میں ہوں سوشلسٹ
سرد جنگ کیا ختم ہوئی، دنیا میں بایاں بازو معدوم تر ہوتا چلا گیا۔ مشرقی یورپ میں سوشلسٹ نظام ٹوٹ گیااور پھر سوویت یونین بکھر گیا۔ عوامی جمہوریہ چین میں سرمایہ دارانہ نظام کی پیوند کاری تیز ہوتی چلی گئی۔ پاکستان جو کہ 1951ء سے امریکی سامراج کے شکنجوں میں مکمل طور پر جکڑ دیا گیا، اس کی سرزمین پر سرد جنگ کے خاتمے سے کچھ قبل سابق سوویت یونین کو ــسبق سیکھانے‘‘ کے لیے افغان جہاد کا ڈرامہ رچایا گیا، اور یہاں پر موجود تھوڑا بہت بایاں بازو اپنی آخری سانسیں لینے لگا۔ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ اور سابق سوویت یونین پر جنیوا اکارڈ کے بعد بائیں بازو کی یہ معدوم ہوتی سیاست پاکستان کے اندر تیزی سے مٹنے لگی، جس میں بائیں بازو کی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مین سٹریم کی پاکستان پیپلزپارٹی بھی شکار ہوئی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو 1986ء میں وطن واپس آئیں تو انہوں نے اپنی پارٹی کی ترقی پسند پہچان کو اپنے ہاتھوں سے مٹانا شروع کردیا۔ ’’سوشلزم سے مفاہمت‘‘ کا سفر اُسی روز شروع ہوگیا تھا جب 10اپریل 1986ء کو انہوں نے اپنے استقبال پر امریکی پرچم جلانے والوں کو مسترد کردیا، جن میں راقم نمایاں طور پر شامل تھا بلکہ امریکی پرچم جلانے والوں پر پارٹی کے پالتو غنڈوں نے قاتلانہ حملوں سے نمٹنے کا آغاز کردیا۔پارٹی کے اندر بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے موقف کو مسترد کرکے یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور فاروق لغاری سمیت دیگر جاگیرداروں کو فیصلہ کن طاقت کا مالک بنا دیا گیا۔ جب پیپلزپارٹی نے 1988ء میں حکومت بنائی تو اس ’’مفاہمت‘‘ اور سوشلزم سے فرار کی پالیسی کے تحت حکومت کے اہم عہدوں، وزارتِ خزانہ و وزارتِ خارجہ اور دیگر وزارتوں پر سامراج سے مفاہمت کے تحت اُن کی طے کردہ شخصیات کو نامزد کیا گیا اور اسی پیکج میں صدر غلام اسحاق خان کی سامراجی چھتر ی کو اپنی چھائوں کے طور پر قبول کیا گیا۔ ’’مفاہمت کے اس سفر‘‘ میں ایک اور حکومت بنی اور پھر وہ بھی پہلے کی طرح رسوا کرکے توڑ دی گئی۔ پارٹی سوشلزم سے نجکاری کا پرچم بلند کرتے ہوئے، جاگیرداری مخالف سے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔ سامراج، جاگیرداری، سرمایہ داری اور حکمران طبقات سے مفاہمت کے اس سفر کو جمہوریت کا سفر قرار دے دیا گیا۔ افسوس اس مفاہمت کے سفر میں پارٹی بھی گئی اور پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی سرِبازار قتل کر دی گئیں۔ اور یوں پارٹی سے نظریہ اور قیادت دونوں غائب ہوگئے۔ اور اسی طرح ملک میں موجود بایاں بازو بھی بکھر گیا۔ بائیں بازو کا بڑا حصہ NGOs کی چھتریوں میں پناہ گزین ہوا۔اور اس طرح NGOs کے بطن سے سماج کے اندر ’’تبدیلی کے بچے‘‘ پیدا کرتے بائیں بازو کا ایک بڑا کیڈر تاریخ کے ہاتھوں مٹ گیا۔ مگر چند لوگ جن میں عابد حسن منٹو، فاروق طارق، لال خان، زاہد اسلام اور دیگر لوگ بھی شامل ہیں، انہوں نے اس نظریاتی جدوجہد میں سرنڈر نہ کیا۔ اب پاکستان میں اپنے آپ کو سوشلسٹ کہیں تو لوگ مذاق اڑانے بلکہ حیران نگاہوں سے دیکھتے ہوئے یہ کہنے لگے، ’’ابھی سوشلسٹ موجود ہیں‘‘۔ اُن کے کانوں کو یقین نہیں آتا۔ راقم نے جب بھی اپنے سوشلسٹ ہونے کا اظہار کیا تو ’’جغادری دانشور‘‘ مذاق اڑاتے۔ ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پاکستان کے ایک معروف اینکر نے یہ کہتے ہوئے میرا تعارف کروایا کہ ’’یہ معروف لبرل دانشور ہیں‘‘ تو میں نے عرض کی کہ ’’میں لبرل نہیں سوشلسٹ ہوں۔ لبرل تو امریکی صدر جارج بش ہے جس نے افغانستان اور عراق اور اردگرد کے خطوں کو جہنم میں بدل دیا ہے‘‘۔ اس پر اینکر مجھے حیرت سے تکتا رہ گیا۔
پاکستان کا یہ بچا کھچا سوشلسٹ کیڈر اب پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی غیر مذہبی جماعتوں میں بھی قبولیت کا حق دار نہ ٹھہرایا گیا۔ مگر درج بالا سوشلسٹوں سمیت اب بھی چند ایک ہی رہنما تھے جو جہد مسلسل کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ انہی لوگوں نے 1979ء میں افغانستان میں امریکی سامراج کی یلغار کی کھل کر مخالفت کی۔ یہ بچے کھچے سوشلسٹ ملک کے اندر امریکی سامراج ، جاگیرداری، سرمایہ داری، نجکاری، ’’فوجداری‘‘، طبقاتی ناانصافی اور جنونیت کے خلاف اپنا پرچم بلند کرتے نظر آئے۔ انہی لوگوں نے 1990ء کی پہلی خلیجی جنگ اور پھر 2003ء میں دوسری خلیجی جنگ میں امریکی سامراج کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ NGOs کی چھتریوں میں پناہ گزین ناکام بایاں بازو ’’تبدیلی کے بچے‘‘ تو پیدا نہ کرسکا، ہاں پیسہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان جہاں جنونی سیاست روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو ’’انسانی جنت‘‘ قرار دیا جارہا ہے، وہاں یہ سوشلسٹ رہنما اور دانشور اب نئی انگڑائی لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کے باقاعدہ کمیونسٹ شاعر فیض احمد فیض کا خاندان جہاں کارپوریٹ سیکٹر کے تحت اپنے والد کا میلہ لگاتا ہے، وہاں ان افتادگانِ خاک نے نامساعد حالات میں ملک کے کونے کونے میں جدوجہد کی چھوٹی چھوٹی شمعیں جلائے رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے محدود وسائل کے مطابق فیض میلے کا انعقاد تسلسل سے جاری رکھا۔ 18فروری 2018ء کو لاہور میں منعقد کیا گیا فیض امن میلہ اسی تسلسل کا ایک کامیاب مظاہرہ تھا۔ یہ میلہ دراصل پاکستان میں طبقاتی و استحصالی نظام کے خلاف اس ابھرتے بائیں بازو کا ایک منظم اور بھرپور اکٹھ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کو طبقاتی نظام سے نجات، جہالت وناخواندگی کا خاتمہ، جنونیت کو مٹانا، جاگیرداری اور جاگیرداروں کی سیاست سے نجات، سرمایہ دار اور امریکی سامراج سے آزادی، ملک کے 95فیصد حقیقی پاکستانیوں کی حاکمیت کے علمبردار ہیں۔ یہ چراغ اب بڑھتے اور پھیلتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ ملک کہ جہاں مقبول سیاسی رہنمائوں کی شادیاں اور طلاقیں، اُن کی گرل فرینڈز کی داستانیں، SMS بھیجنے یا نہ بھیجنے والیاں، ڈالر سمگل کرنے والی حسینائیں سیاست وصحافت کا عنوان بن جائیں، وہاں غریب کی محنت اور اس کی غربت، ڈھائی کروڑ سکول نہ جانے والے بچوں، کسانوں کے استحصال، نوجوانوں کی بے روزگاری اور قاتل جنونیوں کے خلاف جدوجہد کرکے ان کو عنوان بنانے والوں کی آواز اب بڑھتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان اور استحصال اب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ استحصال کے خلاف نبردآزما یہ افتادگانِ خاک ہی اٹھیں گے تو وہ پاکستان بنے گا جس کا خواب بھی بھٹہ مزدور اور اُن کے بچے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ’’ترقی کے جزیروں‘‘ میں رہنے والے موروثی رہبر اگر غربت کا درد جاننا چاہتے ہیں تو کبھی غریبوں کے لیے ہمدردی کے دو الفاظ کہنے تک کی جدوجہد کی بجائے ایک دن کسی اینٹوں کے بھٹے، مِل، کارخانے یا کسی کھلیان میں دہقان کے ساتھ گزار کر دیکھیں۔ پھر معلوم ہوگا کہ غربت کیا ہے، اور غریب کا درد کیا ہے۔ یہ جدوجہد ٹیلی ویژن کے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر نہیں، اوکاڑہ کے ملٹری فارمز کسانوں کے کندھوں کے ساتھ کندھے جوڑ کر شروع ہوتی ہے۔ پاکستان ایک نئی سیاست کا تقاضا کررہا ہے۔ موروثیت، سامراجی جمہوریت کی بجائے عوامی جمہوریت، ’’سرمایہ کاری کے فوائد‘‘ کی بجائے محنت کش کو پوری اجرت دینے کی سیاست، دوشیزائوں کی داستانوں کی بجائے کسان کی بیٹی کی محرومیوں کی سیاست۔بھوکے ننگے لوگوں کا پرچم بلند کرنے کی سیاست نہ کہ بیویوں، بیٹوں، بیٹیوں اور خاندانوں کی سیاست۔
“