محنتوں کے پھل
آپ نیویارک میں جیکسن ہائٹس جائیں تو وہاں پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کی بہت بڑی بڑی دکانیں دکھائی دیتی ہیں جن میں سونے کے زیورات سے لدی شاندار دکانیں بھی ہیں۔ یقین کیجیے جن کی یہ دکانیں ہیں ان میں سے کوئی بھی گھر سے رقم لے کر نہیں گیا تھا۔ سب ان کی محنتوں کے پھل ہیں۔ بس اتنا ہے کہ محنت کرنے والے کو سسٹم سمجھ آ جانا چاہیے۔
باہر کے ملکوں میں بڑے بڑے امیر پاکستانی ہیں۔ دس بیس کروڑ پاکستانی روپوں کی جائیداد کے مالک تو بہت سے ہیں مگر مجھے ان کی بات نہیں کرنی جنہیں سسٹم سمجھ آ گیا اورانہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا بلکہ میں ان عام لوگوں کی بات کروں گا جنہیں شاید مجبوری کی وجہ سے محنت کرنا پڑی۔
ایک پاکستانی نوجوان جس کا نام لکھنے میں مجھے کوئی باک نہیں اظہر اقبال ہے جو حال ہی میں روس کے تیسرے بڑے شہر ایکاترنبرگ سے صحافت کی اعلٰی تعلیم حاصل کرکے پاکستان واپس گئے ہیں کیونکہ وہاں انہیں لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پہلے سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی ملازمت مل گئی تھی۔ مشاہرہ معقول ہے۔
یہ ابھی بچہ تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ کئی چھوٹے بہن بھائی تھے۔ باپ کے فوت ہونے کے کچھ عرصے بعد والدہ چچا کے عقد میں آ گئی مگر چچا بھی مزدور پیشہ۔ اس نوجوان نے شروع سے ٹیوشنیں پڑھانا شروع کیں۔ پڑھنے کے لیے لاہور جانے کے بعد وہاں میڈیا میں چھوٹے موٹے کام کیے۔ ٹیوشنیں پڑھانا بھی جاری رکھا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت سے ایم اے گولڈ میڈل ہوا۔ تعلیم کو مستند بنائے جانے کی غرض سے دنیا کی یونیورسٹیوں کو کھنگالا تو ماسکو سے خاصہ دور ایکاترن برگ کی یونیورسٹی ہی ایسی تھی جہاں کی تعلیم کے اخراجات تو وہ دے سکتا تھا مگر رہائش اور نان و نفقہ کا بندوبست اسے ادھر ادھر سے لے کر ہی کرنا پڑا۔ یہاں سے بھی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی اور اب ماشاءاللہ پروفیسر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا گھرانہ ایسا تھا جہاں تعلیم کا تصور نہیں تھا۔ اس کے تعلیم یافتہ ہونے سے باقی بہن بھائیوں کے لیے تعلیم مرغوب ہوئی اور وہ سب تعلیم پا رہے ہیں۔
اسی طرح کل ایک مہربان جنہوں نے حال ہی میں چار کروڑ کی کوٹھی لی ہے، ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی رکھی ہوئی ہے، کمیونٹی کی سیاست میں فعال ہیں، محنت سے بنائی گئیں کاسمیٹکس بیچنے کی چار دکانوں اور مینی کیور سیٹس کی درآمد اور فروخت سے اچھا بھلا کماتے ہیں، نے نئی کوٹھی جسے یہاں کاتیج یعنی کاٹج کہا جاتا ہے، میں باربی کیو کھانے بلایا تھا۔
جو نوجوان مجھے کار پر لینے آیا تھا، اسے ماسکو آئے دو سال ہوئے ہیں۔ آئی کام کیا ہوا ہے۔ وہ زیادہ جری نکلا۔ وہ یہاں کھیلوں کا سامان لے کے آیا تھا مگر نقصان ہو گیا اب وہ فروٹ ڈیلیوری کرتا ہے۔
اس نے بتایا کہ وہ فوج کی کلیریکل کور میں تھا۔ بقول اس کے بقول "ہماری فوج بھی بہت ظلم کرتی ہے"۔ وہ بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی میں تعینات تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ جن کے پاس کھانے کو خوراک اور پینے کو پانی نہیں ہوتا۔ جن کو دیکھ کر ان پر ترس آتا ہے، انہیں فراری کہہ کر مار دیا جاتا ہے۔ زیادہ ظلم ایف سی کرتی ہے۔ اس کے مطابق وہ تھا تو کلرک مگر اسے اسے بھی اسلحہ دے کر فوجی آپریشن کرنے ساتھ لے جاتے تھے۔
اس نے بتایا کہ ایک روز مجھے کہا گیا، اس بلوچ لڑکے کو وہاں لے جا کر شوٹ کر دو، اس کے خیال میں لڑکا بے قصور تھا، جس کی ماں دور سے ہاتھ باندھ رہی تھی۔ اس نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا، میں اسے شوٹ نہیں کروں گا۔ کہتا ہے کہ میں نے اس کے کان میں کہا کہ تم بھاگ جاؤ، میں گولیاں چلاؤں کا مگر تمہیں لگیں گی نہیں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پیچھے سے حوالدار چلایا "سیدھی گولی کیون نہیں مارتے"۔ پیچھے سے باقی فوجی بھاگے آئے۔ کرنل بولا اس کو ساتھ کیوں لائے ہو، کس نے دی ہے اسے ٹریننگ؟ ان لوگوں کی گولیوں کی رینج میں آنے سے پہلے وہ لڑکا نیچے بہتے نالے میں کود گیا۔ بچ ہی گیا ہوگا، اس کا خیال تھا۔ بلوچ لڑکے کو بھگا دینے کا الزام مجھ پر لگاتے رہے لیکن میں نے کہا، میں کیا کرتا ، وہ بھاگ گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ اب میں فوج کی ملازمت نہیں کروں گا اور استعفٰی دے دیا جو منظور ہو گیا۔
میں نے اسے شاباش دی کہ تم نے ایک انسان کی جان بچائی اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔