بات یہ ہے کہ آدمی، شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
یہ شعر محبوب خزاں کا ہے ، جو خود سو فیصد شاعر تھے۔ شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔ کہتے تھے ’’کم کہو، اچھا کہو، اپنا کہو‘‘ ان کے کچھ اور شعر پیش ہیں ۔۔
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر، اضافی ہے
شاید تجھہ کو بھول ہی جائیں
اب اتنا مشکل بھی نہیں
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
چاہی تھی دل نے تجھہ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لئے ہے گلا کم بہت ہی کم
پلٹ گئیں جو نگاہیں انہیں سے شکوہ تھا
سو آج بھی ہے مگر دیر ہوگئی شاید
تمہیں خیال نہیں، کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہےلیکن اداس چلتی ہے
میں تمھیں کیسے بتاؤں کیا کہو
کم کہو، اچھا کہو، اپنا کہو
محبوب خزاں کااصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ وہ یو پی کے ضلع بلیہ کے موضع چندا دائر میں یکم جولائی 1930ء کو پیدا ہوئے۔
12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے اور ان کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ انھوں نے 1948 میں الہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا اور پاکستان آگئے، یہاں انھوں نے سی ایس ایس کیا۔
پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی پھر ڈھاکہ بھیج دیے گئے جہاں ڈپٹی اے جی پی آر کے عہدے پر فائز رہے، بعد ازاں کراچی لوٹے اور پھر تہران کے سفارتی مشن میں متعین کیے گئے۔
تہران میں قیام کے دوران معروف شاعر نون میم راشد سے ان کی خاصی قربت رہی۔ بعد میں وہ کراچی میں اے جی پی آر رہے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے. 3 دسمبر 2013 کو83 برس کی عمر میں وفات پائی۔ بہت کم گو تھے ۔ تمام عمر شادی نہیں کی۔زیادہ تر تنہا وقت گزارا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’اکیلی بستیاں‘ 1963 میں کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ دوسرے مجموعے کے بارے میں کسی دوست کو معلوم ہو تو بتائیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔