مہر عادل جہانگیر چچکانہ سیال سکنہ جھنگ سیال
شاہ جہان کے دور میں ہندوستان میں مزید صوبے بنائے گئے لیکن اس وقت بھی ملتان اور لاہور دو الگ صوبے تھے
مغلیہ دور سے قبل ملتان اور اس کے اردگرد کے سرائیکی علاقے ایک وحدت کی شکل میں علیحدہ سلطنت تھے اس علاقے کی ارتقا بھی لاھور سے علیحدہ ہوئی ھے ١٤٤٥ سے ١٥٢٥ تک ملتان یعنی سرائیکی علاقے پر لنگاہ خاندان کی حکومت تھی اس سلاطین کے دور میں ملتان راستے کا ایک اہم مقام تھا
عربوں کی آمد سے پہلے ملتان پر رائے خاندان کی حکومت تھی اس سلطنت کے چار صوبے تھے جس میں ایک ملتان بھی تھا یعنی اس کا اس دور میں بھی لاھور سے کوئی تعلق نہیں تھا بللکہ سندھ سے تھا
محمد بن قاسم کی فتح کے بعد ملتان اور سندھ پر عرب حکمرانی کرنے لگے جبکہ اس کے تین سو سال بعد بھی لاھور پر ہندوں راجے حکمران رہے ہیں ان تین سو سالوں میں لہور پر ھندوں اثرات اور ملتان پر اسلام کے اثرات غالب رھے ہیں جب محمود غزنوی نے لہور کو فتح کیا تو وھاں پر ایرانی اور ترک اثرات غالب ہو گئے جبکہ ملتان پر اس بھی عرب اثرات تھے
عالمگیر کی موت کے بعد دہلی کی حکومت کمزور پڑی تو ملتان یعنی سرائیکی علاقے سدوزئی حکمرانوں کے زیر اثر آگئے چونکہ سدو زئی پٹھان تھے لیکن کافی عرصےملتان اور سرائیکی علاقے میں رہنے کی وجہ اپنی عادات اور اطوار سے مکمل سرائیکی بن گئے
ملتانیوں (سرائیکیوں)کو پہلی دفعہ پنجابیوں سے واسطہ ١٧٨٠ میں پڑا یہ وہ زمانہ جب سکھ لٹیرے جھنڈا سنگھ اور ولہنا سنگھ کی زیر قیادت ملتان پر قبضہ کیا اور وہاں لوٹ مار کی اور ساتھ قتل و غارت کا بازار گرم کیا تاہم سدوزئی حکمران مظفر خان ان کو مار بھگایا اہل ملتان ان وحشی درندوں سے نجات دلائی
یہ وہی نظفر خان تھا جو بعد میں رنجیت سنگھ سے لڑتا ہوا اپنے نو بیٹوں کے ساتھ شہید ہو ا
یہی سے ملتان کی قسمت سو گئی رنجیت سنگھ کے قبضہ کے بعد اگلے تیس سال سرائیکی علاقے یعنی ملتان سکھ لٹیروں کے قبضہ میں رھا
لیکن ملتان کے ایک اور حکمران مل راج نے بغاوت کر دی جسے بے دردی سے انگریز اور سکھ سرکار ختم کر دیا
اگر تاریخی طور جائزہ لیا جائے سرائیکی علاقے کا ارتقا باقی پنجاب سے علیحدہ ہی رہا ہے بلکہ ثقافتی اعتبار سے بھی واضع فرق ہے سرائیکی علاقوں کا سندھ کے ساتھ تاریخی روابط رھے ہیں جبکہ لہور کے شمالی ہند کے ساتھ ثقافتی روابط رہے ہیں جیسے سرائیکی اور سندھ میں رہنے والوں کی ذاتیں ایک جیسی اسی طرح لہور اور شمالی ھند کی ذاتیں بھی ایک جیسی ہیں لہور کے دہلی اور اور یوپی سے تجارتی تعلقات تھے کیونکہ پنجابی تاجر پیشہ تھے یہ اپنے علاقوں سے نکل کر دہلی اور شمالی ہند میں آباد ہو گئے جس کی مثال "پنجابی تاجران دہلی"ہے ایک دوسرے سے تجارت اور میل جول نے دونوں کی ثقافت پر اثرات ڈالے یہی وجہ ھے کہ پنجاب اور یوپی کی سرحد پر ہریانوی زبان میں دونوں علاقوں کے اثرات ہیں
اس کے برعکس صوبہ ملتان سندھ کے قریب اور کبھی دونوں ساتھ تھے سرائیکی بولنے والوں کی ایک معقول تعداد سندھ جا کر آباد ہےاور وہاں کی ثقافت کا حصہ بن گئی اسی طرح سندھ کے تالپور حکمران سرائیکی بولنے والے تھے انگریزوں کے خلاف تالپور جرنیل ہوش محمد شیدی کا نعرہ بھی سرائیکی میں تھا
"مرویسوں مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں "
اسی طرح ملتان وادی سندھ کا روحانی اور حکمرانی مرکز رھا ہے اسلام سے قبل یہاں پر سورج دیوتا کی پوجا کی جاتی تھی سورج دیوتا کے مندر میں دور دور سے زائرین آتے تھے جن کی بہت بڑی تعداد سندھ سے بھی آتی تھی
سرائیکی علاقے اور سندھ کے جغرافیائی حلات بھی ملتے جلتے ہیں
ریتلا علاقہ بارش کم اور زراعت کا دارومدار دریائے سندھ پر رقبہ زیادہ آبادی کم اس لیے فطرت کی سخت گیری کے باوجود لوگ بڑے نڑے قطعات اراضی پر کاشت کاری کرکے گزر بسر کر لیتے ہیں وہ قناعت پسند اور تقدیر پر یقین رکھتے ہیں زمین وافر ہونے کی وجہ سے وطن چھوڑنے کا تصور بہت کم ھے سخت ترین خشک سالی کے باوجود بھی زندہ رہنا ممکن تھا کجھور مچھلی وافر ہے ان حالات نے زمین سے گہری محبت پیدا کردی گاٖوں چھوڑنا ملک چھوڑنے کے مترادف تھا ملتان میں یہ مشہور محاروہ ہی بن گیا
"سفر ملتانی تابہ عید گاہ"
اس اعتبار سے سندھی اور سرائیکی ایک جیسے ہیں فطرت کی سختی نے راضی بہ رضا کے ساتھ ساتھ دکھ اور احساس کے قرب کو ثقافت کا اہم حصہ بنا دیا یہ دکھ ملتان اور سندھ کی شاعری میں آپ کو اب بھی عام نلے گا رفتہ رفتہ سرائیکی یا ملتانی زبان دکھ کے مضامین بیان کرنے کا موثر ذریعہ بن گئی
آج پاکستان کی تمام قومیتوں میں امام مظلوم کے مصائب بیان کرنے کا اہم ذریعہ سرائیکی زبان ہی ھے اور ذاکر بھی یہی زبان استعمال کرتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔