محفوظ اورغیر محفوظ انسان۔۔۔ایک نفسیاتی جائزہ
اس دنیا میں انسان نے اپنے لئے مسائل خود پیدا کئے ہوئے ہیں، تمام تکالیف کے پیچھے اس کا اپنا ہاتھ ہے۔جو انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں غیر محفوظ سمجھتا ہے، اس کے لئے کسی قسم کے کوئی مسائل نہیں ہوتے ،نہ ہی اس کے دشمن ہوتے ہیں اور نہ ہی دنیا اسے بدترین نظر آتی ہے۔انسان کے اندر زندگی کے بارے میں منفی جذبات فطرت پیدا نہیں کرتی بلکہ وہ خود پیدا کرتا ہے۔انسان کوکوئی دوسرا انسان نقصان نہیں پہنچاتا ،وہ خود ہی جو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے،زندگی کے بارے میں اس کی منفی تشریح زندگی اسے ابنارمل بناتی ہے۔اگر ایک انسان فطری انداز میں غیر محفوظ ہے،اس کے اندر کھلا پن ہے،وہ آزاد طبعیت کا حامل ہے،تو اس کے لئے کائنات اور دنیا میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے ۔آزاد انسان ہر قسم کے خطرات سے مبرا ہوتا ہے ،وہ خطرہ محسوس ہی نہی کر سکتا۔لیکن جب انسان منفی جذبات کو محسوس کرتا ہے ،تو پھر وہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنے لئے دشمن بھی خد ہی پیدا کرتا ہے۔منفی جزبہ انسان کو غیر فطری بنادیتا ہے ،اس جذبے کو ساتھ لئے جب وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے مزاحمت کرتا ہے تو وہ دشمن پیدا کرتا چلاجاتا ہے۔دشمن وہاں ہوتے ہیں ،جہاں مزاحمت ہوتی ہے ،جہاں سیکیورٹی ہوتی ہے ۔اگر انسان غیر محفوظ ہے ،اور اسے کسی سیکیورٹی کی پروا نہیں ،تو وہاں دشمنی بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی مزاحمت کا کوئی اندیشہ ۔اس لئےانسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے خیالات ،نظریات اور احساسات کے حوالے سے مکمل آزادی اور کھلے پن کا مظاہرہ کرے۔اس طرح سے ہر طرف محبت اور دوستانہ ماحول نظر آئے گا ۔پھر تمام کائنات دوستانہ محسوس ہو گی ۔انسان کو چاہیئے کہ وہ فطرت کی طرح غیر محفوظ ہو جائے،یہاں تک کہ موت کے لئے بھی ہر وقت تیار رہے،یہی ازادی ہے اور حقیقی زندگی ہے ۔جب انسان کسی کو گالی دے گا،کسی پر غصے کرے گا ،کسی کا انکار کرے گا ،تو پھر اسے سیکیورٹی بھی چاہیئے اور دشمنی بھی۔انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی منفی توانائی کے زریعے دشمن پیدا کئے جارہا ہے،کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ اسے دشمن یا موت نقصان نہیں پہنچا سکتی ،اس کے منفی جذبات اور احساسات اس کے لئے خوفناک ہوتے ہیں۔جب ایک آزاد انسان زندگی کو قبول کرتا ہے،تو تمام کائنات اس کے ساتھ ہوتی ہے۔منفی جذبات کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔منفی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی قیمتی توانائی برباد کردیتے ہیں ۔مثبت سوچ اور جذبات توانائی کو جذب کرتے ہیں ۔جب انسان خوش ہوتا ہے،تو وہ توانائی کو اپنے اندر جذب کررہا ہوتا ہے ۔اسی توانائی کے سبب تمام کائنات اس کو خوش آمدید کہہ رہی ہوتی ہے۔ایک مثبت توانائی سے بھرپور انسان جب کھل کر مسکراتا ہے تو تمام کائنات اس کے ساتھ مسکراتی ہے۔لیکن جب ایک انسان روتا ہے ،تو وہ صرف اکیلا ہی روتا دھوتا ہے،کائنات اس کے ساتھ کبھی نہیں روتی۔یہی سچ اور حقیقت ہے۔انسان مثبت ہے تو کائنات اور دنیا بھی اس کے لئے خوشیاں لاتی ہے۔وہ کبھی دنیا اور کائنات میں اپنے آپ کو بوجھ نہیں سمجھتا ،منفی انسان کائنات کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی بوجھ ہوتا ہے ۔مثبت اور آزاد انسان ایک پھول کی مانند ہے ،وہ ایک پرندے کی طرح ہے۔لیکن منفی سوچ کا حامل انسان ایک ایسی مردہ چٹان کی طرح ہے ،جہاں صرف اداسی ،پریشانی اور جنگ و جدل کا سماں رہتا ہے۔محفوط انسان اپنی اداسی اور دشمنی کی پرورش کرتا ہے اور اس طرح وہ موت سے پہلے ہی موت کی وادی میں پہنچ جاتا ہے۔ہم اس دنیا میں اپنی بے وقوفیوں اور اداسیوں کی وجہ سے سے پریشان اور اداس ہیں ، اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ۔اداس اور پریشان انسان میں ہی ایگو یعنی انا ہوتی ہے۔آزاد اور خوش رہنے والے انسانوں میں ایگو یا انا نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔جس انسان میں لالچ ہو گی ، غصہ ہو گا ،جو انسان منافقت سے بھرپور ہوگا ،اس کے لئے زندگی اور کائنات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔وہ صرف ساری زندگی اپنے زخم چاٹتا رہے گا ،ان زخموں کو دیکھتا رہے گا ،اپنے زخموں کے ساتھ کھیلتا رہے گا ،اسی طرح سرحدوں پر شہید ہوتا رہے گا ۔جب ایک انسان فطرت اور کائنات کو قبول کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ایک ہوجاتا ہے۔وہ کائنات کے ساتھ رقص کرتا ہے،کائنات کے ساتھ نغمے گاتا ہے،غیر محفوظ اور انجان رہتا ہے۔انسان لہروں کی طرح ہیں ،آتے ہیں ،چلے جاتے ہیں ،لیکن کائنات ہمیشہ مستقل رہتی ہے ۔انسانوں کو چاہیئے کہ وہ لہروں بھری اس زندگی کو فطرت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ بنائیں ۔منفی جذبات کا اظہار کرنا ضروری ہے ۔لیکن ان جذبات کے اظہار کے لئے پرائیویسی کا طریقہ کار اپنایا جانا چاہیئے۔عوامی جگہوں اور محفلوں میں منفی جذبات کا اظہار تباہی لاتا ہے۔ہم جب بھری محفل میں کسی پر چیخیں چلائیں گے ،کسی کو گالی دے گے تو پھر دوسری طرف سے بھی اسی طرح کی آوازیں آئیں گی ۔اس طرح سے دشمنی پیدا ہوگی، دشمنی کے لئے پھر سیکیورٹی کی ضرورت پڑے گی اور پھر یہ مزاحمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا اور یہی تباہی ہے ۔بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی ساری کہانی یہی ہے ۔ ٹھیک ہے آپ کو غصہ آرہا ہے،غصے کا اظہار کرنا چاہیے ،ایک طریقہ ہے ،کمرے میں چلے جائیں،دروازہ بند کر دیں ،کمرے کےاندر چیخیئے چلایئے ،اپنے کمرے کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو جایئے،اپنے امیج کو تصور میں لایئے،دیکھیئے آپ کتنے بدصورت لگ رہے ہیں ۔غصہ انسان کو بدصورت اور بدکردار بنادیتا ہے۔ غصیلے اور نفرت بھرے چہرے کو آئینے میں دیکھیئے ۔دیکھئے آپ کے اندر کتنی گندگی اور غلاظت ہے ۔غلاظت کو بھی دیکھنا ہے تو پرائیویسی بہترین طریقہ کار ہے ،اس سے غصہ بھی جاتا رہے گا اور مثبت سوچ سے آگہی بھی نصیب ہو گی۔لیکن انسان اپنی گندگی عوامی جگہوں اور عوامی مقامات پر مت صاف کرے ،کیونکہ اس طرح وہ مزید تباہی اور دشمنی پیدا کرے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔