1884کو امریکہ کے شہر شکاگومیں مزدوروں نے مطالبہ پیش کیاکہ انکے اوقات کار سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کیے جائیں،مطالبہ مستردہونے کے بعد انہوں نے ہڑتال کا فیصلہ کیا،دوسال کی قلیل مدت میں یکم مئی 1886تک یہ تحریک اپنا مکمل زور پکڑچکی تھی۔تین مئی کو مقامی پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور چار مزدورہلاک ہوگئے جبکہ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔اس واقعے کے بعد پولیس نے موقف اختیارکیاکہ مظاہرین کی طرف سے ایک دستی بم پھینکا گیاتھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس والا ہلاک ہو گیااور ایک مقدمہ بناکر آٹھ مزدور راہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی،جن میں سے چارافرادکو11نومبر1887کو پھانسی دے دی گئی،ایک نے جیل میں خود کشی کر لی اور بقایا تین کو 1893میں معاف کر دیاگیا۔اس وقوعے کے بعد 1899میں فیصلہ کیاگیاکہ ان ہلاک شدگان کی یاد کے طور پر ہر سال یکم مئی عالمی مزدوروں کے دن کے حوالے سے منایا جائے گا۔بہت جلد یہ دن پوری دنیامیں ایک بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا۔
لیکن یہ ایک ظاہری بات تھی اس دن کی پوشیدہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن سیکولر یورپی تہذیب میں ”فلورا“نامی یونانی دیوی کی یاد میں منایاجاتاہے،یہ پھولوں کی دیوی ہے اور اسکی شادی ہواکے دیوتا کے ساتھ ہوئی جس کی خوشی میں یہ دن یورپی تہذیب میں مزدوروں کے عالمی دن سے بھی پہلے سے منایاجاتاتھابلکہ قدیم یونان میں مئی کے آغاز میں ”فلورا“نام سے بہار کا میلہ بھی منعقد کیا جاتاتھاجس کی روایت آج تک یورپ کے متعدد علاقوں میں قائم ہے۔یونانی قدیم کہانیوں میں پھولوں کی اس دیوی ”فلورا“کو ہرکولیس کا دوست بھی بتایاگیاہے۔مذہب عیسائیت کے لٹریچر میں پھولوں کی اس ملکہ کو ”ملکہ مئی“بھی کہا گیا ہے۔”سیکولرازم“ ایک تحریک منافقت کے سوا کچھ نہیں،پوری دنیاکو مذہب سے راہ فرار سجھاتے ہیں اور خود اندرخانے مذہب پر اس سختی سے کاربند ہیں کہ جن مشرکانہ عقائد کو آج سائنس نے بالکلیہ مسترد کر دیاہے ان کو بھی نام بدل بدل کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور پوری دنیاپر اس کو نافذ کرنے کی فکر میں غلطاں ہیں،یہ یکم مئی کا دن درحقیقت ”ملکہ مئی“کی یاد میں پوری دنیاکو بے وقوف بناکر اپنے سانچے میں ڈھالنے کے مکروفریب کے سوا کچھ نہیں۔اکیسویں صدی کی دہلیزپرتہذیبوں کے تصادم کا ڈھونگ رچانے والے دراصل مذاہب کی جنگ برپاکرکے تو اپنے مذہب کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے تھے،جس کاکہ عندیہ ان کی صف اول کی قیادت اس صدی کے آغاز سے کھیلے جانے والی خون کی ہولی میں دے چکی ہے۔اوراب تو روزروشن کی طرح یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ ”سیکولرازم“کی جنگ خاص طور پر صرف اسلام اور مسلمانوں کے ہی خلاف ہے۔وہ ”سیکولرازم“کے کارپرداران ہوں یامسلمانوں کے درمیان ان کے خریدے ہوئے گماشتے،ان سب کاتیرہدف تاریخ اسلام،مشاہیراسلام اور شعائراسلام ہی ہیں۔لیکن اس جنگ میں شکست خوردہ ”سیکولرازم“کے نام نہاد ”دانشور“ماضی قریب سے ”تہذیبوں کے تصادم“کاراگ الاپنے والے اب ”مکالمہ بین المذاہب“کاجال بچھارہے ہیں اورمسلمانوں کا بے پناہ خون بہاکراب مستقبل میں اپنے لیے مذہبی رواداری کی آڑ میں تحفظ تلاش کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے۔لیکن آخر کب تک یہ ”سیکولرازم“انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتارہے گا،پروپیگنڈاکے سر پر باندھاجانے والاجھوٹ کا طلسم اب ٹوٹاچاہتاہے اوردنیااپنے حقیقی رب کی طرف اورمزدوروں سمیت کل انسانیت کے حقیقی راہنما محسن انسانیت ﷺکی طرف تیزی سے پلٹتی چلی آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل میں مزدوروں کا دن بارہ ربیع الاول ہے جس دن اس دنیا کی سب سے بڑی محسن مزدورہستی ﷺنے جنم لیااورغربت و فاقہ کشی کے عالم میں اپنے پیٹ پر دودوپتھر باندھ کر مزدوروں کی طرح کدال چلاکراور مسجد نبوی کی تعمیر میں اپنی پنڈلیوں کو گارے میں بھگوکراور اپنے کندھوں پر پتھر اٹھا اٹھا کر صرف مزدوروں کے ہی نہیں کل انسانیت کے حقوق کا تحفظ کیاوہی دراصل جہاں محسن انسانیت ہیں وہاں محسن مزدوراں بھی ہیں،صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔محسن انسانیت ﷺکی پوری زندگی ایک محنت کش کی زندگی سے عبارت ہے۔آغاز شباب میں ہی آپ ﷺ نے مکے والوں کی بھیڑیں چرانے کے کام کاآغاز کردیاتھا،والدین سے محروم یہ مقدس بچہﷺایک مزدور کی طرح اپنے شعور کے آغازسے ہی محنت و مزدوری کر کے نان شبینہ کاانتظام کرنے لگا۔محسن انسانیت ﷺصبح سے شام تک بھیڑیں چراتے تھے اور شام کے اوقات میں بھیڑیں لوٹا کر اپنی حق حلال کی مزدوری وصول کرتے تھے اور ایک صالح اور سعادت مندبیٹے کی مانند وہ تمام رقم اپنے عم محترم حضرت ابوطالب کو تھمادیاکرتے تھے۔عنفوان شباب میں بی بی خدیجہ رضی اللہ عنھاکامال لے کر ملک شام کاسفرکیااور دیانتداری کے ساتھ معاملات سرانجام دیے کہ آجراوراجیرکا تعلق زوجیت کے بندھن کامقدمہ بن گیا۔کیادنیاکی کوئی اور تاریخ یادیگرفلسفہ ہائے حیات وادیان عالم ایسے کسی مزدور کی مثال پیش کرسکتے ہیں؟؟
مدینہ منورہ میں جب یہ مقدس ومحترم و بزرگ مزدورﷺ مسند حکمرانی پر براجمان ہواتوماضی قریب کے اشتراکیوں اورنام نہاد ”مزدورراہنماؤں“کی مانند اپنامعاشرتی طبقہ تبدیل نہیں کرلیااور امراء و روساء جیسا شان و شوکت نہیں اپنالیا،بلکہ اپنی مزدورانہ شان برقرار رکھی اورغریبوں کی طرح اور غریبوں کے درمیان رہنا پسند فرمایا۔ اپنے لیے مراعات و تفوقات کو کبھی پسند نہیں کیابلکہ ایک مزدور کی سی زندگی اس طرح بسر کی کہ آپ ﷺنے اللہ تعالی سے عرض کیا اے بارالہ مجھے ایک وقت کاکھانا دے اور ایک وقت کا فاقہ دے تاکہ میں تجھ سے مانگوں۔تعمیرمسجدنبوی میں جاں نثاران بار بار عرض کرتے تھے کہ آپ ﷺ تشریف رکھیں ہم یہ سارا محنت و مشقت والامزدورانہ کام کر لیں گے لیکن اس سب سے بڑے مزدورﷺ نے اس عرضداشت کو درخور اعتنا نہ سمجھااور پنڈلیاں مبار ک گارے میں اٹی رہیں اور سب مسلمانوں کے شانہ بشانہ اس مقدس تعمیراتی کام میں اپنا مبارک حصہ ڈالا۔غزوہ احزاب میں جب خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان آڑے آ گئی اور بڑے بڑے پہلوان مسلمان بھی اس کوتوڑنے میں ناکام رہے تو باردیگر پھر اس سب سے بڑے مزدور اورمزدور راہنماﷺسے درخواست محنت و مشقت کی گئی آپﷺ ایسے مزدور راہنماتھے جوانسانیت کو خوشخبریاں دینے تشریف لائے تھے چنانچہ پہلی ضرب لگائی اور ارشادفرمایاایران فتح ہوگیا،دوسری ضرب پر فرمایا روم فتح ہوگیا،تیسری ضرب پر ارشاد ہواخداکی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں اور اگلی ضرب پر وہ چٹان پاش پاش ہوگئی اور اس غزوہ میں بھی فتح و کامرانی نے آپﷺ کے قدم مبارک چومے۔
آپ ﷺ کی مزدورانہ تعلیمات میں وہ حدیث سرفہرست ہے کہ”مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے پہلے اداکردو“۔اس حدیث کاایک توظاہری مفہوم ہے جو سنتے ہی سمجھ میں آگیادوسرابین السطورمضمون یہ ہے کہ مزدور بھی محنت اس طرح کرے کہ اسے پسینہ تو ضرور آئے۔پسینہ کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے چہرے پر عرق مشقت ٹپکنے لگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام اس کے ذمہ لگایاجائے اس کی بجاآوری میں وہ حتی المقدوراپنی کل صلاحتیں اس طرح بروئے کار لائے کہ جہاں اس کام کا حق ادا ہو سکے وہاں اس کوملنے والا رزق بھی حلال ہو جائے۔اسلامی تہذیب اور سیکولرمغربی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولرازم نے حقوق کے نام پر معاشرے کے طبقات کو باہم دست و گریبان کردیاجیسے مزدوراور مالک کے درمیان حقوق کی جنگ برپاکردی جبکہ اسلام نے فرائض کے پلیٹ فارم پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم شیروشکر کردیاہے۔پس محسن انسانیت ﷺ نے جہاں مزدورکے حقوق کی بات کی ہے وہاں اس کو اسکا فرض منصبی بھی یاددلایاہے تاکہ انسانی معاشرہ پیارومحبت اور امن و آشتی کا منبع و مرقع بن جائے اور یہی کسی سچے بنی کے شایان شان بھی ہے۔آپ ﷺنے محنت کرکے کمانے والے کو خداکادوست بھی قراردیااور ساتھ یہ بھی تعلیم دی کی اخراجات میں میانہ روی اختیارکرواور اپنی چادر سے زیادہ پاؤں مت پھیلاؤ۔
آج سودی معیشیت کی حامل انسانیت کااستحصال کرنے والی اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر تعیشات کی بے پناہ اشتہاربازی کے باعث ان تعیشات کو لوازمات بناکر اور فلموں اور ڈراموں میں بلندترین معیارزندگی دکھاکراسے سودی قرضوں سے پوراکروانے والی تہذیب کس منہ سے مزدور کی بات کرتی ہے؟؟یہ تومزدورکاخون چوسنے والی تہذیب ہے جسے مردحضرات اس لیے قبول نہیں کہ وہ عائلی بوجھ کے باعث زیادہ مزدوری کاتقاضاکرتے ہیں اورجن کے کارخانے،بازاراورہوائی جہازاوربسیں اور دفاترخواتین مزدوروں سے اس لیے بھرے پڑے ہیں کہ یہ ان کی پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی دونوں خواہشوں کا جہنم بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔خواتین نوازی کایہ رویہ آج پوری دنیامیں جرائم کے بے پناہ اضافے کی وجہ بن چکاہے کہ،مرد،جو فطری طورپر مزدورہے،اسے اس کی مزدوری سے دورکر کے اس تہذیب نے مجبورکیاہے کہ وہ جرائم کی اندھیری غارمیں اپناروزینہ تلاش کرے۔
مردجرائم کی طرف سدھارگئے اورخواتین کسب معاش کی طرف اورخاندانی نظام تباہ بربادہوکررہ گیااور پھر بھی یہ تہذیب انسانیت کی سب سے بڑی ٹھیکیدار ہے۔کفرسے تو حکومت رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں کے مصداق کیمونزم کازوال ہم نے دیکھااب سیکولرازم کی باری ہے بس کچھ ہی دن ہیں کہ یہ مداری بھی تماشادکھاکرگیاکہ گیااور سب سے بڑے مزدورﷺ کی تعلیمات اورنورتوحید کی سحراس عالم انسانیت کا مقدر حقیقی ہے