( اس تحریر میں سارے کردار فرضی ہیں اور اسے موجودہ حکومت پر تنقید بھی نہ سمجھا جائے )
جب مہنگائی ہوتی ہے تو مجھے اس کا پہلا اندازہ پٹرول پمپ پر ہوتا ہے اور پھر گروسری سٹور ، سبزی ، پھل اور گوشت فروشوں کے ہاں لیکن آج میرا دھیان کچھ اور بھی باتوں کی طرف بھی گیا ہے اور میں چونک گیا ہوں ۔
میں جس علاقے میں پچھلے پچیس سال سے رہ رہا ہوں اس میں کھاتی پیتی مڈل کلاس کے گھرانے آباد ہیں ؛ یہ ہر مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، شیعہ ، سنی سب ، یہاں تک کہ ایک دو مسیحی بھی ہیں ۔
اس بار جو کرسمس گزری تو مجھے مسز الیون نے گھر میں بنی کوکا ۔ کوکیز ( Coca – Cookies ) اور ریڈ وائن کی تیکھی خوشبو والے ’ کرسمس کیک ‘ کا ٹکڑا نہیں بھیجا ؛ وہ ہر کرسمس پر مجھے یہ بھیجا کرتی تھیں ۔ کرسمس گزر گئی اور بات آئی گئی ہو گئی ۔
گڈ فرائیڈے آیا اور پھر ایسٹر بھی ؛ مسز الیون اس موقع پر بھی کوئی خصوصی میٹھا پکوان پکاتیں اور ' ایسٹر انڈوں ' کے ہمراہ محلے بھر میں تقسیم کرتیں لیکن اس بار بھی ان کی طرف سے کچھ نہ آیا ۔
اصغر صاحب میرے گھر کے بائیں طرف چار گھر چھوڑ کر رہتے ہیں ۔ رمضان سے ان کا لگاﺅ کچھ ایسا ہے جیسے گھر میں داماد آیا ہو جس کی آﺅ بھگت ان پر لازم ہو ۔ چاند نظر آنے کے اعلان کے ساتھ ہی اُن کے گھر سے اُن کے بچوں کی فوج ظفر موج ہاتھوں میں شرینی سے بھری ایلومینیم فوئیل کی طشتریاں لے کر نکلتی اور یہ بچے سب دروازوں کی گھنٹیاں بجاتے ہر گھر میں ایک ایک طشتری دیتے جاتے ؛ اس بار چاند نظر آنے کا اعلان تو ہوا لیکن ان کے گھر سے ایک بچہ بھی باہر نہ نکلا ۔
شیخ ثنا اللہ کا گھر باغ کے پرلی طرف بالکل میرے سامنے پڑتا ہے ۔ وہ وہابی ہیں یا تبلیغی یا کچھ اور مجھے اندازہ نہیں ؛ وہ نذر و نیاز پر یقین نہیں رکھتے ۔ ان کا رمضان میں طور الگ ہوتا کہ وہ چاول ، آٹا ، کچھ دالیں اور بناسپتی گھی پر مشتمل ' راشن ' کے پیکٹ بنواتے اور یکم رمضان کو نماز عصر کے بعد ، جن کو مستحق سمجھتے انہیں ایک ایک پیکٹ تھما دیتے ؛ اس بار ان کے گھر کے باہر مستحقین کی یہ قطار نہ لگی ۔
مسز زیدی بائیں طرف میرے گھر کے ساتھ والے گھر میں رہتی ہیں ۔ وہ ہر رمضان میں 19 ویں روزے سے لے کر21 ویں تک تین دن افطاری کے سامان کے علاوہ حلیم اور نانوں کا لنگر جاری رکھتی تھیں ؛ یہ لنگر محلہ داروں کے ہاں بھی جاتا اور تینوں دن مغرب سے لے کر عشاء تک ہر خاص و عام کے لئے وافر مقدار میں موجود رہتا ؛ اس بار یہ لنگر نہ لگا ۔
ڈاکٹر شاہدہ میرے گھر کے دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر رہتی ہیں ؛ ان کی عادت رہی ہے کہ وہ رمضان کے پہلے دو عشرے مکمل ہونے پر، 21 اور 27 رمضان والے روز پابندی سے نذر نیاز دیا کرتی تھیں ؛ پہلا عشرہ مکمل ہوتا تو متنجن آتی ، دوسرا مکمل ہوتا تو مٹن پلاﺅ اور چکن قورمہ ،21 رمضان کو حلیم وروغنی نان اور 27 ویں روزے پستے ، باداموں اور چاندی کے ورقوں سے سجی کھیر ؛ اس بارانہوں نے نہ تو عشرے مکمل ہونے کچھ بانٹا اور نہ ہی حضرت علی کی شہادت اور لیلة القدر کے حوالے سے21 و 27 رمضان کو کسی نیاز کا اہتمام کیا ۔
ان کے علاوہ میرے اردگرد کے اور بھی گھرانے اپنے اپنے مذہبی عقیدے اور من کے سودے کے مطابق رمضان میں کسی نہ کسی روزے ، افطار سے کچھ پہلے کچھ نہ کچھ ہمسایوں میں بانٹتے تھے لیکن اس بار کسی نے ایک کجھور تک نہ بانٹی ۔ میں ٹھہرا لادین سو میری بات جانے دیں ۔
آج صبح جب میں اپنے پہلی چائے کی چُسکیاں لے رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ اس بار اصغر صاحب ، شیخ ثنا اللہ ، مسز زیدی اور ڈاکٹر شاہدہ کو کیا ہوا کہ انہوں نے وہ کچھ نہیں کیا جو وہ پچھلے رمضان تک پابندی سے کرتے آ رہے تھے ۔ مجھے مسز الیون بھی یاد آئیں اور باقی محلے داروں کا نیا وطیرہ بھی ۔ میں نے سوچا کہ شاید ان سب نے مجھے ’ منکر ِ خدا ‘ گردانتے ہوئے مجھے اس فہرست سے نکال باہر کیا ہے جنہیں مذہبی نذر و نیاز دی جا سکتی ہیں ۔
” کہیں واقعی ایسا تو نہیں ۔ ۔ ۔ ؟ “ ، میں نے چائے ختم کی اور اپنے اس سوال کا جواب کھوجنے گھر سے باہر نکلا ؛ اصغر صاحب سے آمنا سامنا ہوا ۔ وہ ہمیشہ کی طرح پُر تپاک انداز میں ملے اور اصرار کیا کہ اس بار تو میں ان کے ساتھ نماز عید کے لئے ان کے ہمراہ چلوں ؛ پہلے بھی اگر عید سے ایک آدھ روز قبل میرا ان سے ٹاکرا ہو جاتا تھا تو وہ یہ اصرار ہر سال ہی کیا کرتے تھے ۔ مسز زیدی گھر کے باہر کیاری میں پودوں کو پانی دے رہی تھیں ؛ ان سے ہوئی علیک سلیک نے بھی کسی منفی تاثر کو اُبھرنے نہ دیا ۔ ڈاکٹر شاہدہ ہسپتال جانے کے لئے گاڑی گیراج سے باہر نکال رہیں تھیں ، مجھے دیکھ کر گاڑی روکی اور باہر نکلیں ؛ حال احوال کا تبادلہ ہوا ۔ شیخ ثنا اللہ اور دیگر ہمسایوں میں سے بھی کچھ سے ٹاکرا ہوا ؛ سب کا رویہ ویسے ہی نارمل تھا جیسا رمضان سے پہلے تھا ۔
میں کسی سے براہ راست یہ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کہ اس بار ان کے ہاں سے نذر یا نیاز کیوں نہیں آئی ۔
میرے گھر کے پاس والے کمرشل ایریا میں ’ چنیوٹی پکوان ‘ نامی ایک کیٹرر بھی ہے ؛ اس کیٹرر کے مالک کا نام غفور احمد ہے ۔ اس کا کام اور پکوان اچھا صاف ستھرا ہے اور وہ دام بھی مناسب لیتا ہے ۔ محلے میں کسی کے گھر میں کوئی فنکشن ہو یا دعوت ، تو سبھی اس سے کھانا بنوا لیتے ہیں ، سوگ ہو یا نذر و نیاز کا معاملہ تو بھی وہ ہر شے کا بندوبست کر دیتا ہے ؛ میری والدہ کے انتقال پر بھی ' روٹی ' کا بندوبست اسی نے کیا تھا ۔ مجھے اندازہ تھا کہ اور ہمسایوں کے علاوہ اصغر صاحب ، مسز بخاری اور ڈاکٹر شاہدہ بھی اس کی مستقل گاہگ تھیں ۔ میں اس کے پاس چلا گیا ۔ سلام دعا کے بعد میں نے اس سے پوچھا ؛
” سنائو رمضان میں کاروبار کیسا رہا ہے ؟ “
” خاور صاحب ، اس بار تو ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے روہانسا ہو کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
”منہ کیوں لٹکا رکھا ہے ۔ ۔ ۔ رمضان میں تو تمہارا کام خوب چلتا ہے ۔ رمضان کی آمد ، ہر دوسرے تیسرے روزے نذر و نیاز ، علی کا یوم شہادت اور ۔ ۔ ۔ “
” جی ، پچھلے رمضان تک تو خوب تھا ، لیکن اس بار ۔ ۔ ۔ اس بار تو پکے اور لگے بندھے گاہک تک نہیں آئے ۔ ۔ ۔ اب تو عید کے بعد شادیوں کے سیزن کا انتظار ہے ۔ “
” مہنگائی کا نذر و نیاز سے کیا لینا دینا ۔ ۔ ۔ “
” کچا مال آسمان پر چڑھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ جس نے بھی پکی ہوئی دیگوں کے نئے نرخ سنے ، الٹے قدم ہی لوٹ گیا ۔ “
” نذر و نیاز تو من کا سودا ہوتا ہے ۔ “
یہ سن کر وہ بمشکل ہنسا اور بولا ؛
” میں نے یہی بات لوگوں سے کہی ۔ مسز بخاری اور ڈاکٹر شاہدہ صاحبہ سے بھی یہی کہا تھا ۔ ان کا جواب تھا پچھلے سال والے ریٹ لگاﺅ ۔ میں بھلا پلے سے پیسے ڈال کر انہیں نذر و نیاز کے لئے دیگیں کیسے پکا کر دیتا ۔ ۔ ۔ نذر و نیاز میں بھائی والی مجھے وارا نہیں کھاتی ۔ “
میں نے موضوع بدل دیا ؛ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا ۔
4 جون 2019 ء ( 29 رمضان 1440 ہجری )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...