میں "آدم کا بیٹا" ، حوا میری ماں ۔ میں اشرف الخلق ۔ میں ہزاروں سال بہشت میں رہا ۔ خدائے مہرباں نے مجھے تمام تر آسائشوں سے نوازے رکھا ۔ پھر مجھ سمیت تمام بنی آدم کو اکٹھا کیا گیا اور خدائے واحد ہم سے ہمکلام ہوا ۔ ہمیں بتایا کہ ہم اشرف الخلق ہیں ، اطاعت اور سرکشی کا منبع ہیں ۔ یہی اطاعت و سرکشی کی جنگ ہی ہمیں باقی تمام مخلوق خدا سے اعلی و ارفع کرتی ہے ۔ اور اسی سرکشی و اطاعت کی جنگ میں شیطان نے ہمارے باوا آدم و اماں حوا کو بہلا کر گندم کھلا دی ۔ اور اس کی پاداش میں ہم سب کو ایک مقررہ وقت پر زمین پر اتارا جائے گا ۔ جہاں ہم لباس خاک اوڑھے خاک ہونے کا انتظار کریں گے اور آخر خاک ہو جائیں گے ۔ جہاں ہمیں مزید امتحانات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ بس یہ چند ساعتیں ہمارے لباس خاک میں چھپی سرکشی کا امتحاں ہوں گی ۔ اگر تو سرکشی جیت گئی تو ہم لوٹ تو آئیں گے پر اپنا مکان ہار جائیں گے ۔ جنت سے نکالے گئے آدم کی اولاد پھر سرکشی کی انگلی پکڑے جہنم کو جاتے نظر آئیں گے ۔
اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن وقت مقرر آ پہنچا ۔ جنت کی سیر کو نکلے اور فرشتے کی انگلی پکڑے راہگزر پر چلتے زمیں پر آ پہنچے ۔ اسی زمیں پر جہاں باوا آدم اور اماں حوا ہزاروں سال پہلے آئے تھے ۔ میں بھی مجسم خاک اوڑھے زندگی کی ساعتیں گزارنے لگا ۔
اس راہگزر پر میں اکیلا نہیں تھا ، میرے جیسے لاکھوں روازنہ خاک پر اتارے جاتے تھے اور ہزاروں خاک میں اتر جاتے تھے ۔ یہ دنیا ایک راہگزر کی مانند تھی ، جس پر ہر وقت چل چلاؤ جاری تھا ۔
اپنی اپنی سرکشی سے لڑتے حوا کے بیٹے ، آدم کی بیٹیاں واپسی کا راستہ بھول بیٹھے تھے ۔ شاید واپسی سراب لگتی تھی اور زندگی حقیقت ۔ مجسم خاک کو حوا کے بیٹے پائیدار سمجھ بیٹھے ۔ حوا کی بیٹیاں حسن و جمال پر نازاں نظر آتی تھیں اور جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر نظریں چرانا ان کا وطیرہ تھا ۔ جہاں میں ان بنی نوع آدم کے ہزاروں دکھ تھے ، پر حقیقی دکھ سب بھلائے بیٹھے تھے ۔ شیطان ہمیشہ سے انہیں اوہام کا شکار کئے ہوئے تھا اور وہ اپنے وسواس کو اپنی اپنی حقیقتیں گردانتے تھے ۔
کبھی کبھی میں راہگزر سے ہٹ اونچے ٹیلے پر بیٹھا دیکھتا تھا ۔
راہگزر پر بہت سے منظر چلتے تھے ۔ سب انساں تھے ، پر اکثر ناداں تھے کم انساں تھے ۔ گندم کھانے کا جرم ، گندم کمانے کی اذیت بن چکا تھا ۔
من و سلویٰ کو ٹھکرا کر دو وقت کی روٹی کے پیچھے بھاگتے تھے لوگ ۔
بھوکوں کے منہ سے چھینتے نوالہ تھے لوگ ۔ مظلوموں کا تماشا بنایا جاتا تھا ۔ ظالم اور مظلوم کے حامی ، ہم نوالہ و ہم پیالہ نظر آتے تھے
سب اپنی دھن میں مگن تھے ۔ بھوک انساں نگل جایا کرتی تھی اور اناج گوداموں میں پڑے گلتے سڑتے تھے ۔ رزق کی تلاش ایسی تھی کہ اسلحہ کے تاجر جنگیں برپا کروایا کرتے تھے ۔ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے لوگوں کی زمیں نے سنہرا پانی (تیل) اگلا تو وہ خدا بھلا بیٹھے ۔ لوگوں میں خدا بننے کی دوڑ ایسی لگی کہ دنیا کے کچھ بڑے خدا ملکوں کے ملک اپنی خدائی قائم رکھنے کی خاطر اجاڑنے لگے ۔ بنی آدم کے کٹے سروں کے میناروں سے تاریخ آگے نکلی تو بمباری سے خاکستر بستیوں میں جا ٹھہری ۔ خدائے واحد کی خلق اشرف کو جب دنیا میں گوشہ جنت فراہم کیا گیا تو انہوں نے وہ بھی اجاڑ ڈالا ، وہاں کے لوگوں کو وہاں پابند سلاسل کردیا گیا ، انکی آنکھوں کا نور اجاڑ دیا گیا ۔
حق پرست مصلوب کئے جانے لگے اور ان کی لاشوں کے ڈھیر لگا کر ، ابن الوقت وقت کے خدا بن بیٹھے ۔
سرکشی سر چڑھ کر بولنے لگی ۔ میں آدم کا بیٹا ، میں بھی اپنی ایک غلطی کا ازالہ کرنے یہاں زمیں پر آیا ، مجسم خاک اوڑھا اور وعدے سارے بھول گیا ۔ جس گندم نے بہشت سے نکلوایا ، وہ زمیں پر دوڑانے لگی ۔ میری راہگزر بس تلاش معاش کو جاتی نظر آنے لگی ۔
میں ٹیلے پر بیٹھا بیٹھا ان سارے منظروں سے اکتا گیا تو مجھے خدا یاد آیا ۔ میں نے چاروں اور نظریں دوڑائیں پر خدا نہ ملا ۔ میں اپنا خدا کھو بیٹھا تھا ۔ پھر مجھے یاد آیا کہ خدا تو شاہ رگ سے قریب تھا ۔ خدا تو دل میں بستا تھا ۔ میں نے اپنے اندر جھانکا تو وہاں دل میں ، اس دل میں جو خانہ خدا سمجھا جاتا تھا ، حرص تھے ، لالچ تھا ، بغض و کینہ تھا ، پر خدا نہ تھا ۔ مجسم خاک میں آتش عشق دنیا سما چکی تھی ۔
میں آدم کا بیٹا جنت کے باغوں سے نکلا اور دنیا کی بھول بھلیوں میں کھو گیا ۔