میں باغی ہوں ۔۔۔۔۔
مغرب کا وقت تھا،اچانک ایک دوست بہت عرصے بعد ملنے آیا ،آتے ہی اس نے پہلا جملہ یہ بولا ،کیسے ہو انقلابی؟اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ میرا موڈ آف ہو گیا ۔میں نے کہا ،دوست، آج کے بعد مجھے انقلابی مت کہنا ،میں انقلابی نہیں ہوں ۔انقلابی میری شناخت نہیں ہے،اگر تم مجھے دوست نہیں کہہ سکتے، تو باغی کہہ دیا کرو، یہ کہو گے کہ کیسے ہو باغی؟تو شاید یہ میری شناخت ہو سکتی ہے۔دوست نے کہا باغی کا کیا مطلب ہے اور تم باغی کہلوانا کیوں پسند کرتے ہو؟ میں نے کہا دوست ،میں اپنے آپ کو باغی کہلانا پسند نہیں کرتا ،میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر تمہیں مجھ کو میرے نام کے علاوہ کسی اور تعارف سے پکارنا ہے تو انقلابی کی بجائے ،باغی کہہ دیا کرو،اس لفظ پر میں اعتراض نہیں کروں گا ۔اس نے کہا سب کچھ چھوڑو اور یہ بتاؤ،باغی کون ہوتا ہے؟میں نے کہا اب خاموش رہ کر باغی کا معانی و مطلب سمجھنے کی کوشش کرنا ،باغی وہ ہوتا ہے جو روبوٹ کی طرح زندگی نہیں گزارتا ،وہ ماضی کی شرائط کو بھی کسی کھاتے میں نہیں لاتا،دنیا کا کوئی معاشرہ،مذہب ،کلچر باغی کی زندگی کے لائف اسٹائل میں مداخلت نہیں کرسکتا ۔باغی انفرادیت کو انجوائے کرتا ہے۔وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرتا ہے اور اپنی زہانت کےمطابق زندگی کے مزے لیتا ہے۔اس کی زندگی میں ہر وقت آزادی کی خوشبو مہکتی رہتی ہے ۔کیونکہ وہ آزادی کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ایک باغی انسان دوسرے انسانوں کو بھی یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ آزادی سےزندگی کو انجوائے کریں ۔باغی کی زندگی کی سب سے بڑی ویلیو اس کی آزادی ہے۔ایک باغی انسان اپنی آزادی کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے،وہ آزادی کی خاطر اپنی عزت داؤ پر لگا سکتا ہے،اپنے اسٹیٹس کو قربان کرسکتا ہے۔یہاں تک کہ وہ آزادی کی خاطر جان کی بھی قربانی دے سکتا ہے۔آزادی ہی باغی انسان کا خدا ہے۔میرے دوست نے باغی کا معانی سمجھنے کے بعد سوال کیا ،کیا یہاں انسان باغی ہیں ؟میں نے کہا دوست ،ہم یہاں ہزاروں سالوں سے بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ،ہم مجمع ہیں ،ہجوم ہیں ،جمہوریت ہیں ،آمریت ہیں ،مذہبی ہیں ،غیر مذہبی ہیں ،روایات اور الوہی و غیر الوہی نظریات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ،پرانے واقعات اور قصے کہانیوں میں کھوئے ہوئے ہیں ،ہم باغی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ہم وہ ہیں جو لاکھوں سالوں پرانے ڈسپلن میں غرق ہیں ،ہم باغی نہیں ہیں ۔ہم پرانی روایات ، ہم ماضی کے قصے ہیں ،اس لئے ہم اپنی انفرادیت کو برباد کر چکے ہیں ۔باغی تو وہ ہوتا ہے جو اپنی روشنی کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔باغی عصر حاضر کا انسان ہے ،ہم تو ہجوم ہیں ،ہم کیسے عصر حاضر کے انسان ہو سکتے ہیں ۔باغی کی زندگی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے،وہ اکیلے پن سے نہیں گھبراتا ،بلکہ اکیلے پن کو انجوائے کرتا ہے ،ہم تو ہجوم ہیں ،اکیلے پن سے گھبرا جاتے ہیں ۔مجمع یا ہجوم کسی انسان کو سیکیورٹی کا تحفظ تو دے سکتا ہے ،لیکن اس طرح اسے زندہ لاش بھی بنا دیتا ہے،ہم باغی نہیں ،زندہ لاش ہیں ۔ہم قیدی ہیں اپنے ضمیر کے ،ہم قیدی ہیں روایات کے ،ہم قیدی ہیں احکامات کے ،ہم کیسے باغی ہو سکتے ہیں ؟ہم تو ہر وقت زندگی کی گائیڈ لائن تلاش کرتے رہتے ہیں ،وہ بھی ماضی سے ،تو ہم کیسے باغی ہو سکتے ہیں ۔باغی کی زندگی خطرناک ہوتی ہے اور ہر وقت رسک پر لگی رہتی ہے ۔لیکن وہ زندگی کیا زندگی ہے جو خطروں سے خالی ہو ۔یہاں ہر انسان ماضی کے بوجھ کے ساتھ زندہ لاش ہے ،باغی اس بوجھ کو نہیں اٹھاتا اور نہ ہی اس کو منہ لگاتا ہے ،پھر ہم کیسے باغی ہو سکتے ہیں ؟باغی ماضی کو گڈ بائی کہنے والا انسان ہے اور ہم ماضی کو گلے لگانے والے ہیں ۔پھر ہم کیسے باغی ہو سکتے ہیں ؟باغی کی زندگی کا آرٹ یہ ہے کہ وہ ہر لمحے کو انجوائے کرتا ہے ۔،کیونکہ باغی ہر وقت بغاوت کے عمل سے گزررہا ہوتا ہے۔،وہ جامد اور ساکن نہیں رہتا ۔دوست نے اسی دوران کہا کہ باغی اور انقلابی میں کیا فرق ہے؟انقلابی بھی ماضی کی شرائط میں جیتا ہے۔کبھی انقلابی کارل ماکس کے پیچھے دوڑ رہا ہوتا ہے،کبھی وہ اسٹالن کا غلام ہوتا ہے ،کبھی وہ موسولینی کو اپنا قائد بنا لیتا ہے ،انقلابی کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی بائبل ضرور ہوتی ہے۔کبھی اس کے ہاتھ میں داس کیپیٹل ہوتی ہے تو کبھی کوئی اور کتاب ۔انقلابی کے پاس اپنا شعور نہیں ہوتا ۔وہ ہمیشہ دوسروں کے شعور کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔وہ ایک کلچر کے خلاف ہوتا ہے تو دوسرے کلچر کے لئے لڑتا ہے ۔وہ بھی قیدی ہوتا ہے ،وہ بھی ایک جیل کی مانند ہے۔کبھی وہ اسلام سے کمیونزم کی طرف آجاتا ہے اور کبھی کمیونزم سے کیپیٹالزم کا حصہ بن جاتا ہے۔لیکن باغی ایسا نہیں ہوتا ۔باغی کی زندگی جلتے شعلے کی طرح ہے ،باغی آخری سانس تک تازہ دم رہتا ہے۔نوجوان رہتا ہے ۔باغی کا لائف اسٹائل ہی حقیقت ہے۔اور سچائی ہے۔دنیا کے چند گنے چنے باغی انسان ہی انسانیت کے لئے آخری امید ہیں ۔یہی باغی تمام ماضی ،روایات ،فرقہ ،زات پات اور رنگ و نسل کو ختم کریں گے ۔کیونکہ یہ سب گند ہے اور بدبودار ہے ۔ماضی انسانی ارتقاء میں حقیقی رکاوٹ ہے اور اس رکاوٹ کا خاتمہ یہی باغی کرے گا ۔بغاوت زندگی کا اصلی لائف اسٹائل ہے ۔جب انسان اپنی زندگی اپنےحساب سے گزارے گا تو تب وہ مشکلات بھی جھیلے گا ،وہ گرے گا بھی ،لیکن پھر اٹھے گا ۔یہ گرنا اور اٹھنا ہی انسان کو باشعور اور بصیرت والا بناتا ہے۔باغی کی طرح زندگی گزارو،باغی کی کوئی ڈاکٹرائن نہیں ہوتی ،کوئی فلسفہ نہیں ہوتا ،باغی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی روایات اور ماضی ہوتا ہے۔باغی کی کوئی تھیالوجی نہیں ہوتی ۔اس کا اپنا تجربہ ہی اس کی زندگی ہے ۔اسی لئے میں شاید باغی ہوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔