نئی اور پرانی فیکٹریوں سے زرا ہٹ کر ایک غیر مانوس سی جگہ تھی جہاں ایک پیپل کے درخت کے نیچے اکثر بیروزگار تلاش روزگار کیلئے جمع رہتے تھے، کبھی کوئی آکر بتاتا کہ فلاں فیکٹری میں مزدوروں کی ضرورت ہے تو دو چار جوان جلدی جلدی وہاں قسمت آزمائی کیلئے چلے جاتے، کبھی کوئی آکر بتاتا کہ فلاں فیکٹری کے باہر نوکری کا پوسٹر لگا ہے تو کوئی پڑھا لکھا نوجوان اپنے ہاتھوں میں دبی فائل اٹھا کر چلتا بنتا اور کسی کلرک وغیرہ کی نوکری پالیتا
====
یہ غریب لوگوں کی بستی تھی جو شہر سے کافی دور تھی، حکومت نے انڈسٹریل ایریا بنایا تھا جہاں شہر بھر کے بیروزگار نوجوان روزگار کیلئے آتے
پیٹر نے اپنے مینیجر کیساتھ میٹنگ ختم کی اور اطمینان کا سانس لیا، یہ وہ پروجیکٹ تھا جس پر پیٹر کافی عرصے سے کام کر رہا تھا اسے چوبیس سال ہوگئے تھے یہ نوکری کرتے ہوئے وہ بھی ایک کلرک بھرتی ہوا تھا ور انتھک محنت کرتے کرتے مینیجر کے عہدے تک پہنچح گیا تھا، پچھلے چھ ماہ سے اسے فیکٹری کے کا انچارج بنایا گیا اور اس نے دن رات ایک کردئیے اس پرجیکٹ کیلئے، آج پیٹر نے اپنے مینیجر کو فائنل فیزیبلٹی رپورٹ جمع کروائی اور اس سے درخواست کی کہ اسے نئے پرجیکٹ کیلئے مزید بھرتیاں کرنے کی اجازت دی جائے
پیٹر کے مینجر نے ہامی بھرلی تھی اب پیٹر آزادانہ اس پروجیکٹ پر کام کرسکتا تھا۔ اسٹینو ٹائپسٹ کو بلاکر ایک اشتہار ٹائپ کروایا اور اسے کہا کہ باہر گیٹ پر چپکا دے اور تاکید کی اس کا ایک پرچہ زیادہ پرنٹ کرکے وہاں دور پیپل کے درخت کے پاس بھی لگا آئے
سوموار کا دن شروع ہوتے ہی فیکٹری کے باہر نوکری کے امیدواروں کا رش لگا ہوا تھا، پیٹر صبح کی چائے بعد سے ہی انٹرویو لینے میں مصروف تھا، کئی نوجوان آئے لیکن ابھی تک ایسا کوئِ امیدوار نہیں ملا تھا جو اسے متاثر کرسکے وہ ناامید ہونے ہی والا تھا کہ چپراسی نے آکر بتایا کہ سر ایک آخری امیدوار بچا ہے
چوکیدار کے جانے کے ایک مسکین صورت لڑکا دفتر میں داخل ہوا، پر اعتماد چال چلتا ہوا کرسی تک آیا اور پیٹر کو اجازت طلب نظروں سے دیکھنے لگا
پیٹر نے کہا بیٹھو
سوالات کا سلسہ شروع ہوا اور حیرت انگیز طور پر نوجوان پیٹر کے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا
پیٹر کافی متاثر ہوا
آخری سوال!
پیٹر نے پوچھا زندگی میں کبھی کسی کا احسان لیا ہے؟
جی، لڑکے نے کہا
پیٹر نے استفسار کیا تو لڑکے نے بتایا کہ اس ایریا میں ایک جگہ ہے جہاں ایک پیپل کا درخت ہے میں اکثر اس علاقے میں نوکری کی تلاش میں آتا ہوں اور تھک کر اس درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہوں جہاں میرے جیسے اور بھی کئی نوجوان آتے ہیں اس درخت نے اپنا سایہ دیا تاکہ میں ہمت نہ ہاروں
تم اگلے ہفتے سے نوکری پر آسکتے ہو پیٹر نے نوجوان کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا
لڑکے کی آنکھوں میں ایک دم سے ہزاروں دیپ جل اٹھے
نوکری کے ضوابط و شرائط بتانے کے بعد پیٹر نے اسے دفتر سے لیٹر بھی دلوا دیا
نوجوان بیشمار خواب آنکھوں میں سجائے جانے ہی والا تھا تو پیٹر نے اسے روک کر کہا
اگر موقع ملے تو زندگی میں ایک درخت ضرور لگانا
نوجوان کچھ نہ سجھنے کے انداز میں پیٹر کو دیکھنے لگا
پیٹر نے جاری رکھتے ہوئے کہا تم نے زندگی میں ایک نہیں دو بار احسان لیا ہے کسی کا
ایک اس درخت کا اور ایک میرا کیونکہ وہ درخت آج سے پچیس سال پہلے میں نے ہی لگایا تھا جب میں تمھاری طرح یہاں نوکری کی تلاش میں آیا تھا
نوجوان کو حیرت زدہ چھوڑ کر پیٹر اپنے گھر کیلئے روانہ ہوچکا تھا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...