شاہی محل میں پانچ شہزادے ۱۸۵۷ کے انقلاب کے پرجوش حمایتی تھے۔ انہیں اپنے مستقبل کی امید نہیں رہی تھی اور انہوں نے قسمت کے دئے گئے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ ان پانچ میں سے چار اس سے پہلے گمنام رہے تھے اور خاص صلاحیتوں کے مالک نہ تھے۔
تئیس سالہ مرزا خضر سلطان بہادر شاہ ظفر کے نویں بیٹے تھے اور حرم کی ایک خاتون رحیم بخش بائی سے تھے۔ ان کا ریکارڈ میں ایک واقعہ ملتا ہے جب انہوں نے اپنی بیوی کو پیٹا تھا اور اس وجہ سے بھرے دربار میں ظفر نے ان کی سختی سے سرزنش کی تھی اور دو تین تھپڑ لگائے تھے۔ خضر سلطان نے بادشاہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگ تھی اور بادشاہ نے انہیں اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اچھے شاعر اور نشانہ باز تھے۔
دوسرے مرزا ابوبکر تھے جو ظفر کی جائز اولاد میں سب سے بڑے پوتے اور سابق ولی عہد مرزا فخرو کے بیٹے تھے۔ ان کا اس سے پہلے ریکارڈ میں صرف ایک ہی واقعہ ملتا ہے جس میں ایک حادثے میں ایک انگلی کٹ گئی تھی۔ اس انقلاب کے دوران ان کا طرزِ عمل اچھا نہیں رہا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین اور شراب کے چکر میں رہتے تھے اور نوکروں اور چوکیداروں کو پیٹتے تھے۔
تیسرے شہزادے مرزا بختاور شاہ تھے جو ظفر کے گیارہویں بیٹے تھے جو حرم کی خاتون ہنوا سے تھے۔ چوتھے مرزا عبداللہ تھے جو ظفر کے سب سے بڑے بیٹے کے بیٹے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پانچویں شہزادے ان سب سے مختلف تھے اور انہوں نے جلد ہی خود کو سول ایڈمنسٹریشن کے سربراہ کے طور پر منوا لیا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے پانچویں بیٹے 29 سالہ مرزا مغل تھے۔ انقلاب سے پہلے بھی ان کا ذکر بہت ریکارڈز میں ملتا ہے۔ ان کے پاس قلعہ دار کا عہدہ تھا اور شاہی ملازمین کو تنخواہیں دینا اور کنٹرول کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ ان کی دو تصاویر بھی محفوظ ہیں۔ اس میں ہینڈسم اور ایتھلیٹک نوجوان، گہرا رنگ، بھوری آنکھیں اور سیاہ داڑھی۔ اگر ظفر کی شخصیت تحمل والی، ٹھہری ہوئی، جوش سے خالی اور فیصلہ لینے میں تاخیر والے معمر شخص کی نظر آتی ہے تو یہ اس کا بالکل ہی معکوس تھے۔ بے صبرے، غصے والے، دنیادار، پرجوش اور کچھ تلخ مزاج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ مئی کی صبح شہزادے بادشاہ کے پاس آئے اور ان سے فوج کی کمانڈ کی اہم عہدوں کی درخواست کی۔ پہلے یہ مسترد کر دی گئی۔ بادشاہ نے کہا کہ “تم لوگ کرو گے کیا؟ تمہیں اس کا تجربہ نہیں” لیکن اصرار کرنے پر پندرہ مئی کو یہ قبول کر لی گئی۔ سپاہیوں کی حمایت کے بعد مرزا مغل کو انقلابی فوج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میوٹینی پیپرز میں بڑی حیران کن بات ملتی ہے جو تاریخ سے غائب ہے، وہ مرزا مغل اور ان کا فعال کردار ہے۔ ہزاروں احکامات ہیں جو ان کی طرف سے جاری ہوئے۔ پیپرز کی کلکشن 60 میں صرف انہی کے جاری کردہ احکامات ہیں جن کی تعداد 831 ہے۔
تاریخ میں، خواہ کسی کی بھی لکھی ہو، ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ مغل شہزادے سست اور نکمے تھے۔ مرزا مغل کو ایک بے کار ارسٹوکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ مرزا مغل انقلابیوں میں سب سے زیادہ محنتی اور متحرک نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں کسی حد تک تنظیم اور باقاعدہ انتظامیہ مہیا کی۔ اگرچہ کہ بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں، باغی سپاہیوں اور فری لانس جہادیوں کو متحد فورس بنانے اور ان کے اختلافات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اس ناکامی کی وجہ محنت اور کوشش کی کمی نہیں تھی۔
سپاہیوں کو شہریوں سے دور رکھنے، ان کے لئے قائم کردہ ملٹری کیمپ، پولیس کو بازاروں میں لوٹ مار کو کنٹرول کرنے کی ہدایات، سپاہیوں کو تنخواہ کی ادائیگی کے وعدے، پیسے اکٹھا کرنے کی کوشش، سپاہیوں اور دہلی والوں کو خوراک کی سپلائی بحال کرنے کی کوشش، انفرادی لوگوں کی عرضیوں پر ایکشن۔ کدالوں، بیلچوں، کلہاڑیوں اور ریت کے تھیلوں کا بندوبست کر کے ان سے خندق بنانے اور دفاعی کام کروانا، ملٹری کے لئے سخت ڈسپلن کے احکامات ۔۔ جیسا کہ گھر کی تلاشی بغیر پرمٹ کے نہیں کی جا سکتی۔ گوجر قبائل سے مذاکرات تا کہ شہر کے باہر راستے محفوظ بنائے جا سکیں۔ بہادر شاہ ظفر کی تصویر والے سکے جاری کرنے والی ٹکسال کا قیام اور اپنے والد کی حمایت پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور اپنے بھائیوں کو کنٹرول میں رکھنا۔ یہ ان جاری کردہ کاغذات میں دکھائی دیتا ہے۔
مرزا مغل نے ایک خط ہندوستان کے نوابوں اور راجاوٗں کے لئے لکھا کہ وہ اس انقلاب میں ان سے وفاداری دکھائیں۔ ستی کی رسم پر انگریز سرکار کی لگائی جانے والی پابندی، مذہب تبدیل کرنے پر عاق کر دینے پر پابندی، جیلوں میں کرسچن مبلغین کی موجودگی کا ذکر الگ الگ خاص طور پر کیا گیا۔ “انگلش ہم سب کے مذاہب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اپنا کام جاری رکھنے دیا گیا تو وہ ہمارے دھرم ختم کر دیں گے۔ یہ ہندو اور مسلمان کے برابر دشمن ہیں اور ہمیں اکٹھا ہو کر ان کا صفایا کرنا ہے۔ اس طرح ہم اپنی جان اور اپنا ایمان بچا سکیں گے”۔
مورخین کو لال قلعے سے جاری کردہ ایک اور دستاویز ملی جو ہر لحاظ سے ماڈرن دستاویز کہی جا سکتی ہے، جس میں معاشی اور سماجی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمینداروں پر ٹیکس، سرکاری ملازمین کے مسائل، فوجی بھرتیاں اور برٹش درآمدات کی وجہ سے مقامی ہنرمندوں کی بیروزگاری کا۔ مذہبی، سیکولر، سیاسی، عوامی ۔۔۔ مرزا مغل کسی مشاق سیاستدان کی طرح ہر طریقے سے سپورٹ جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ زینت محل اور ان کے بیٹے مرزا جوان بخت نے دوسرا راستہ چنا۔ زینت محل اپنے شوہر کے انقلابی افواج کی حمایت کے فیصلے سے نالاں تھیں۔ ان سے شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بادشاہ نے کسی اہم بات پر ان کے مشورے کے خلاف عمل کیا تھا۔ ملکہ نے شاید اندازہ لگا لیا تھا کہ برٹش واپس آ جائیں گے اور سپاہیوں کو شکست ہو گی۔ اور اگر اس وقت برٹش سے وفاداری دکھائی جائے تو ان کے بیٹے کو اگلے بادشاہ بنایا جا سکے گا۔
محل میں اب دو دھڑے بن گئے تھے۔ پرو برٹش سائیڈ پر زینت محل کے علاوہ ظفر کے وزیرِ اعظم حکیم احسن اللہ، سمدھی الہی بخش، متعمدِ خاص محبوب علی خان بھی تھے۔
ظفر ان کے درمیان ایک مشکل صورتحال میں تھے۔ سپاہیوں کے خطرے سے بھی واقف تھے۔ ان کے طور طریقوں سے بھی خوش نہیں تھے اور لوٹ مار سے بھی نالاں تھے لیکن دوسری طرف، انہیں معلوم تھا کہ تیمور کے گھرانے کو بچانے کا موقع یہی تھا۔ یہ انقلاب ان کے خاندان کی بادشاہت بچا سکتا تھا جس کی وہ کوشش بیس برسوں سے کرتے رہے تھے لیکن اس سے پہلے تک امید چھوڑ چکے تھے۔
اور پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے بہادر شاہ ظفر کے لئے واپسی کا کوئی بھی راستہ بند کر دیا۔ یہ انقلابیوں کی طرف سے شاہی محل میں حفاظت میں رکھے گئے 52 شہریوں کا کیا گیا بہیمانہ قتل تھا۔
ساتھ لگی تصویر مرزا مغل کی جن کا اس جنگ میں کلیدی کردار رہا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...