اپنے کام سے لطف انداز ہونا سیکھیں ۔یہ زندگی ایک نعمت ہے۔ اس سے لطف لیں اپنے آ پ کو بہترین کاموں میں مصروف کریں۔
زندگی کے ملنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کام اور ذمہ داریاں بھی ملی ہیں وہ ذمہ داریاں اور کام پڑھائی،ملازمت اور گھر کے ہو سکتے ہیں۔ اب کام میں دل لگانے کے لیے ہمارے پاس چند نکات ہیں۔
1)کام کو جب لطف لے کر کرتے ہیں تو نہ ہی تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ ہی ذہن فضول کاموں میں الجھتا ہے۔
2)فرض کریں برتن دھونے ہیں تو آ پ نے ذہن کو بتانا ہے کہ میں نے برتن دھوتے ہوۓ خود کو پرسکون کرنا ہے تو اسی سوچ میں پتہ نہیں چلے گا اور سارے برتن دھل جائیں گے۔
3)گھر کی صفائی،کپڑے دھونے،یا کوئی بھی اور کام جب تک لطف نہیں اٹھائیں گے اچھے سے نہیں کر پائیں گے۔
4)اسی طرح مرد حضرات کو گھر سے باہر بے شمار کام ہوتے ہیں اور یہ ایسی ذمہ داری ہوتی ہے جو مجبوری اور خوشی دونوں میں دونوں صورتوں میں کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ سوچ کر کرنا چاہیئے کہ باہر جا کر ماحول بدلے گا۔ کچھ دوستوں سے گپ شپ ہوگی تو کام کرتے ہوۓ خوشی ہوگی۔تو خوشی سے جائیں گے۔
5) اسی طرح بچوں کو سکول چھوڑنا یا سکول سے واپس گھر لانا جب بوجھ سمجھیں گے تو وہ آ پ کے لیے بوجھ ہی بن جاۓ گا۔جس سے آ پ تھکاوٹ اور اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
6)اسی طرح پڑھائی یا پریزنٹیشن وغیرہ اصل میں تو یہ سب ہماری بہتری کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر انجام کر کے یہ کام کریں گے تو ہماری گرومنگ ہوگی اور معلومات میں اضافہ ہوگا۔ اور جب ہمارے پاس کسی مضمون کا علم ہو تو خودبخود یہ ہمارے اندر اعتماد پیدا کر دیتا ہے۔
اسی طرح آ پ نے کلاس میں دیکھا ہوگا کہ جب ٹیچر کوئی سوال کرے اگر تو ہمیں اس کا جواب آ تا ہو تو ہم بہت خوش اور پرسکون محسوس کرتے ہیں اور اگر سکون نہ آ ۓ تو پریشانی کے آ آثار ہمارے چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں۔
اب یہ سب کیوں ہوتا ہے کیونکہ جو پڑھائی کو انجوائے کرتے ہیں۔ وہ خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں۔
اسی طرح روزانہ کی بنیاد پر خود کو مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں اور جو کام کو بوجھ سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ اور وقت کو صرف ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔
کام کو انجوائے کرنے سے آ گے بڑھنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔
فرض کریں ایک فرم میں دو ملازم جن کی تعلیم اور عہدہ برابر ہوتا ہے۔ لیکن ایک تھوڑے عرصے میں ترقی کر جاتا ہے اور دوسرا اسی عہدے پر رہ جاتا ہے۔
اس میں ہوا کیا جس نے اپنے کام کو ڈیوٹی نہیں بلکہ کھیل سمجھ کر کیا اس نے اتنا جلدی کام سمجھا۔ تجربہ بھی بڑھا اسی طرح آ گے بڑھ گیا ۔اس کی نسبت دوسرے نے کام کو مجبوری اور وقت گزاری کے لیے کیا اور اسی عہدے پر رہ گیا ۔
کام انسان کی زندگی کا حصہ ہے وہ اپنا کام ہو یا ملازمت پر زندگی کے ہر میدان میں ہر انسان کے لیے کوئی نہ کوئی کام ضرور ہوتا ہے اور کام کی بھی دو قسم ہوتیں ہیں۔
(1)جسمانی کام (2)دماغی کام
جسمانی کام زیادہ محنت طلب ہوتا ہے جیسے ہم صبح صبح بے شمار لوگوں کو چوک پر مزدوری کی خاطر بیٹھا دیکھتے ہیں انکی محنت زیادہ اور اجرت کم ہوتی ہے ۔
دوسرا دماغی کام جوکہ مختلف اداروں،آ فسز،فیکٹریوں میں اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے.
اب ہر جگہ جو کام کو انجوائے کرتے ہیں تو وقت بھی اچھا گزرتا ہے ۔اسی طرح 3 گھنٹے کی فلم دیکھ کر ہم نہیں تھکتے پر ایک گھنٹے کے لیکچر میں بوریت محسوس کرتے ہیں اور کلاس ختم ہونے کے ایسے محسوس کرتے ہیں۔ جیسے کسی قید سے رہا ہوۓ ہوں ۔
بالکل کسی میٹنگ میں ہیں اور خود کو مجبوری میں بٹھا کر بیٹھے ہیں تو کام سمجھ بھی نہیں آ ۓ گا۔ اس کے علاوہ کچھ دیکھنے کی نیت بنائیں گے تو ہر پوائنٹ سے کچھ نہ کچھ سیکھیں گے اور میٹنگ کے آخر میں خود کو ہلکا اور چست محسوس کریں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...