ایک دور میں بیٹھے بٹھائے جی میں آئی کہ کمپیوٹر سیکھنا چاہیے۔ ایک سستا سا کمپیوٹر خریدا اور اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، یہ حیرت انگیز مشین کچھ اس طرح دل میں سمائی کہ اسے پوری طرح سمجھنے کی لگن مسلسل بڑھتی گئی، کچھ اس شعبے کے دوستوں سے تو کچھ کتابوں کے ذریعے سب بھید جاننے کی کوشش کرتا رہا مگر کسی شوخ حسینہ کی طرح اس نے تمام پردے سرکانے سے انکار جاری رکھا، بند قبا وصل کے لمحات میں بھی نہ کھلے اور پراسراریت کا فسوں دل پر چھایا رہا۔ آخر ایک دن لاہور جا کر ایم سی ایس کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جیب میں فیسوں کے پیسے نہیں تھیں سو اپنی پرانی ایف ایکس گاڑی اونے پونے داموں فروخت کی اور لاہور کے ایک ادارے میں داخلہ لے لیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ پیسے ختم ہوئے تو گھر کی چیزیں بیچنا شروع کر دیں۔ ایک وقت آیا کہ گھر کے پنکھے تک بیچ ڈالے، شدید گرمیوں میں بھی کئی کلومیٹر پیدل چل کر کالج جاتا تھا تاکہ ویگن کے دس روپے بچائے جا سکیں۔ تعلیم تو کسی نہ کسی طرح مکمل ہو گئی مگر جاب کہیں نہ مل سکی۔ کئی ماہ بعد ایک تگڑی سفارش کے ذریعے پانچ ہزار مہینہ پر ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں کام کرنے کا موقع ملا تو ویب سائیٹ بنانا سیکھ لیا۔ مگر اتنے کم پیسوں میں گزارا نہیں ہو رہا تھا سو مایوس ہو کر لاہور چھوڑا اور واپس اپنے شہر پہنچ گیا۔۔
مجھے یاد ہے کہ واپسی کے بعد کئی بار اللہ سے شکوے کئے کہ اسقدر محنت کی اور تکالیف برداشت کیں، پرنسپل نے ایک بار کہا تھا کہ آپ جیسا قابل طالب علم ہمارے ادارے کی تاریخ میں نہیں آیا لیکن اس سب کا صلہ نہیں ملا۔ خیر کئی برس گزر گئے، کبھی کالج میں وزٹنگ لیکچرر کے طور پہ پڑھایا تو کبھی مختلف کاروبار کیے۔ مگر کہیں بھی کامیابی نہ مل سکی۔
آخر ایک دوست کے مشورے پر اپنی ویب سائیٹ بنا کر اسے چلانا شروع کیا۔ دھیرے دھیرے کام چلنے لگا اور آخرکار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کام میں مہارت بھی بڑھ گئی اور ماہانہ آمدنی بھی اتنی ہو گئی کہ خوشحال زندگی گزرنے لگی۔
آٹھ دس برس خوب مزے سے گزرے۔ لیکن ایک بار پھر کچھ اپنے غلط فیصلوں اور کچھ لکھنے لکھانے کی طرف زیادہ توجہ کے باعث یہ کام بھی ختم ہو گیا۔ ایک مرتبہ پھر سے آسمانوں کو دیکھ کر شکوے شروع ہو گئے مگر اس بار آزمائش طویل نہ ہوئی۔ رؤف کلاسرا صاحب کی مہربانی سے میڈیا میں اچھی جگہ مل گئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایک ریسرچر سے سفر شروع کیا اور ویب سائیٹس میں سالہاسال کی محنت سے حاصل کی گئی مہارت یوں کام آئی کہ ایک بڑے ٹی وی چینل کے ڈیجیٹل شعبے کا سربراہ بن گیا۔
زندگی میں مسلسل تجربات کے بعد اس بات پر کامل ایمان قائم ہو گیا ہے کہ انسان کی محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ بہت بار ایسا ہوا کہ بھرپور محنت کے باوجود صلہ نہیں ملا جس سے عارضی طور پر پریشانی ضرور ہوئی مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ تمام محنت کہیں نہ کہیں سٹور ہو رہی تھی اور جب اللہ مناسب سمجھتا ہے، اسے کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک مایوسی اور تلخی کو کبھی قریب نہ پھٹکنے دیا، رزق کی زیادہ فکر نہیں کی اور صرف محنت اور دیانت داری کو شعار بنا کر معاملات اللہ پر چھوڑے ہوئے ہیں۔
آپ بھی اگر خوش رہنا اور ترقی کرنا چاہتے ہیں تو صرف محنت کو اپنی عادت بنا لیں۔ یہ کبھی ضائع نہیں جائے گی اور آپ کو کسی اور شکل میں، کسی اور ادارے میں، کسی اور شعبے میں اسے لوٹا دیا جائے گا۔
میرا اللہ کسی کا قرض باقی نہیں رکھتا۔۔
*****
تحریر: مجاہد حسین خٹک
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...