” اُن اہرین دو (Aun Apren Do) ”
فرانسِسکو گویا
پچھلے دنوں مجھے چیک (Czech) فلم ڈائریکٹر مائیلوس فارمن (Milos Forman) کی فلم ”گویا کا بھوت“ ( 2006 Goya’s Ghost) دوبارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ فلم دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ گویا (Goya) کی زندگی کے اصل حالات پر مبنی نہیں بلکہ گویا کی زندگی کے موٹے موٹے حالات پر فکِشن کا پیچ ورک (Patch Work) کر کے بنائی گئی ہے ۔ پادری لورینزو (Lorenzo) اور ایلشیا (Alicia) کے کردار فرضی ہیں اور ان کا تعلق بھی تاریخ کا حصہ نہیں ۔ اس بات نے مجھے تحریک دی کہ میں گویا (Goya) پر یہ مضمون لکھوں ۔
اولڈ ماسٹرز (Old Masters) میں آخری اور ماڈرن مصوری میں پہلا کہلایا جانے والا ہسپانوی مصور اور پرنٹ میکر (Print Maker) گویا جس کا پورا نام فرانسِسکو جوز ڈی گویا ے لوسینٹس (Francisco Jose de Goya Y Lucientes) تھا ، 30مارچ 1746ء کو سپین کی ریاست آراگون (Aragon) کے ایک چھوٹے اور غریب گاﺅں فیون ڈیٹوڈوس (Feundetodos) جو سارا گوسا (Saragossa) کے نزدیک تھا ، میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ جوز ڈی گویا (Joze De Goya) ملمع سازی کا کام کرتا تھا جبکہ اس کی والدہ گریشیا ڈی لوسینٹس (Gracia de Lucientes) اس گھر کی مالکن تھی جس میں یہ خاندان رہتا تھا ۔
گویا کا بچپن اس گھر میں گزرا ۔ یہ گھر خشک بنجر زمین میں گھرا ہوا تھا جہاں نہ تو درخت تھے اور نہ ہی پانی آسانی سے دستیاب تھا ۔ گویا کے والدین نے لگ بھگ 1749ء میں سارا گوسا کے شہر میں ایک گھر خریدا اور جلد ہی اس میں جا بسے ۔ یہیں گویا نے Escuelos Pias نامی سکول میں داخلہ لیا جہاں اس کی دوستی مارٹن زیپاٹر (Martin Zapater) سے ہوئی ۔ دونوں کے درمیان ہوئی خط و کتابت آج بھی ایک اہم دستاویز ہے ۔ گویا نے تیرہ برس کی عمر میں استاد مصور جوزلوجان (Jose Lujan) کے سٹوڈیو میں اس کی شاگردی اختیار کی ۔ جوزلوجان جو نیپلز (Naples) سے تربیت یافتہ تھا ، نے گویا کو تصویر کشی سکھائی ، پہلے سے موجود Engravings کی نقلیں بنانا سکھایا اور آئل پینٹنگ کی شدبد دی ۔ یہ گویا کی چڑھتی جوانی کا دور تھا ۔ وہ مقامی میلوں کا ایک اچھا بُل فائٹر (Bull Fighter) تھا ۔ گٹار بھی بجاتا تھا۔ اکھڑ ، اڑیل اور صنف نازک کا رسیا تھا ۔ اس کے کئی معاشقے تھے جن میں سے ایک کے حوالے سے بدمزگی پیدا ہونے پر گویا کو ساراگوسا چھوڑ کر میڈرڈ جانا پڑا ۔
میڈرڈ میں اس نے استاد مصور اینٹن رافیل مینگس (Anton Raphael Mengs) کی شاگردی اختیار کی ۔ اینٹن رافیل ہسپانوی شاہی خاندان میں خاصا اثر رکھتا تھا ۔ گویا کا اکھڑ پن آڑے آیا اور اس کی اینٹن رافیل سے نہ بن پائی ۔ 1763ء میں گویا نے رائل اکیڈیمی آف سان فرنینڈو (Royal Academy of San Fernando) کے سکالرشپ کے لیے مقابلے کا امتحان دیا لیکن اینٹن رافیل سے اَن بن کی وجہ سے وہ سکالرشپ حاصل نہ کرسکا ۔ 1766ء میں اس نے دوبارہ کوشش کی پر اس بار بھی وہ کامیاب نہ ہوسکا ۔ گویا دل برداشتہ ہو کر روم چلا گیا جہاں اس نے 1771ء میں پرما شہر کی کونسل کے منعقدہ مصوری کے مقابلے میں دوسرا انعام حاصل کی ۔ اسی سال موسم خزاں میں وہ ساراگوسا لوٹا جہاں اس نے پلار (Pilar) کے بیسلیکا (Basilica) کے کپولا (Cupala) کا ایک حصہ پینٹ کیا اور اولا دئی (Aula Dei) اور سوبریڈیل (Sobradiel) محل کے لیے فریسکوز (Frescos) بنائے ۔ گویا کے معاشقے ، لڑائی جھگڑے ، علیحدگیاں اور طرح طرح کے ایڈونچرز بھی اپنی جگہ جاری رہے ۔ ان سب کے لیے پیسے کہاں سے آتے تھے؟ اس بارے میں دو طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں ۔ ایک کے مطابق وہ بطور بُل فائٹر پیسے کماتا تھا جبکہ دوسرے کے مطابق اس کو اخراجات کے لیے اشرافیہ کے ان خاندانوں سے رقم بطور تحفہ ملتی تھی جنہوں نے اس کی سرپرستی شروع کر دی تھی ۔ ان خاندانوں میں تین کے نام اہم ہیں: پگناٹیلی (Pignatelli) خاندان، گیوکیوچیا (Gocoechea) خاندان اور بے یو (Bayeu) خاندان ۔ ان میں سے بے یو خاندان کا فرانسسکو بے یو خود استاد مصور اور رائل اکیڈمی آف فائن آرٹس کا ڈائریکٹر ہونے کے علاوہ شاہی مصور بھی تھا ۔ گویا نے اس کے سٹوڈیو میں کام کے دوران رنگوں کے امتزاج میں مہارت حاصل کی اور مہین (Delicate) تصویر کشی کا فن سیکھا ۔ بے یو کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے گویا کی شناخت بطور مصور ابھرنے لگی ۔
1773ء میں بے یو اور گویا کا ساتھ رشتہ داری میں بدل گیا کیونکہ گویا نے بے یو کی بہن جوزفا (Josefa) سے شادی کرلی تھی ۔ گویا اسے پیار سے پےپا (Pepa) بلاتا تھا ۔ بے یو کے رائل اکیڈیمی آف فائن آرٹس میں ہونے ، جوزفا سے شادی اور انیٹن رافیل مینگس کی شاگردی تینوں اس بات کا سبب بنے کہ اسے شاہی ٹیپسٹری ورکشاپ (Royal Tapestry workshop) سے کام ملنے لگا اور 1792ء تک گویا نے ساٹھ سے زیادہ ٹیپسٹری کے ٹکڑے بنائے جو ایل ایسکوریل (El Escorial) اور ایل پارڈو (El Pardo) کے شاہی محلوں کی ننگی پتھریلی دیواروں کی سجاوٹ اور زینت کے کام آئے ۔ یہ دونوں محل سپین کے شاہی خاندان کے لیے نئے تیار ہوئے تھے ۔ یوں گویا سپین کے شاہی خاندان میں بطور ایک اچھے مصور کے متعارف ہوا اور اس کے لیے شاہی دربار کے دروازے کھل گئے ۔
1780ء میں گویا کو رائل اکیڈیمی آف سان فرنینڈو کا رکن منتخب کر لیا گیا اور شاہی دعوت پر اس نے میڈرڈ میں نئے نئے گرجا گھر سان فرانسسکو ایل گرینڈ
(San Francisco el Grande) کی قربان گاہ (Alter) کے پیچھے سات پینلوں (Pannels) میں سے ایک پینل کو پینٹ کیا ۔ ان سات پینلوں کو 1785ء میں پہلی بار عوام کو دکھایا گیا ۔ اسی سال گویا کو اکیڈیمی کا ڈپٹی ڈائریکٹر بنا دیا گیا ۔ 1786ء میں اسے شاہی دربار کا مصور بھی بنایا گیا ۔ اس سے قبل وہ اشرافیہ کے خاندانوں میں سے کئی ایک کے پورٹریٹ بنا چکا تھا ۔ 1883ء میں اس نے سپین کے بادشاہ چارلس سوم کے چہیتے شہزادے کاونٹ آف فلوریڈا بلانکا (Florida blanca) کا پورٹریٹ بنایا جس میں وہ خود بھی ہے ۔ اس کی دوستی ولی عہد شہزادے ڈون لوئیس سے بھی ہو چکی تھی ۔ وہ ڈیوک اوسونا (Osuna) اور اس کی بیوی کے پوٹریٹ بھی بنا چکا تھا ۔
گویا کے شروع کے ان پورٹریٹس میں یہ بات نمایاں نظرآتی ہے کہ اس نے اٹھارویں صدی کے روایتی پوز ہی استعمال کئے ۔ مثال کے طور پر اس نے ”چارلس سوم شکاری لباس میں“ نامی جو پورٹریٹ بنایا اس میں چارلس سوم اسی پوز میں کھڑا ہے جس طرح کے پوز ولاسکس (Valasquiz) کی پینٹنگز ، جو اس نے شاہی شکاریوں پر بنائی تھیں ، میں ملتے ہیں ۔ مزیدبرآں گویا کے ان پورٹریٹس میں بھی وہی ماحول ، لائٹ اینڈ شیڈ ، زندگی ، توانائی اور نازک ٹونز (Delicate Tones) نظر آتی ہیں جو ولاسکس کے ہاں ہیں ۔ کچھ نقاد البتہ یہ کہتے ہیں کہ ولاسکس کے پورٹریٹس زیادہ نوبل (Noble) دِکھتے اور زیادہ وجاہت رکھتے ہیں جبکہ گویا کے مصور کئے پورٹریٹس میں یہ خوبیاں کم دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ تنقید اپنی جگہ بجا ہو گی لیکن اسے اس پہلو سے بھی دیکھنا ہوگا کہ ولاسکس کے زمانے میں جو وجاہت شاہی دربار میں تھی وہ ہسپانوی دربار میں نظر نہیں آتی ۔ کہاں فلپ چہارم کہاں چارلس چہارم، کہاں میری این آف آسٹریا (Marianne of Austria) کہاں ماریا لوئسیا (Maria Luisa)، کہاں ڈیوک آف اولیورز (Duke of Olivares) کہاں مینوئل گوڈے (Manuel Goday) ۔ اگر ولاسکس گویا کے زمانے میں ہسپانوی شاہی پورٹریٹس بناتا تو ان میں بھی نوبلٹی (Noblity) اور وجاہت کم ہی نظر آتی کیونکہ ولاسکس کے زمانے کی نوبلٹی اور وجاہت گویا کے زمانے میں ماند پڑ چکی تھی ۔
گویا کے اس دور کے کام کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس میں ایک مخلصانہ حقیقت پسندی نظر آتی ہے جس میں موضوع کے کسی جزو کو نہ تو فراموش کیا گیا ہے اور نہ ہی بخشا گیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے موضوع (Subject) کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ بھی اپناتا ہے اورانہیں گھنٹوں ساکت حالت میں رہنے پر مجبور کرتا ہے ، یہی نہیں بلکہ کینوس پر اپنے موضوع کی انسانی حقیقت من و عن اتار دیتا ہے ۔ بعض اوقات اس انسانی حقیقت میں وہ بہت جراٗت کے ساتھ پورٹریٹ میں خاکوں (Caricature) کا انداز اختیار کرتا ہے ۔
1788ء میں چارلس سوم وفات پا گیا ، ادھر فرانس میں انقلاب پھوٹ پڑا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سپین میں خوشحالی اور روشن خیالی (Enlightenment) کم ہوتی جا رہی تھی لیکن گویا کا فن پختہ ہو چکا تھا ۔ کمزور چارلس چہارم اور اطوار کے اعتبار سے بگڑی اس کی ملکہ ماریا لوئسیا کی وجہ سے سپین سیاسی و سماجی بدعنوانی (Corruption) کا شکار ہونے لگا جس کے نتیجے میں سپین کو 1808ء میں نپولین کی فوجوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا ۔ چارلس چہارم کے دور میں گویا اپنے کیرئیر کے عروج پر تھا اور سپین کا سب سے کامیاب اور سب سے فیشن ایبل آرٹسٹ مانا جاتا تھا ۔ 1789ء میں گویا کو شاہی درباری مصور سے اونچے مقام ”بادشاہ کا مصور“ (King’s Painter) کے عہدے پر فائز کیا گیا ۔ گویا اب اس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ وہ پورٹریٹ بنانے کے لیے اپنی مرضی کا معاوضہ مانگ سکے ۔ یہ درست ہے کہ گویا کا اس دور کا بیشتر کام شاہی خاندان اور اشرافیہ کے پورٹریٹس سے جڑا ہوا ہے لیکن اس نے اس سے ہٹ کر بھی کئی ایک موضوعات کو پینٹ تو کیا ، جیسےThe Greasy Pole, The Injured Mason , The Kite , Fight at the Cock , Inn The Straw Manikin, The Fall ان میں اشرافیہ سے ہٹ کر موضوعات کو تصویرکشی کے لیے چنا گیا ہے ۔ گویا نے بُل فائیٹنگ کو بھی اپنی تصویروں کا موضوع بنایا ۔
گویا کے شاہی پورٹریٹس میں بادشاہ چارلس چہارم، ملکہ ماریا لوئسیا نمایاں ہیں ۔ لیکن ایلبا (Alba) کی شہزادی ڈیوکوفرنن نیونیز (Duque Fernan Nunez) کے پورٹریٹ اپنی جگہ اہم ہیں ۔ ڈیوکو فرنن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ گویا کے ساتھ اس کا معاشقہ تھا ۔
فرانسِسکو گویا کی دو بہت ہی مشہور پینٹنگز (1797 – 1800) The Nude Maja اور
The Clothed Maja (1803) کے بارے میں ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں ماڈل ڈیوکوفرنن تھی جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہنا ہے کہ مینوئل ڈی گوڈے کی داشتہ نے ان تصویروں کے لیے ماڈلنگ کی تھی ۔ یہ شاید اس لیے مشہور ہے کیونکہ بننے کے بعد یہ دونوں تصاویر گوڈے کی ملکیت میں تھیں ۔ لیکن 1813ء میں انہیں فحش قرار دے کر بحق سرکار ضبط کرلیا گیا ۔ یہ پابندی 1836ء تک برقرار رہی ۔ “The Nude Maja” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ویسٹرن آرٹ میں پہلی لائف سائز پینٹنگ ہے جس میں ایک حقیقی عریاں عورت بستر پر دراز ہے اور اس کا کوئی علامتی یا دیومالائی مطلب نہیں ہے ۔ گویا کی اس پینٹنگ پر سپین بھر میں ہنگامہ برپا ہوا پر گویا نے عریاں ماجا پر کپڑے پینٹ کرنے سے انکار کر دیا ۔ البتہ 1803ء میں اس نے دوسری پینٹنگ بنائی جس میں ماجا اسی انداز میں بسترپر دراز ہے جیسے پہلی والی پینٹنگ میں ہے لیکن اس میں اس نے لباس زیب تن کیا ہوا ہے ۔ 1815ء میں سپین کے چرچ کی مقدس کمیٹی نے گویا کو طلب کیا تاکہ وہ بتا سکے کہ اس نے کس کے کمشن کرنے پر انہیں بنایا تھا اور ان میں کون ماڈل بنی تھی؟ گویا نے غالباً کسی کا نام آشکار نہیں کیا تھا اسی لئے اس کے بعد اسے شاہی دربار کے مصور کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔
سپین کی پوسٹل سروس نے 1930ء میں گویا کی ان دونوں پینٹنگز پر دو پوسٹل ٹکٹ جاری کئے تو امریکی سرکار نے اعلان کردیا کہ سپین سے آنے والی جس ڈاک پر یہ ٹکٹیں چسپاں ہوں گی اسے موصول نہیں کیا جائے گا اور واپس کر دیا جائے گا ۔
عریاں ماجا اور ملبوس ماجا کا ذکر ہم نے یہاں اس لیے کیا کیونکہ یہ کسی طور ڈیوکوفرنن سے نتھی ہیں ۔ اگلی قسط میں ہم گویا کے بارے میں 1792ء سے دوبارہ آغاز کریں گے جو گویا کی مصوری میں ایک اہم موڑ (Turning Point) ہے ۔
گویا نے 1792ء میں میڈرڈ کو خیرباد کہا اور سپین کے جنوب میں سیاحی پر نکل پڑا ۔ شاید اسے اپنے آرٹ ورک کے لیے نئے منظرناموں ، نئے خیالات اور موضوعات کی ضرورت تھی ۔
1792ء کے آخری مہینوں میں وہ اینڈیلوسیا (Andalusia) میں تھا وہاں اسے ایک انجانی بیماری نے آ گھیرا جس کی تشخیص نہ ہو سکی ۔ اسے اپنے دماغ میں مستقل شور سنائی دیتا اور کانوں میں گھنٹیوں کے بجنے کی آوازیں آتیں ۔ غنودگی اور بے ہوشی پیچھا نہ چھوڑتی ۔ ہر وقت متلی محسوس ہوتی اور بسا اوقات وہ مفلوج ہو جاتا اور اس کی بینائی اندھے پن میں بدل جاتی ۔ اس انجانی بیماری کے ہاتھوں اس کی سننے کی حِس کُلی طور پر جاتی رہی ۔
وہ 1793ء کی گرمیوں میں میڈرڈ واپس لوٹ آیا ۔ اس بیماری کا اثر اس پر پانچ سال تک رہا ۔ جس کے باعث وہ خاصا گوشہ نشین ہو گیا تھا ۔ اس دوران فرانسیسی انقلاب اور اس کے پیچھے کارفرما فلسفے کا مطالعہ بھی اس کی مصروفیت کا حصہ رہا ۔
1793-4 میں گویا نے گیارہ (11) تصویروں کا ایک سیٹ مکمل کیا ۔ یہ چھوٹے سائز کی تصویریں اس نے ٹین (Tin) پر پینٹ کی تھیں ۔ ان کو فینٹیسی اور انوویشن (Fantasy and Invovation) کا نام دیا جاتا ہے ۔ ان گیارہ تصاویر کو گویا کی مصوری میں ایک واضع تبدیلی گردانا جاتا ہے ۔ اشرافیہ کے پورٹریٹ بنانے اور ان کے لیے سجاوٹی فریسکو پینٹ کرنے والا گویا ان تصویروں میں ایک اور ہی جہت کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ۔ گہرے رنگوں کے ساتھ ڈرامائی فینٹسی کا رنگ لیے یہ کسی بھیانک خواب جیسی دکھائی دیتی ہیں ۔ ”پاگلوں کا صحن“ (Courtyard with Lunatics) ایک دل ہلا دینے والی پینٹنگ ہے جو تنہائی، خوف اور سماجی بیگانگی (Social Alienation) کی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے اور ٹریٹ منٹ کے اعتبار سے اس میں وہ سطحی پن نہیں جو گویا سے پہلے کے مصوروں جیسے کہ ہوگراتھ (Hograth) کے ہاں نظر آتا ہے ۔ اس پینٹنگ میں گویا والتیئر اور دوسرے ہم عصر لکھاریوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جو جیلوں اور پاگل خانوں میں اصلاحات پر زور دیتے تھے ۔ قیدیوں کے ساتھ بربریت والا سلوک خواہ وہ مجرموں سے ہو یا ذہنی مریضوں کے ساتھ ۔ اس موضوع پر گویا نے بعد میں بھی کئی پینٹنگز بنائیں ۔
ان ٹین پر بنی تصویروں کے بنانے کے دوران گویا خود بھی جسمانی اور ذہنی لحاظ سے تبدیلی کا سامنا کررہا تھا ۔ شاہی پورٹریٹس کے متوازی اب وہ ایسی پینٹنگز بھی بنا رہا تھا جنہیں بعد میں بلیک تصویروں (Black Paintings) کا نام دیا گیا ۔ ان تصویروں میں کردار نہ تو وجیہہ ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق اشرافیہ سے ہے بلکہ وہ عام معاشرے کے ایسے کردار ہیں جن کے چہرے معاشرتی و سماجی جبر و استحصال سے مسخ (Distort) ہو گئے ہیں ۔ کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ یہ تصویریں گویا کے اپنے پیرانائیڈ (Paranoid) ہونے کا نتیجہ ہیں ۔ ان میں نمائندہ پینٹنگ Saturn Devouring one of His Sons ہے ۔ اس قسم کی تنقید اس لیے درست نہیں کیونکہ اپنی بیماری کے دوران گویا کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کا شدت سے احساس ہوا تھا اور اسی احساس کے تحت اس نے اشرافیہ کے لیے کی گئی مصوری کے متوازی ان تلخ حقیقتوں کو بھی مصور کرنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں بھی کرتا رہا ۔
جب فرانسسکو بے یو 1795ء میں انتقال کر گیا تو اس کی جگہ گویا کو اکیڈمی میں پینٹنگ کا ڈائریکٹر بنایا گیا لیکن بہتر صحت نہ ہونے کے باعث دو سال بعد ہی اس نے استعفیٰ دے دیا ۔ 1799ء میں اسے ”فرسٹ کورٹ پینٹر“ کے عہدے پر فائز کیا گیا ۔ اسی سال گویا نے 80 پرنٹس (Prints) پر مشتمل اُس سیریز کو شائع کیا جو وہ پچھلے کئی سالوں سے ایچنگ (Etching) کی تکنیک اختیار کرتے ہوئے بناتا رہا تھا ۔ اسے گویا نے Los Caprichos کا نام دیا جس کے پہلے پرنٹ پر اس کا اپنا سائیڈ پوز میں پورٹریٹ ہے ۔ ویسے تو Capricho کا مطلب فینسی (Fancy) ہوتا ہے لیکن پرنٹس کی اس سیریز میں فینسی نام کی کوئی شے نہ ہے ۔ ان پرنٹس میں گویا نے بڑی بے رحمی کے ساتھ سماجی، سیاسی اور مذہبی دوغلے پن پر تنقید کی ۔ شادی کے انسٹی ٹیوٹ کو جسم فروشی کی ایک شکل گردانا ۔ کیتھولک چرچ کو لالچ میں اندھا دکھایا ۔ پادریوں کے چہروں سے نیکی کا نقاب اتارتے ہوئے انہیں چرچ میں حمد و نعت گانے والے نوجوان لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے اور شراب و کباب کا رسیا ظاہر کیا ۔ گویا نے چرچ کی مقدس کمیٹی (Inquisition) کو تو رگید کررکھ دیا ۔ Los Caprichos کی اشاعت پر چرچ بہت خفا ہوا اور مجبوراً اسے مارکیٹ سے ہٹا لیا گیا۔ ان پرنٹس میں کئی ایک پر عنوان بھی دئیے گئے ہیں جو تصویر کے ساتھ مل کر ایک عمدہ طنز (Satire) پیدا کرتے ہیں ۔ ان پرنٹس میں سے کچھ ایسے دکھائی دیتے ہیں جن میں گویا نے اپنے جاننے والے لوگوں کے کیری کیچر (Caricature) بنائے اور ان پر عنوان بھی لگائے ہیں ۔ ایک پرنٹ میں ایک بدشکل عورت ہے (غالباً ملکہ ماریا لوئیسیا) اور اس پر عنوان ہے ”یہ ہر کسی کو ہاں کہتی ہے“ (She says yes to anyone) ۔
ان پرنٹس میں سب سے اہم پرنٹ The Sleep of reason brings forth Monsters| ہے۔ اس میں ایک آدمی سویا ہوا دکھایا گیا ہے جس کے سر کے اردگرد الُو اور چمگادڑیں چکر کاٹ رہی ہیں ۔
گویا باسٹھ سال کا تھا جب نپولین کی افواج نے 1808ء میں سپین پر حملہ شروع کیا ۔ اگلے چھ سال تک سپین جنگ اور انقلاب کی لپیٹ میں رہا ۔ گویا میڈرڈ میں ہی تھا جب 2 اور 3 مئی 1808ء کے اندوہناک واقعات رونما ہوئے اور سپین کی مقامی آبادی فرانسیسی فوجوں کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہو گئی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ فرانسیسیوں نے ہسپانوی عوام کی اس مزاحمت کو بری طرح کچل دیا تھا ۔
گویا نے سپین کی باقی اشرافیہ کے ساتھ فرانسیسی بادشاہ جوزف بوناپارٹ کی اطاعت تو قبول کرلی اور اشرافیہ کے فیملی پورٹریٹ بھی بناتا رہا لیکن ساتھ ہی ساتھ جنگ کے حوالے سے اپنا ذاتی ریکارڈ بھی مصور کرتا رہا ۔ ”جنگ کی تباہ کاریاں“ (Disaster of War) کے نام سے 82 ایچنگس (Etchings) پر مشتمل یہ تصویریں گویا کی وفات کے 35 برس بعد 1863ء میں شائع ہوئیں ۔ 1812ء میں جب انگریز فوجیوں نے فرانسیسیوں کو سپین سے مار بھگایا اور میڈرڈ میں داخل ہوئے تو گویا نے ڈیوک آف ولنگٹن (Duke of Willington) کی خواہش پوری کرتے ہوئے اس کے پورٹریٹ بھی بنائے ۔ ڈیوک آف ولنگٹن وہ واحد برطانوی شخص ہے جو گویا کے پورٹریٹس کا موضوع بنا ۔
1814ء میں جب فرڈیننڈ ہفتم کی حکومت سپین میں بحال ہوئی تو باوجود اچھے تعلقات نہ ہونے کے گویا کو ”فرسٹ پینٹر آف دی کورٹ“ کے عہدے پر بحال کر دیا گیا ۔ اس عہدے سے معزولی کا ذکر پہلی قسط میں ”عریاں ماجا“ اور ”ملبوس ماجا“ کے حوالے سے کیا جا چکا ہے ۔
فرڈیننڈ کا پورٹریٹ گویا کا آخری شاہی پورٹریٹ ہے ۔ 1814ء میں ہی گویا نے 2 اور 3 مئی 1808ءکے المناک واقعات پر دو پینٹنگز بنائیں جو گویا کے شاہکار سمجھتے جاتے ہیں ۔ یہ The Second of May 1808: The charge of Mamelukes اور
The Third of May 1808: The Execution of the Defenders of Madrid ہیں ۔ فرڈیننڈ کے دور حکومت میں گویا کا مقام شاہی دربار میں کم ہوتا گیا اور وہ اپنے ذاتی مداحوں کے لیے مصوری کرتا رہا ۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے خیالات اور مشاہدات کو بھی تصویروں میں ڈھالتا رہا ۔ 1817ء میں البتہ اسے سویل (Seville) کیتھیڈرل کے لیے پینٹ کرنے کا موقع دیا گیا ۔ اسی طرح 1819ء میں اسے میڈرڈ کے Escuelas Pias de San Anton گرجے کے لیے پینٹ کرنے کی دعوت بھی ملی ۔ اس حوالے سے گویا کی پینٹنگ The Last Communion of St. Joseph of Calasanz مشہور ہے۔ اس سے قبل وہ میڈرڈ شہر کے باہر ایک گھر میں شفٹ ہو گیا جو ”بہرے آدمی کا گھر“ (House of the Deafman) کے نام سے مشہور تھا ۔ گویا کے بہرے پن سے اس نام کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ اس آدمی کے نام سے موسوم تھا جس سے گویا نے یہ گھر خریدا ۔ گویا کو گھر بیچنے والا خود بھی بہرا تھا ۔ گویا نے اس گھر میں رہنے کے دوران وہ پینٹگز بنائیں جن کو بلیک پینٹنگز کہا جاتا ہے اور جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ۔ اس نے ان پینٹنگز کو اپنے گھر کے بڑے ہال میں سجایا تاکہ ان سے خود کو محظوظ کر سکے ۔ وہ اس گھر میں اپنی ہاﺅس میڈ (House Maid) ڈوریا کے ساتھ اکیلا رہتا تھا ۔ ڈوریا کی بیٹی روزیریو (Rosario) گویا کی مصوری اور ایچنگ (Etching) میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔ گویا کی اپنی بیوی اس گھر میں آنے سے قبل ہی 1812ء میں انتقال کر گئی تھی ۔
1820ء کے انقلاب نے فرڈیننڈ ہفتم کو مجبور کر دیا کہ وہ نئے آئین کو منظور کرے ۔ گویا آخری بار 4 اپریل 1820ء کو اکیڈیمی میں عوام کے سامنے آیا تاکہ نئے آئین کے مطابق حلف اٹھا سکے ۔ 1823ء میں فرانسیسی فوج نے سپین کے بادشاہ کو مطلق العنانی کے ساتھ دوبارہ تخت پر لا بٹھایا تو لبرل عناصر زیرِعتاب آگئے اور ان کا قلع قمع کیا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ گویا کو بھی 1924ء کے اوائل میں روپوش ہونا پڑا ۔ جب عام معافی کااعلان ہوا تو گویا نے سپین کو خیرباد کہہ دیا اور فرانس کے شہر Bordeaux میں رہائش اختیار کرلی ۔ البتہ وہ دوبار مختصر عرصے کے لیے 1826ء اور 1827ء میں میڈرڈ آیا ۔ اس کے بیٹے فرانسِسکو جیویئر (Fransisco Javier) اور سپین کے عوام نے اس کا پرجوش استقبال کیا مگر وہ سپین میں نہ ٹھہر ا اور واپس، Bordeaux چلا گیا ۔ عمر کے آخری حصے میں وہ تنہا اپنے بہرے پن کے ساتھ بند کمرے میں مقفل کسی ایسی شے کی آمد کے انتظار میں بیٹھا دکھائی دیتا ہے جس نے کبھی نہ آنا تھا ۔ ایک روز اسے اپنے بیٹے جیوئیر کا خط ملا کہ وہ اور اس کا بیٹا اس سے ملنے آ رہے ہیں ۔ گویا جذباتی ہوا تو بیماری ایک بار پھر در آئی ۔ بیٹا اور پوتا آ تو گئے پر بیماری اس بار جان لیوا ثابت ہوئی ۔ گویا 16 اپریل 1828ء کو انتقال کر گیا اور Bordeaux میں ہی دفن ہوا ۔
اس کے آرٹ میں دل میں اتر جانے والے موضوعاتی عنصر اور رنگوں کے شوخ (Bold) امتزاج نے بعد کی نسلوں کے مصوروں خصوصاً مانے (Manet) اور پکاسو کو بہت متاثر کیا ۔ اس کی بلیک پینٹنگز Expressionist تحریک کا آغاز سمجھی جاتی ہیں ۔ ایچنگ (Etching) کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے پینٹنگ کوالٹی کے پرنٹ تخلیق کرتے ہوئے اس نے ایک بار کہا تھا: ”پینٹنگ میں کوئی قاعدہ اور قانون اٹل نہیں ہوتا“۔
گویا کا اثر بعد کی نسلوں کے مصوروں پر تو پڑنا ہی تھا جبکہ اس نے فنون لطیفہ کی دوسری صنفوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ 1911ء میں اینرک گریناڈوس (Enrique Granados) نے پیانو پر جو دھنیں بنائیں وہ گویا کی مصوری کے اثر سے لبریز تھیں ۔ اینرک نے 1916ء میں ایک آپیرا (Opera) تیارکیا تو وہ بھی گویا سے متاثر تھا ۔ دونوں کو اینرک نے Goyescas کا نام دیا۔ گیان کارلومینوٹی (Gian Carlo Menotti) نے 1986ء میں گویا نام کا ایک سوانحی آپیرا لکھا ۔ 2000ء میں مائیکل نائی مین (Michael Nyman) نے آپیرا Facing Goya لکھا۔ 1995ء میں کلائیو بارکر نے Colossus نامی جو ڈرامہ لکھا اس کا مرکزی کردار گویا ہی تھا ۔
گویا کی زندگی پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ ان میں Goya،1948)، The Naked Maja،1958) ، Goya Historia de una soledad (1971) ، Goya in Bordeaux(1999)، Volaverunt(1999) اور Goya’s Ghost(2006) شامل ہیں۔
1988ء میں امریکی تھیٹر میوزک کمپوزر مورے یسٹن (Morry Yeston) نے اپنے میوزک کی ایک البم Goya: A life in song ریلیز کی۔
پکاسو پر لکھی گئی ہر تحریر سے عمومی طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ پکاسو کی مصوری اور فن پر اس کی زندگی میں آنے والی عورتوں کا ایک بڑا اثر تھا ۔ اس کے برعکس گویا کی زندگی پر ایسا کوئی شائبہ بھی نہیں ملتا ۔ وہ پکاسو اور دیگر کئی مصوروں اور آرٹسٹوں کی طرح ” hetero ” نہیں ہے اور اس کی زندگی میں اس کی بیماری ہی ایسا موڑ ہے جہاں سے وہ اشرافیہ کے پورٹریٹس بناتے بناتے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بھی مصور کرنے لگا تھا ۔
گویا کی زندگی پر لوگوں نے بہت سی سوانح عمریاں لکھیں ۔ انیسویں صدی کے فرانسیسی روشن خیال مصنف گویا کو بطور ایک ہیرو کے جو بادشاہت کے خلاف ہے پیش کرتے رہے ہیں لیکن بیسویں صدی میں لکھی جانے والی سوانح عمریوں میں زیادہ حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے ، جن میں سب سے زیادہ اہم رابرٹ ہیوگس (Robert Hughes) کی لکھی ”گویا“ ہے۔ جس میں ہیوگس نے گویا کو بحیثیت انسان دیکھا ہے جس میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ۔ اشرافیہ کے پورٹریٹ بناتے ہوئے وہ خسیس ہے ۔ اپنے مٗوکل سے پوچھتا ہے کہ وہ اس کے پورٹریٹ میں اس کے ہاتھ لباس میں چھپے ہوئے دکھائے یا ہاتھوں کو بھی نمایاں کرے ۔ ہاتھوں کے ساتھ پورٹریٹ مصور کرنے کا وہ دگنا معاوضہ لیتا ۔ اس کے برعکس بلیک پینٹنگز کرتے وقت وہ بہت دیالو ہے ۔ اشرافیہ کا مصور بھی ہے اور عوام کا بھی ۔ ہیوگس کی کتاب میں گویا Genius اور آرٹسٹ تو ہے پر اس طرح کا ہیرو نہیں جو شروع میں لکھی گئی سوانح عمریوں میں دکھایا گیا ہے ۔
گویا کا زیادہ تر کام یورپ اور امریکہ کی آرٹ گیلریوں میں محفوظ ہے جبکہ کچھ پرائیویٹ Archives میں بھی موجود ہے ۔
گویا نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں کالے چاک سے ایک ڈرائینگ بنائی جس میں ایک بوڑھا دو چھڑیوں کے سہارے چلنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا ہے اس کا عنوان گویا نے Aun Apran do رکھا جس کا مطلب ہے ”میں اب بھی سیکھ رہا ہوں۔ “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...