حضرت ابو شریح قاضی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور ایک دن اور ایک رات تک اسے پر تکلف کھانا کھلائے،اور تین دنوں تک اس کی مہمان نوازی کرے اس کے بعد صدقہ ہے پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کے لیے بھی جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ قیام کرے کہ اسے مشقت میں ڈال دے۔
بظاہر دیکھنے سے اس حدیث میں تین امورکا ذکر ملتا ہے،پہلا امر یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو انکے نام سے نہیں پکارا بلکہ فرمایا ”جو شخص اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے“،یعنی اسم ذات کی کی بجائے اسم صفت سے یا د کیااور مسلمانوں کو بتایا ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ توحید کے ماننے والے ہیں اور ایک دن مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ایمانیات کے ان دو اجزا کا حدیث کے نفس مضمون سے بہت گہرا تعلق ہے،جو شخص اللہ تعالی پر ایمان رکھے گا وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات کا ایقان رکھے گا کہ کل کائنات اور اسکے خزانے اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور وہ تن تنہا ان سب کا مالک ہے۔وہ مسلمان جو اللہ تعالی پر یقین رکھتا ہے وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ بحیثیت خلیفہ اس کے پاس جو کچھ بھی وہ سب اللہ تعالی کی دی ہوئی امانت ہے اور اللہ تعالی نے اسے اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سب مال کو اللہ تعالی کے راستے میں اس کی مخلوق پر خرچ کرے اور اللہ تعالی کو مال جمع کرنا اور اسے سینت سینت کر رکھنا سخت ناپسند ہے،دوزخ میں سانپ اور بچھو دوزخی کی طرف لپکیں گے اور وہ دوزخی ان سے دور بھاگے گا تب وہ زہریلے جانور کہیں گے کہ اب ہم سے دور کیوں بھاگتاہے ہم وہی سوناچاندی ہیں جو تو دنیا میں سنبھال سنبھال کر رکھتاتھا۔پس جو شخص بھی اللہ تعالی پر ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ مال کی محبت سے بے گانہ ہوگا اور مال کو سنت نبوی ﷺ کے طریقے کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوق پر خرچ کرے گا۔
ایمانیات کا دوسرا جزو جو اس حدیث میں ذکر کیاگیاہے وہ ایمان بالآخرت ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ اور برائی کا بدلہ بھی اللہ تعالی نے ہی دینا ہے۔جو شخص کسی سے برائی کر کے یہ توقع رکھے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہااور کسی نے اس سے اس برائی کی بابت استفسارنہیں کرنااور کوئی مجھے پوچھنے والا نہیں ہے اور کوئی مجھے اس برائی کا بدلہ نہیں دے سکتا اس کا گویا آخرت کے دن پر ایمان نہیں ہے اور جو شخص کسی سے نیکی کر کے اسی سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اس نیکی کا اجر دے گایا اس فرد کی بجائے اسکے والدین سے یہ توقع رکھے کہ وہ اسے اپنے بچے کے ساتھ بھلا کرنے کا بدلہ دیں گے یا پھر کسی گروہ کے ایک فردکے ساتھ بھلا کرکے کل گروہ سے اسکے اچھے بدلے کی توقع کرے تو اس کا بھی گویاآخرت کے دن پر ایمان نہ ہوا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامت کے دن صرف اسی نیکی کا بدلہ ملے گا جو محض اللہ تعالی کی خاطر ہی کی گئی ہو گی اورجس نیک عمل میں تھوڑا سا بھی شرک شامل ہو گا اس کے اجر کے لیے حکم ہوگا کہ اسی سے اجر مانگو جس کے لیے یہ کام کیا تھا۔
حدیث کے اندر دوسرا مضمون جس کی خاطر آنحضرت ﷺ نے ایمانیات کی تمہید باندھی وہ مہمان نوازی کی ترغیب ہے۔مہمان نوازی حقوق العباد میں سے ہے اورجو اللہ تعالی پر ایمان رکھتاہے وہ مہمان پر خرچ کرے کیونکہ اس کے پاس موجود مال اللہ تعالی کا ہی دیا ہوا ہے اور اسی کے نبیﷺ یہ حکم دے رہے ہیں کہ مہمان پر اپنے مال میں سے خرچ کرو اورجو آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان پر اس لیے خرچ کرے کہ اسے اللہ تعالی سے اس کا اجر لینا پے اور کسی نے اس نیت سے مہمان پر خرچ کیا کہ کل کو میں جب اس کا مہمان بنوں گا تو یہ بھی میری خدمت کرے گا یا اس سے میرا فلاں کام پڑنے والا ہے اور اس مہمان نوازی کے عوض میرا مسئلہ حل ہو جائے گایا اس لیے مہمان نوازی کی کہ یہ ہماری خاندانی روایات ہیں جس کے عوض ہمیں نیک نامی میسر آتی ہے تو اس نے گویا آخرت کے دن کواس طرح نہیں مانا جس طرح اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے اس کا حکم دیاتھا۔
ایک بار خدمت اقدس ﷺ میں ایک مسافرحاضر ہوا،رات ہوجانے پر محسن انسانیت ﷺنے بلند آواز سے پوچھا کون اس مسافر کو مہمان بناکر اپنے گھر لے جائے گا؟؟غربت کازمانہ تھاجس کے باعث سب خاموش رہے تاہم تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ایک مسلمان نے حامی بھر لی اور اس مسافرکو مہمان بناکر گھر لے گیا۔گھرآنے پر بیوی نے بتایا کہ کھانا تو صرف ایک ہی آدمی کا ہے،اس مسلمان نے کہاکہ جب مہمان کھاناشروع کرے تو تیل ختم ہونے کے بہانے چراغ گل کردینایوں میں بس منہ چلاتارہوں گااورمہمان سیرہوکرکھاناکھالے گا۔ سارا کھانا مہمان کو کھلا دیااورمیزبان اور اسکی بیوی بچے بھوکے سو گئے،اللہ تعالی کو یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس مسلمان کی تعریف وتوصیف میں حضرت جبریل علیہ السلام اگلے دن قرآن مجید کی یہ آیت لے کر حاضر ہوئے کہ ”اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں،حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں“(سورۃ حشر آیت9)۔اس مسلمان کی شان میں نازل ہونے والی یہ آیت قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی کیونکہ اس نے مہمان نوازی میں اپنے گھرکاساراکھانا پیش کر دیا تھا۔
اس دنیا میں مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دوراقتدار میں بڑے بڑے شہروں کے اندر بھی کسی ہوٹل اور ریسٹورینٹ کا سراغ نہیں ملتا کیونکہ مہمان نوازی ایک قومی و ملی شعار کی صورت میں معاشرے کے اندر موجود رہی۔فجر کی نماز اور عشاء کی نماز میں مقامی لوگ مسجدوں کے اندر باقائدہ آواز لگایا کرتے تھے کہ کوئی مسافر ہے تو ہمارے گھر چلے،نوابین نے اپنی اپنی جاگیروں میں سرراہ مسافر خانے بنواتے تھے جس میں قیام کرنے والوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کب روانہ ہوں گے؟ اور اعلی درجے کا کھانا پورے مہمان نوازی کے آداب کے ساتھ پیش کیاجاتاتھااور نوابین اور سرداران قوم جب باہم ملتے تو مہمانوں کی کثرت پر فخر کرتے تھے۔مدارس کے طلبہ مستقل طور پر مقامی افراد کے مہمان سمجھے جاتے تھے اور مقامی افراد کے ہاں سے قسم قسم کے پکوان ان کے طعام کے طور پر مدارس کے دسترخوانوں پر بھیجے جاتے۔اس طرح معاشرے کے افراد کے درمیان پیارومحبت کا جذبہ پروان چڑھتا،امیروغریب کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے اور منعم اورگداباہم دو مضبوط اینٹوں کی مانندناقابل تسخیرمعاشرے کی بنیاد رکھتے۔
مغربی سیکولرتہذیب نے جہاں انسانیت کے متعدد شعائر پر اپنا تیشہ چلایا ہے وہاں مہمان نوازی پر بھی کمرشل ازم کا نشترگارگر ثابت ہواہے جس کے نتیجے میں گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں اور ہوٹلوں اور ریستورانوں کی لمبی لمبی قطاریں بازاروں کی زینت بن گئی ہیں۔گھروں میں مہمان داری سے پیارومحبت پروان چڑھتاہے جبکہ ہوٹلوں میں منافع خوری کا رجحان گرم رہتاہے،گھریلوکھانا صحت بخش ہوتا ہے جبکہ بازاری کھانے میں وہ احتیاط ممکن نہیں ہوتی جو گھر میں کی جاتی ہے،گھریلودسترخوان پر کھانا کھانے سے احسان مندی کاعنصر پھلتاپھولتاہے جس کے باعث لوگ جس کے دسترخوان پر کھاناکھاتے ہیں پھر اس سے حیاکرتے ہیں اور اس سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں جبکہ بازاری ہوٹلوں میں گاہکی بڑھتی ہے اور مغربی سیکولر تہذیب کے معاشی جاگیردارانہ نظام کے ”مقابلے کے رجحان“میں اضافہ ہوتاہے اور گھریلو دسترخوان پر مہمان فطرتاََکم کھانا کھاتا ہے جس سے صحت برقرار رہتی ہے جبکہ ہوٹل اور ریسوران میں رقم پوری کرنے کی خاطر بسیاخوری کی جاتی ہے جو صحت کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔
مہمان نوازی سے اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،آنے والے سے پہلے اسکا رزق میزبان کے دسترخوان پر اترآتاہے،خاندانوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں،دسترخوان وسیع ہوتے ہیں،ظرف بڑھتے ہیں،وسعت نظر پیدا ہوتی ہے،بہت سارے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر انسان کی سوچ اور فکر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے،ملنے جلنے سے ذہنی دباؤختم ہوتاہے،باہم مشورے کرنے سے مسائل کے نئے نئے حل نکلتے ہیں جبکہ مہمان نوازی ختم ہو جانے سے انسان آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہوکر ذہنی دباؤ میں الجھ جاجاتاہے اور چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اسے اس طرح گھیر لیتی ہیں کہ وہ ان کوبہت بڑی مصیبت سمجھ بیٹھتاہے اوریہ سب اس بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ مہمان نوازی سے دستکش ہو کر اللہ تعالی کی رحمتوں سے دور ہٹ جاتاہے۔
اللہ تعالی کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ ایک دن تک مہمان کو پر تکلف کھانا کھلایا جائے ظاہر ہے یہ کھانا اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہونا چاہیے،پھر تین دن تک میزبان اپنے گھر میں جو بھی تیار کرے اسے مہمان کے سامنے لاکر پیش کردے اور بہت اچھی روایت ہے کہ مہمان کے ساتھ ہی مل کر کھانا کھائے۔اس کے بعد بھی اگر مہمان قیام پزیر رہتاہے تو پھر اسکو جو کھانا پیش کیاجائے گا وہ مہمان نوازی کی بجائے صدقہ کے زمرے میں لکھاجائے گا۔مہمان اپنی مجبوری کے تحت کتنا قیام کرتا ہے؟؟یہ تو اس کام کی نوعیت پر منحصرہے جس کی خاطر وہ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے شہر میں داخل ہوا ہے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ مہمان کو بھی اتنا عرصہ قیام کرنا چاہیے کہ میزبان اسے بوجھ نہ سمجھنے لگے۔اگر میزبان صاحب استطاعت ہے تو مہمان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر میزبان سفیدپوش ہے اوراسکے دسترخوان کے ساتھ ساتھ گھر کے ایک حصے پر بھی مہمان عرصے سے جما بیٹھاہے تو ایسے میں مہمان کوچاہیے کہ وہ میزبان کی پریشانی کا مناسب مداواکرے۔