پیارے بابا پیارے بابا
بولی ایسے پیاری گڑیا
بھوکی ہوں میں
کل سے بابا۔
کھانا لا دو، کہیں سے بابا
بابا یوں پریشان بہت تھے
پھر بھی آہ کو سہہ نہ پائے
درد کو یوں ہی پاس سلا کے
گویا ہوۓ گڑیا سے ایسے
کہاں سے لا دوں تم کو کھانا
جیب تو یوں خالی ہے میری
اور مزدوری نہ آج ملی ہے
قیمتی ہر ایک چیز ہے پیاری
مہنگائی ہم پے یوں پڑی ہے
گھی مہنگا، چینی بھی مہنگی
آٹا بھی ہے مہنگا پیاری
بولی ننھی پیاری گڑیا
ارے بابا کیا کہتے ہو تم؟
ہر ماہ تو میں سنتی ہوں
کہ جو اگلا ماہ آے گا
مہنگائی کو ساتھ لے جائے گا
بھولے بابا
کہاں سے یہ مہنگائی آئی
کہاں گھروں کو صاف کریں گے
میں نے تو پپو سے سنا تھا
انصاف والے اب انصاف کریں گے
بولے بابا، پیاری بیٹی
جگر کا ٹکڑا، دلاری بیٹی
اِن کی باتیں تُم نہ سننا
کرتے ہیں یہ سیاست اپنی
آتے ہیں یہ ووٹ کی خاطر
کب آئے یہ ہمارے در پہ
ہمارے کل اور آج کی خاطر
جو بھی آیا، مہنگائی لایا
ہر ایک شے کا دام بڑھایا
تھوڑا سا لہجے میں درد ملا کر
آنکھوں میں چند موتی سجا کر
بولی پیاری گڑیا ایسے
کیا بابا اب ہم بھوکے مریں گے؟
بیٹی کےسوال کو سن کر
چہرے پر ملال کو سن کر
بولے پیاری چپ ہو جاؤ
آج کی رات بس تم سو جاو
کل کو کھلاؤں گا کھانا تم کو
چاہے پڑا مر جانا مجھ کو۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ کی بات کو سن کے سہمی
بولی بابا یوں نہ کہیے
سدا ہمارے ساتھ ہی رہیے
کیا ہوا جو نہیں ہے کھانا
آپ کا سنگ تو ہے نہ بابا
مہنگائی سے ہی گر ہے مرنا
تو پہلے میں مروں گی بابا
“