو دو گز زمین بھی نہ ملے گی تو مریخ پرپانی کا پتا چل جانے کے بعد وہاں ایک نیؑ دنیا آباد کر لینا عین ممکن ہوگا
اس سےاگلے سال دو تاریخی واقعات رونما ہوےؑ۔۔ ایک میری زندگی کا دوسرا پاکستان کی تاریخ کا۔۔۔ پہلے میں نے بی اے پاس کیا۔۔ پھرپہلا مارشل لا نافذ ہوا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں فیل ہوجاتا تومارشل لا نہ لگتا ۔میں اہمیت نہیں تاریخ کی ترتیب کے حساب سے چلتا ہوں۔ تعلیم کے معاملے میں راقم کبھی واجبی حد تک بھی سنجیدہ نہ ہوسکا، دیگر"غیر نصابی" مصروفیات میں تین بار کلاس میں حاضرہونا بھولتا گیا ۔۔ جب حاضر ہوا تو نام ہی نہ پکارا گیا ۔ پتا چلا کہ مسلسل غیر حاضری کے باعث نام تو خارج ہو چکا ۔ مناسب ڈانٹ ڈپٹ کے بعد مجبورا" ابا نے جرمانہ دیا تو نام پھر لکھ لیا گیا۔ اب یہ خود ستایؑ نہیں ۔ یا داشت واقعی ایسی تھی کہ جو لیکچر سنا وہ حافظے میں نقش ہو گیا۔ عین سالانہ امتحان کا زمانہ تھا جب فرسٹ ایر کا طالب علم چھوٹا بھایؑ منہ بسورتا آیا۔ پوچھا کیا ہوا تو بولا کہ کالج والے لاہور جارہے ہیں ۔ابا نے کالج کے اخراجات تو دے دےؑ ہیں لیکن ذاتی خرچ کیلےؑ صرف 20 روپے دےؑ ہیں۔ میں نے صورت حال پر غور کیا اور اپنی تمام درسی کتب اسے دے دیں کہ لاہور جا کے اردو بازار میں بیچ دینا۔ ا س کو60 روپے کی خطیر رقم حاصل ہویؑ اور میں فارغ۔۔؎رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں راہزن کو۔۔ کتابیں ہی نہیں توامتحان کیلےؑ پڑھنا کیسا۔۔آخری حماقت ملاحطہ فرماییؑے۔۔ ساییؑکا لوجی کا پرچا تھا سو کے اٹھا تو نو بجے تھے۔۔ خیال آیا کہ پرچا صبح ہے یا دوپہر کے بعد؟۔۔ ڈیٹ شیٹ تلاش کی تو ملی نہیں۔۔سوچا کہ چل کے دیکھنا چاہےؑ۔۔کالج پہنچا تو پرچا شروع ہوےؑ 40 منٹ ہوگےؑ تھے۔ پرنسپل کی سفارش سے بیٹھنے کی اجازت ملی تو بیس منٹ حواس بحال کرنے میں لگے۔ جواب دینے کیلےؑ سب کو 3 گھنٹے ملے تھے۔ مجھے دو ملے۔۔ اس سب لا پروایؑ کے باوجود کرنا خدا کا یہ ہوا کہ نتیجہ آیا تو ناچیز کالج میں اول۔۔ یا مظہر ا لعجایبؑ ۔۔خوش خوش مرغ فاتح کی طرح سینہ نکالے اور گردن اکڑاےؑ پرنسپل سے ملنے کالج پہنچا، مجھے دیکھتے ہی بڑے میاں کا پارا چڑھ گیا۔ انگریزی میں فرمایا۔۔۔ دفع ہوجاواپنی منحوس صورت لے کر اور ابا کو ساتھ لے کر آو۔۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ شاباش دینے کا یہ کون سا انداز ہے۔ ابا ایبٹ آباد میں تھے ان کوخبر تو مل چکی تھی کہ میں نے کیا تیر مارا ہے۔تار دیا کہ پرنسپل آپ سے ملنا چاہتا ہے، تیسرے چوتھے دن وہ آےؑ تو ان کے ساتھ پھر کالج گیا۔ اب پرنسپل نے ابا کو سامنے بٹھا کے بولنا شروع کیا۔۔"آپ نے دیکھا یہ لڑکا پڑھایؑ کے معاملے میں کتنا سیریس تھا؟ تین بار مسلسل غیر حاضری پر اس کا نا م خارج ہوا تھا۔ یہ ڈرامے لکھتا رہا۔ تقریریں کرتا پھرا۔ پڑھنے کے علاوہ اس کی دلچسپی ہر کام میں تھی۔اس سال اسلامیہ کالج کے جس لڑکے نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اس کے 15 نمبرہی تو زیادہ ہیں جو یہ لے سکتا تھا اگر محنت کرتا۔۔ ہمارا طالب علم اول آتا تو ہمارا نام ہوتا۔۔ ایسا لڑکا کبھی کبھی آتا ہے جس سے توقعات وابستہ کرنا غلط نہیں ہوتا۔۔ اور اقبال وہ لڑکا تھا۔۔۔۔۔"
او ہو۔۔ یہ بات تھی جس پر موڈ خراب تھا۔۔ میں نے سر جھکا کے صورت پر اعتراف جرم طاری کیا اور ابا نے بھی غمگساری کی تو پرنسپل اٹھا اور اس نے مجھے گلے لگا کے ابا کو مبارکباد دی بعد میں مجھے شیلڈ ملی اور میرا نام رول آف آنر میں بھی لکھا گیا۔۔ لیکن اپ جذبہ دیکھےؑ احساس شکست کی ندامت کا۔۔ اس کا دکھ جو میں نہیں سمجھا تھا کچھ ایسا تھا جیسے اب ہمیں ورلڈ کپ فایؑنل میں بھارت سے ہارنے کا ہوتا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔