میں کیہڑے پاسے جاواں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں سر پھوڑوں ؟ کہاں جاؤں۔ !!
کیا ہوا انو بھائی۔ کیا پریشانی پے؟
بس یار بات مت کرو۔ دماغ خراب ہوگیا ہے میرا۔
خدا خیر کرے۔ سب خیریت تو ہے۔ بھابی سے تو جھگڑا نہیں ہوگیا۔
نہیں یار۔ بس میری کم بخت قسمت ہی ایسی ہے۔ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔
انو بھائی ٹھہرے سدا کے چڑچڑے اور قنوطی ، لیکن آج ان کی وحشت کچھ زیادہ ہی تھی۔
اور یہ بھی نہیں تھا کہ ان کو کسی چیز کی کمی تھی۔ بہت اچھی ملازمت تھی۔ بیوی بھی تقریباً ایسی ہی تھی جیسی میری آپ کی بیویاں ہوا کرتی ہیں۔ کچھ کھٹی کچھ میٹھی اور کچھ تیکھی۔ بچے بھی ٹھیک ٹھاک ہی تھے۔ پڑھائی میں کوئی ایسے برے بھی نہ تھے۔ والدین بھی حیات تھے۔ غرض سب کچھ ایسا ہی تھا جو ایک نارمل انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن انو بھائی شاید کسی اور ہی خمیر سے بنے تھے۔ یہ سرگرانی ان کی مستقل کیفیت تھی۔ انہیں شکایت تھی کہ لوگ ان کی پریشانیاں نہیں جانتے۔ ان سے پوچھو اور جب وہ اپنا حال بتائیں تو آپ سوچتے ہی رہ جائیں کہ ایسی کیا بات تھی جس نے انہیں آپے سے باہر کیا ہوا تھا۔
چھٹی کا دن تھا۔ انو بھائی راستے میں مل گئے۔ آج ابر تھما ہوا تھا اور انو بھائی کی وہ گرج چمک نہیں تھی آج وہ ذرا سا مسکرائے بھی تھے۔ موقع غنیمت جان کر میں نے انہیں قریبی چائے خانے چلنے کی دعوت دیدی جسے انہوں نے بلا تامل قبول کرلیا۔
گرم گرم چائے حلق سے اتری تو طبیعت اور بھی چونچال ہوگئی۔ ہم سیدھی سادی باتوں سے لطیفوں پر اتر آئے۔ بات بات پر قہقہے لگنے لگے۔ مجھے جانے کیا سوجی میں کہہ بیٹھا کہ یار تمہیں کیا ہوجاتا ہے کہ تم ہر وقت سڑیل سے موڈ میں ہوتے ہو۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوتا ہے وہ کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔
وہ کچھ سنجیدہ سے ہوگئے۔ " ہاں یار تمہاری بات درست ہے، لیکن جس تواتر سے یہ سب میرے ساتھ ہوتا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا ہوگا۔ "
مثلاً کیا؟
اب یہ ہی دیکھو ۔ کہیں باہر جانا ہے۔ میں بیوی سے کہتا ہوں
کہ بھئی جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ وہ نیک بخت صرف پانچ منٹ کا کہتی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد پوچھتا ہوں تو پھر وہی پانچ منٹ۔ میں پوچھتا ہوں بھئی تمہارے پانچ منٹ کتنے ہوتے ہیں۔ میرا پارہ بڑھتا دکھ کر کہتی ہے " کل دفتر میں فون کرکے جب واپس آتے ہوئے کچھ چیزیں لانے کی لسٹ بتانے لگی تو تم نے کہا پانچ منٹ میں فون کرتا ہوں۔ فون تو نہیں آیا تم البتہ شام کو گھر آگئے۔ یہ پانچ منٹ اتنے ہی ہوتے ہیں۔ ۔
یہ تو چھٹی کے دن کا حال ہے۔ تمھیں پتہ ہے دفتر جاتے ہوئےایک ساتھی بھی میرے ساتھ آتے ہیں۔ کہتے ہیں تمہارے گھر کے قریب پہنچ کر فون کروں گا۔ ان کے فون کا انتظار کرتے کرتے آخر غسل خانے کا رخ کرتا ہوں اور جب ہاتھ، چہرہ سب کچھ صابن میں لتھڑ جائے عین اسی وقت ان کا فون آتا ہے۔
اور ٹریفک کی تو تمھیں خبر ہی ہے کیسا رینگ رنگ کر چل رہا ہوتا ہے۔
لیکن یہ میرے ساتھ ہی ہوتا ہے کہ جب میں تیز چلنی والی لین میں آتا ہوں تو وہ آہستہ ہوجاتی ہے اور پہلے والی تیز چلنا شروع کر دیتی ہے۔ روز کا ہی یہ معمول ہے۔ اب بتاؤ دماغ خراب ہو نہ ہو۔
اور اس دن جو راستے میں گاڑی کو نجانے کیا ہوا تھا۔ سڑک کنارے روک کر انجن کھول کر چیک کر رہا تھا اور ہاتھ گریز میں سن گئے تھے۔ ابھی پانی کی بوتل تک پہنچا ہی تھا کہ ناک میں عین اسی وقت کھجلی ہوئی اور۔۔۔۔۔
اور جب پلگز چیک کر کے رکھ رہا تھا تو پلگ پانا اسی وقت ہاتھ سے چھوٹ کر انجن کے ناقابل رسائی حصے تک پہنچ گیا۔
کبھی ارجنٹ فون کرنا ہو تو دوسری طرف مستقل انگیج کی ٹون سنائی دے گی۔ لیکن جب بھی رانگ نمبر ڈائیل کیا تو کبھی بھی انگیج کی ٹون نہیں سنائی دیتی اور دوسری طرف والا فورا جواب دے گا۔
اور اس دن کیا ہوا! تم جانتے ہو ہاشم بھائی کی عظمت صاحب سے ان بن ہے۔ میرا ایک کام عظمت صاحب کے پاس اٹکا ہوا تھا۔ ہاشم بھائی مال میں مل گئے اور ہم دونوں کافی شاپ جا ہی رہے تھے کہ سامنے سے عظمت صاحب اسی رخ آرہے تھے۔
عظمت صاحب اب میرا فون بھی نہیں اٹھاتے۔
بس کیا بتاؤں ہر بات ہی الٹی ہوتی رہتی ہے میرے معاملات میں۔
بیگم شکایت کر رہی تھیں کہ گھر کا مائیکرویو اون کام نہیں کر رہا۔ یہ ابھی بالکل نیا لیا تھا۔ میں نے ادھر ادھر سے دیکھا ۔ واقعی وہ نہیں چل رہا تھا۔ کمپنی میں فون کیا ، کہنے لگے ورکشاپ میں لے آئیں۔ بیس کلو کی مشین ڈھو کر ورکشاپ لے گیا۔ گاڑی کی پارکنگ بھی بہت دور ملی۔ پسینے میں شرابور ، ہانپتا کانپتا مشین لیکر ورکشاپ پہنچا۔ تین اور لوگوں کو فارغ کرکے ٹیکنیشن نے میرا مائیکرویو آن کیا۔ وہ فورا آن ہوگیا۔ ٹائمر چلا کر دیکھا۔ سب ٹھیک تھا۔ کہنے لگا کیا خرابی ہے۔ میں نے بتایا کہ آن ہی نہیں ہورہا۔ کہنے لگا یہ تو آن ہو رہا ہے۔ بیگم کو فون کرکے پوچھا ، جو کچھ انہوں نے بتایا، وہ اس شخص کے گوش گذار کیا۔ پتہ چلا کہ کوئی خرابی نہیں ہے۔ حالانکہ گھر پر نہیں چل رہا تھا۔
اس دن دفتر میں میٹنگ تھی۔ میرے نشست جنرل مینیجر کے بالکل مقابل تھی۔ کم بخت پیٹھ میں شدید کھجلی ہوئی اور وہ بھی وہاں جہاں ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یار پیٹھ میں کہیں قریب ہی کھجلی نہیں ہوسکتی ؟۔ عین اس جگہ ہونا ضروری ہے جہاں بندے کا ہاتھ ہی نہ پہنچے۔
انو بھائی اپنی داستان غم سنا رہے تھے اور میں ہمہ تن گوش تھا۔
ہفتے کی شام بیگم کے ساتھ فلم دیکھنے گیا۔ تمھیں پتہ ہے سیٹوں کے درمیان جگہ ہی کتنی ہوتی ہے۔ بیگم ساتھ تھیں تو جلد پہنچ کر بالکل کنارے کی سیٹیں لیں۔ ہال میں پہنچ کر دیکھا تو ہمارے بعد سے آخر تک تمام سیٹیں خالی تھیں۔ فلم شروع ہوئی اور ان سیٹوں پر بیٹھنے والے پہنچے لگے۔ آدھے گھنٹے تک ہر پانچ منٹ کے بعد کبھی ٹانگیں سمیٹتے یا کبھی اٹھ کر باہر کی روش پر کھڑے ہوکر اندر جانے کا راستہ دیتے۔ کم بخت ایک بھی اس دن وقت پر نہیں آیا تھا۔
اور یہ روز کی بات ہے۔ دفتر پہنچ کر پہلا کام ہے کہ ایک چائے کا گرما گرم کپ بناتا ہوں اور دن بھر کے کام کی فہرست بناتا ہوں۔ لیکن اکثر وبیشتر باس کا فون آتا ہے اور وہ کچھ ایسی تفصیل فوری طلب کرتا ہے کہ چائے ٹھنڈا شربت بن چکی ہوتی ہے۔
میں نے کہا انو بھائی ! یہ تو ہم سب کے ساتھ ہی کبھی نہ کبھی ہوتا ہی پے۔ آپ کچھ زیادہ ہی اسے محسوس کرتے ہیں۔
کہنے لگے کیا تمہارے ساتھ بھی یہ ہوتا ہے کہ جس پروگرام یا میٹنگ میں تم وقت پر پہنچتے ہو وہ کبھی وقت پر شروع نہیں ہوتی اور جس دن تم تاخیر سے پہنچو، اس دن وہ وقت پر شروع ہو چکی ہوتی ہے۔
ارے انو بھائی آپ نے خوامخواہ ہر بات دل پر لے رکھی ہے۔ اللہ کا شکر کرو تمہیں اتنی اچھی بیگم ملی ہیں۔ کم از کم ایک بات تو تمہارے پلان اور خواہش کے مطابق ہوئی نا۔
کہاں یار !۔ میں جس گرل فرینڈ سے شاد ی کرنا چاہتا تھا اس کے گھر والے آنا کانی کرتے رہے۔ بہت میری اماں نے منتیں کیں نہیں مانے۔ آخر ایک دن ان کے گھر سے فون آہی گیا کہ ہم تیار ہیں۔
یہ فون میری بیگم نے ریسیو کیا۔ اس شام ہمارا ولیمہ تھا۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=494170974103768&id=100005326086716