میں ایک "ریپسٹ " کو جانتا تھا
اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا جو آج ہے، جس نے ثابت کر دیا ہے کہ معاشرے کے ناسور افراد جو بظاہر بھر چکے ہیں، وہ انہیں ننگا کر کے دکھا سکتا ہے۔ ان افراد کے اعمال بد سے جن لوگوں کے ذہنوں میں گھاؤ لگے تھے وہ ابھی تک نہیں بھرے اور جب تک وہ زندہ رہیں گے، گھاؤ درد کرتے رہیں گے۔ کیا پتہ مرنے کے بعد بھی روح پر لگے زخم ہرے ہی رہیں۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ اس شخص کی طرف ہے جس کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا اور جس کے گلے میں ایک معروف ہوتی ہوئی سیاسی پارٹی کے رہنما نے پہلے "پرنا" ڈال دیا پھر سوشل میڈیا پر اسے ننگا کرکے دکھائے جانے کے بعد اس سے "پرنا" واپس لے لیا۔ سوشل میڈیا پر اس کار خیر میں شریک افراد کے ساتھ یہ پارٹی اور بالخصوص اس پارٹی کے سربراہ قابل ستائش ہیں۔ استدعا یہ ہے کہ جب آپ کے چیتے ہمہ وقت سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں تو اتنی سی تکلیف بھی کر لی جایا کرے کہ جس شخص کو اپنے سایہ عاطفت میں لینا ہو اس کا بائیو ڈیٹا جمع کر لیا کریں تاکہ بعد میں کسی لیے ہوئے کو نکال کے تعریف سمیٹنے کے باوجود ہو چکی شرمندگی سے بچا جا سکے۔
نوجوانوں کو ہمیشہ ہی شوبز کی خواتین اچھی لگتی رہی ہیں اور اچھی لگتی رہیں گی۔ فن و حسن کی تحسین کے علاوہ بہت سوں میں ان کی قربت کے حصول کی ہلکی سی کسک بھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ گذرے ہیں جو اداکاراؤں سے قربت پر متفاخر رہے۔ ایک بلوچ سردار رند صاحب تھے جنہوں نے پہلے اپنے دور کی معروف اداکارہ کو اغوا کیا یا کرایا تھا اور بعد میں منکوحہ بنا لیا تھا۔ چلو یہ تو وہ تھے جن کو ان سے بیاہ رچا کر قربت کی پیاس بجھانے کا شوق تھا۔
مگر بہت سے ایسے بھی تھے جیسے وہ شخص جو چند روز پہلے تک مقتدر پارٹی میں رہا اور پھر معروف ہوتی ہوئی پارٹی میں آیا۔ جب اس کے گلے میں سبز سرخ " پرنا" ڈال دیا گیا تو سوشل میڈیا نے اس کی قلعی کھول دی۔ جس زمانے میں اس نابکار کا گینگ ڈاکے اور زنا بالجبر کی کارروائیوں میں مصروف تھا تب یہ واحد گینگ نہیں تھا بلکہ ایسے چند گینگ اور بھی تھے۔
ایسے گینگ ان لوگوں کے بچے ہی بنا سکتے تھے جن کے والدین یا خاندان سربرآوردہ تھے اور جن کے پاس گاڑیاں وغیرہ رکھنے کے وسائل بھی تھے۔ میں بھی ایک ایسے ہی "ریپسٹ " کو جانتا تھا جس کے والد صاحب کم پڑھے لکھے، بہت سادہ، سادہ لوح اور دیندار شخص تھے۔ وسطی پنجاب کے ایک بڑے زمیندار و صنعتکار گھر کا یہ فرزند خاندان سے باہر کی ایک لڑکی پر عاشق ہوا تھا۔ اس پر سختیاں کی گئیں تو وہ باغی ہو گیا تھا۔ کچھ اور امیروں کے سولہ سولہ سترہ سترہ سال کی عمروں کےلڑکوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی گینگ بنا لیا تھا۔ اس نے بھی ایک اداکارہ کو جو بعد میں معروف ہدایتکارہ بنی تھیں، اغوا کیا اور دیہات میں اپنے ڈیرے پر لے جا کے اسے پامال کیا تھا پھر لاہور واپس بھی چھوڑ آیا تھا۔ بقول اس کے ان کے گینگ نے اجتماعی ریپ جیسی کوئی "بے غیرتی" کبھی نہیں کی تھی مگر اس نے بتایا تھا کہ راتوں کو کاریں روک کر پتہ نہیں کتنے شریف خاندانوں کی بہو بیٹیوں کو بندوق کے زور پر، سڑک پر ناچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے اس سب پر افسوس نہیں تھا، وہ یہ کہہ کر بات تمام کر دیتا تھا کہ بس جی جوانی کی غلطیاں تھیں۔ وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر دو سال پہلے چل بسا تھا۔
میں یہ سوچتا رہا کہ لوگ جھرنا عرف شبنم کے مجرم کو بھی تو یا اس کے کہنے پر اس کے امیدوار کو ووٹ دیتے رہے ہیں، اگر میرا واقف یہ "ریپسٹ " کبھی امیدوار ہوتا تو کیا میں اسے ووٹ دیتا؟ شاید نہ دیتا باوجود اس کے کہ وہ بعد میں ایک سنجیدہ اور عقلیت پسند شخص رہا تھا۔ 2018 کے مجوزہ انتخابات میں اس کای بیوہ کا بھائی اسی پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کو تیار ہے جو گلے میں "پرنا " ڈالتی ہے۔
یہ دیکھیے کہ عام لوگ کیسے لوگوں کے جرائم بھول جاتے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا اس شخص کو عریاں نہ کرتا تو شاید اسے "پرنا" ڈالنے والی پارٹی سے ٹکٹ بھی مل جاتا اور وہ جیت کر صوبائی یا قومی اسمبلی میں پہنچ کر قانون سازی میں بھی شریک ہوتا۔
ہندوستان کی فلموں میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں موجود غنڈہ مجرم عناصر کی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ اول تو فلم کا میڈیم ہی مضبوط نہیں ہے دوئم اتنی جرات کیا جانا شاید مہنگا پڑنے کے خوف سے کوئی اس حقیقت کو عیاں نہ کرنا چاہے مگر سوشل میڈیا زندہ باد کہ اس نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے اگرچہ سوشل میڈیا ہمارے الیکٹرونک میڈیا کی طرح ناپختہ ہے، اطلاع کی بجائے غیر درست اطلاعات زیادہ ہوتی ہیں، بہر طور اچھا کام بھی کر جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“