غالباً2010ء کی بات ہے جب مہر و وفا کے اس پیکر سےعزیزم شعیب خورشید کے توسط سے شناسائی ہوئی۔ تب کریم اعوان صاحب برادرم شعیب خورشید کے گھر واقع لوئر چھتر میں بہ طور کرایہ دار مقیم تھے۔ شعیب نے ان کے کردار و قلم کی اس قدر تعریف کی کہ ان سے ملنے کا اشتیاق بڑھنے لگا۔ بالاخر ایک شام اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے ملنے ان کے درِ دولت پر حاضر ہو گیا۔ باریش اور متبسم چہرہ، سر پر گلگتی اونی ٹوپی، سفید شلوار قمیص میں ملبوس وجیہ اور باوقار انداز کے ساتھ دروازہ کھولا۔ دھیمے اور مترنم لہجے میں خوش آمدید کہا۔ ان سے پہلی نشست کم و بیش ایک گھنٹے کو محیط تھی جس میں انھوں نے بہت ہی مدلل انداز میں حضرت حنفیہ رحمۃ الله عليه کی اولاد پر بات کی۔ تب تک مجھے اتنا اندازہ بھی نہ تھا کہ قبائل پر اتنا علم بھی کسی کا ہو سکتا ہے۔ اس اولین ملاقات میں چائے کے بعد انھوں نے اپنی تالیف “مختصر تاریخ علوی اعوان مع ڈائریکٹری عطا کی۔ یہ ملاقات کریم اعوان صاحب سے ایک بھرپور تعلق کی بنیاد ثابت ہوئی۔ ان سے ہونے والی گفت گو میں یہ بات واضح ہو گئی کہ قبیلے کے حوالے سے تحقیق ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ان کی کتب کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ نہایت خشک مضمون اور انتہائی مشکل کام کو انھوں نے بہت نفاست اور آسانی سے سر انجام دیا ہے۔
علم الانساب کی راہوں کا یہ مسافر 15 جنوری 1964ء کو سنگولہ ضلع راولاکوٹ کی دھرتی پر پیدا ہوا۔ پانچویں جماعت تک کی رسمی تعلیم بیرموں سنگولہ کے سرکاری پرائمری اسکول سے حاصل کی مابعد ششم اور ہفتم جماعت کا امتحان گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول بن بیک سے پاس کیا۔ جماعت ہشتم کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول سنگولہ کا انتخاب کیا اور مڈل کا امتحان یہاں سے پاس کیا۔ مابعد عروس البلاد کراچی کا رخ کیا اور میٹرک کی سند تعلیمی بورڈ کراچی سے بہ طور پرائی ویٹ امیدوار حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کامرس کے مضامین کے ساتھ گورنمنٹ نیشنل کالج شہیدِ ملت روڈ کراچی سے کیا۔ اعلا اسناد کا حصول بھی اسی شہرِ قائد سے کیا۔ بی۔ کام جامعیہ ملیہ کالج ملیر سے مکمل کیا۔ بین الاقوامی تعلقات اور تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگریاں پرائی ویٹ امیدوار کی حیثیت سے جامعہ کراچی سے مکمل کیں جب کی قانون میں گریجویشن وفاقی اردو لا کالج سے مکمل کیا۔ تعلیمی سلسلے کی ایک سند بیچلر آف ایجوکیشن آزاد جموں کشمیر یونی ورسٹی سے مکمل کی۔ کریم اعوان صاحب نے عملی زندگی کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے گزاری بعدازاں آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں آ گئے جہاں مختلف نوعیت کے عہدے پر اپنی خدمات سر انجام دیں اور تادمِ تحریر سیکشن آفیسر کی کرسی پر موجود ہیں۔
کریم اعوان صاحب کی شخصی خوبیاں بے شمار ہیں جن میں چند یہ ہیں ،مستقل مزاج،یار باش، انسان دوست، غریب پرور ، خوش اخلاق، ہنس مکھ، دیانت دار، محنتی، مہمان نواز، ہم درد، پرہیز گار، دین دار وغیرہ۔ ان سے ملنے والا ان سے بارہا ملنے کی خواہش کرتا ہے۔ اجنبی یا شناسا جو کوئی بھی ان سے معاونت چاہتا ہے مایوس نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ایک واقعہ یوں ہے کہ: راقم کے کالج کے لیکچرر بشیر الدین چغتائی صاحب اپنے شجرےاور قبیلے پر تحقیقی کام کر رہے تھے۔ مواد کے حوالے سے ان کو جب میں نے پریشان دیکھا تو ایک دن کہا کہ آپ کو ایک ایسے ماہر الانساب سےملواتا ہوں جو یقیناً آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ المختصر کریم صاحب سے وقت طے کر کے ان کے دفتر میں پہنچ گئے۔ حسبِ معمول اپنی نشست سے اٹھ کر بہت جوش سے ملے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جب مدعا بیان کیا تو انھوں نے فوراً دو تین کتب کی نہ صرف نشان دہی کی بل کہ اپنی ذاتی لائبریری سے وہ کتابیں عنایت بھی کیں۔ بشیر الدین صاحب، کریم صاحب کے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اور آج تلک جب بھی ان کا ذکر کرتے ہیں محبت اور احترام کا پہلو شامل رہتا ہے۔
اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن سے ان کی شرافت، علم دوستی اور مہر و محبت ظاہر ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کسی شخص کو جانچنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرو کریم اعوان صاحب کے ساتھ مظفرآباد تا مانسہرہ کئی ایک اسفار کرنے کا موقع ملا۔ ایک سفر بھی ایسا نہیں رہا جس میں انھوں نے اپنی مرضی دوسرے شخص پر تھونپی ہو۔ سفر میں سنجیدہ اور کارآمد گفت گو سے ہم سفر کو مصروف رکھنا ان کا خاصا ہے۔ سفر کے دوران میں باربار چائے کا پوچھنا بھی ان کی ایک خوبی ہے۔ چائے اور طعام کے اخراجات کو اصرار کر کے اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں اور ہم سفر کا اکرام کرتے ہیں۔ ان کی فراغ دلی کا ثبوت اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خرچ کرنے میں کبھی حیل وحجت سے کام نہیں لیتے دوستوں اور احباب پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔کریم اعوان صاحب کی سادگی اور عاجزی کا زمانہ معترف ہے۔ ان کے مزاج میں کسی کے خلاف زہر اگلنا پیدائش سے ہی موجود نہیں۔ جس طرح ہر بڑے اور کام یاب انسان سے بغض و عداوت رکھنے والوں کی کمی نہیں ایسے ہی ان کے خلاف الزام تراشی کرنے والے بھی موجود ہیں تاہم وہ سب کا بھلا اور سب کی خیر چاہتے ہیں۔ ان کی زبان سے کبھی کسی کے خلاف برائی نہیں سنی۔ ہنستے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ سر لوگوں کو باتیں کرنے دیں اس سے کیا ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ان کی ایک کتاب قطب شاہی علوی اعوان چودہ سو سالہ تاریخ کے آئینے میں پر ایک شریر شخص نے اپنی خصلتِ بد کو ظاہر کرتے ہوئے عمران خان کی تصویر لگا کر سپردِ فیس بک کر دیا۔ اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا کریم اعوان صاحب سے بات کی تو بہت نرم انداز میں فرمانے لگے کہ کوئی بات نہیں کرنے دیں شاید ایسا کرنے والے کو تسکین ملتی ہو گی۔ چوں کہ میرا ان کے دفتر میں بھی اکثر جانا ہوتا ہے تو میرا مشاہدہ ہے ان کا کوئی ماتحت اگر کسی کام میں غفلت کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو نہایت مشفقانہ انداز میں سمجھاتے ہیں۔ کبھی ان کو غصے میں دیکھا نہ ہی ان کے ماتھے پر کبھی بل پڑا ہوا نظر آیا۔ چھٹی والا دن بھی زیادہ تر دفتر میں ہی گزارتے ہیں۔ دفتری امور کی انجام دہی کے بعد جو وقت میسر آتا ہے وہ اپنی تحقیقی و انسابی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ کسی کا کوئی کام ہوا تو بلاتامل اور بہ خوشی کر دیتے ہیں گویا ان کا ذاتی کام ہو۔
کریم صاحب اپنی مٹی اور اپنے قبیلے کی مہر و مروت میں پورے پورے ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کریم کا بیٹا ہونے پر بہ جا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے انساب کی تحقیق میں سرگرداں ہیں۔ ان کا قلم جب بھی چلا ہے ایک جان دار اور بامعنی تحقیق منظرِ عام پر آئی۔ ان کی سرشت میں تحقیق کی صعوبتوں کو جھیلنے کی صلاحیت بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ سیکڑوں کتب کا مطالعہ کرنے، کئی کئی میل کے اسفار ،سارا سارا دن اور تمام تمام رات کی جستجو کے بعد کتاب کی تیاری کا اہتمام اور انتظام گویا ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ فارسی، عربی، اردو اور دیگر کئی زبانوں میں علم الانساب پر کتب کے مطالعے نے ان پر فصاحت و بلاغت کے در یوں وا کیے ہیں کہ وہ علم الانساب کا چلتا پھرتا انسائکلو پیڈیا بن گئے ہیں۔ تحقیق الاعوان ان کے رگ وپے میں لہو بن کر گردش کرتی ہے اعوان قبیلے کے حوالے سے معلومات کا تو گویا انھوں نے گھونٹ پی رکھا ہے۔ ان کی تحقیق میں ادبی چاشنی کے علاوہ سادگی و سلاست قاری کے مزاج پر چنداں گراں نہیں گزرتی۔ کریم خان اعوان صاحب کی اب تک شائع ہونے والی تالیفات اور تصنیفات کی تعداد چھے ہے جن میں تحقیق الانساب جلد اول 2007ء میں شائع ہوئی۔ تحقیق الانساب کی دوسری جلد 2013ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ 2015ء میں ان کی شائع ہونے والی کتاب تاریخ قطب شاہی علوی اعوان ہے۔ چار سال کے وقفے کے بعد 2019ء میں آپ کی پانچویں کتاب بابا سجاول علوی قادری تاریخ کے آئینے میں منظرِ عام پر آئی۔چھٹی اور تاحال شائع ہونے والی آخری کتاب قطب شاہی علوی اعوان فی نسب آلِ محمد و الاکبر 2022ء میں منظرِ عام پر آئی۔اس کتاب کی تقریبِ رونمائی 4 ستمبر 2022ء کو برخانہ ڈاکٹر محمد نذیر اعوان صاحب سراڑ کے مقام پر ہوئی۔ اس تقریب میں متفقہ طور پر راقم، سالک محبوب اعوان، عتیق الرحمان اعوان اور ڈاکٹر محمد نذیر اعوان صاحب نے کریم صاحب کے لیے ” قائد اعوان” کا خطاب تجویز کیا ۔ شرکائے تقریب نے ہاتھ اٹھا کر اس بات کی تائید کی۔ اس تقریب میں زم زم ویلفئیر سوسائٹی سراڑ کی جانب سے کریم علوی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔ فرہاد احمد فگار، سالک محبوب اعوان اور عتیق الرحمان اعوان کی طرف سے مشترکہ طور پر “قائدِ اعوان” کے خطاب کی اعزازی شیلڈ بہ طور سند پیش کی گئی۔ کریم صاحب کی یہ کتاب اعوان قبیلے کی چودہ سو سالہ تاریخ کا خلاصہ ہے جس میں عربی،فارسی،اردو،پنجابی،پشتو،سندھی،انگریزی،ترکی، فرانسیسی زبانوں کی قریب 460 کتب کے مستند حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ اعوان قبیلہ حضرت علی ابن ابی طالب رضى الله تعالیٰ علیہ کے بیٹے حضرت محمد حنفیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اولاد سے ہے۔ یہ کتاب جہاں کریم اعوان صاحب کے وسیع المطالعہ ہونے کی غماز ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ دشتِ تحقیق کی سیاحی میں بسر کیا۔ ان کا جملہ تحقیقی کام ان کی محنتِ شاقہ کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بل کہ کئی دیگر کتابوں پر بھی شبانہ روز کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ان کی آمدہ کتب میں تحقیق الانساب کی تیسری جلد اور اپنے مرزبوم سنگولہ کی محبت میں کتاب “سنگولہ تاریخ کے آئینے میں” عن قریب قارئین کے ہاتھوں میں ہوں گی ان شاءاللہ۔ علاوہ ازیں اعوان قبیلے پر جتنی بھی کتب میری نظر سے گزریں ان میں ننانوے اعشاریہ نو فی صد کتب میں اس مردِ مجاہد کی مکمل معاونت شامل رہی۔ کریم صاحب خود بھی بہت زیادہ کارگزار اور مستعد انسان ہیں اور دوسروں سے کام کروانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ آپ کی محبتیں ایسی ہیں کہ ہر خاص و عام ان سے مستفید ہوتا ہے۔ مہر و وفا اور خلوص و شائستگی اگر کسی نے سیکھنی ہے تو آئے اور اس عظیم انسان کی مجلس کا حصہ بنے۔
آخر میں معراج جامی کا ایک شعر اس مردم دوست ہستی کے لیے:
دشمنوں کے لیے بچا ہی نہیں
دوستوں ہی میں بٹ گیا ہوں میں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...