* مہر عبدالستار ایک اور کیس میں باعزت بری
* نوآبادیاتی دور میں قائم ملٹری فارمز کا ایک ہی موثر حل ہے، زمینیں مزارعین کے نام کی جائیں۔
* جھوٹے مقدمات زمین کی ملکیت کے مطالبہ سے مزارعین کو دستبردار نہیں کرا سکتے۔
آج ساھیوال میں انسداد دھشت گردی کی عدالت کے جج ملک شبیر حسین نے انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار اور ان کے ساتھیوں کو رینالہ خورد میں درج ایک مقدمہ میں باعزت بری کر دیا۔ یہ مقدمہ 7ATA، 120B, 506-B، 337 F2، 149/148، 16 MPO، 13/20/65 کی دفعات کے تحت درج کیا گیا تھا۔
16 ستمبر 2015 کو رینالہ خورد میں درج ایک ایف آئی آر کے مطابق مہر عبدالستار نے اپنے ساتھیوں نعیم اشرف، سلیم، محمد رفیق، محمد عمران، یونس اور دل محمد کے ساتھ ایک اجلاس میں ندیم اشرف کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی، ایک ڈیرہ کے اندر ھونے والے اس اجلاس میں اسلحہ کی نمائش کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ رقم اکٹھی کر کے ندیم اشرف کو چھڑایا جائے گا۔
مہر عبدالستار کے خلاف کل 36 مقدمات میں زیادہ تر اسی نوعیت کے ہیں۔ عدالت میں آج مہر عبدالستار کی جانب سے ملک ظفر اقبال کھوکھر اورچوھدری محمد اویس ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ اس کیس میں بار بار کی پیشیوں کے بعد ودالت نے مہر ستار اور انکے ساتھیوں کے خلاف تمام الزامات کو مسترد کر دیا اور انہیں باعزت بری کرنے کا حکم دیا۔ ان کے خلاف دیگر مقدمات کی وجہ سےوہ ابھی رھا نہیں ہو سکیں گے۔
مہر عبدالستار آج پاکستان میں محنت کش طبقات کے ایک حقیقی ہیرو کے طور پر ابھر رھے ہیں۔ وہ اپریل 2016 سے جیل میں ہیں۔ انکے خلاف قتل، اقدام قتل اور دیگر سنگین الزامات پر جھوٹے مقدمات درج ہیں۔ جن میں اکثر مقدمات میں وہ یا تو بری کو چکے ہیں یا انکی ضمانتیں منظور ہو چکی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف دور میں زمین کی ملکیت کا حق مانگنے والی کسانوں کی یہ لازوال تحریک مہر عبادلستار انکے ساتھیوں کی بے پناہ قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ملٹری فارمز اوکاڑہ کے مزارعیں کی اس تحریک کے دوران سینکڑوں مزارعیں کو گرفتار کیا گیا، ہزاروں پر مقدمات درج ہیں۔ ایک سو سے زیادہ عورتیں جیل جا چکی ہیں۔ اس کے تقریبا تمام راھنما جیلوں میں ہیں۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات کی بھرمار کی گئی ہے۔
سول حکومت بھی ملٹری فارمز اور آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کی انتظامیہ کو خوش کرنے کے چکروں میں ہے۔ عدلیہ کی اکثر جج اس بات کو جانتے ہیں کہ مزارعین کے خلاف سارے مقدمات جھوٹے ہیں۔ اور انکو پریشرائز کرنے کے لئے یہ مقدمات درج کئے گئے۔
آپ خود اندازہ کریں کہ چار دیواری میں ایک اجلاس کا الزام لگا کر مہر ستار انکے ساتھیوں کے خلاف کتنی دفعات لگائی گئیں اس مقدمہ میں بھی۔
مہر ستار کے وکلاء میں عاصمہ جہانگیر، اعظم نزیر تارڑ، عابد ساقی، آزر لطیف خان، ملک ظفر اقبال کھوکھر، محمد فاروق باجوہ، چوھدری محمد اویس اور دیگر شامل ہیں۔
مہر عبدالستار اس وقت ساھیوال ھائی سیکورٹی جیل میں قید ہیں انہیں کسی ایک مقدمہ بھی بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ وہ شائد پاکستان میں واحد انڈر ٹرائل سیاسی قیدی ہیں جو اس جیل میں ہیں۔ انہیں قیدتنہائی میں رکھا گیا ہے۔ پندرہ دنوں میں صرف ایک بار انکی بیوی اور بہن کو ملنے کی اجازت ہے عاصمہ جہانگیر اور عابد ساقی بھی سپریم کورٹ کے ایک حکم کے بعد انہیں جیل میں مل کر آئے۔
نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق جو کہ ایک ائینی ادارہ ہے نے بھی اپنی ایک عبوری رپورٹ میں مزارعین کو ملک دشمن قرار دینے، دھشت گردی کی دفعات کےتحت مقدمات درج کرنے کی مخالفت کی اور پنجاب حکومت کو مزارعین سے ملکر اس مسئلہ کے پرامن حل کی سفارش کی۔ سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی بھی مزارعین کے خلاف مقدمات کی مذمت کر چکی ہے۔
پنجاب میں 68000 ایکڑ پر پبلک سیکٹر کے زرعی فارمز ہیں۔ ان میں ملٹری کے قبضے میں بھی کوئی 30,000 ایکڑ زمین ہے۔ نوآبادیاتی دور میں فوج کی مدد کے لئے انہیں یہ زرعی فارمز لیز پر دئیے گئے تھے۔ یہ لیز بھی کب کی ختم ہو چکی، ہر حکومت نے ان مزارعین سے یہ زمینیں ان کی ملکیت میں دینے کا وعدہ کیا جو کبھی وفا نہ ہوا۔ نوآبادیاتی دور کے ان ملٹری فارمز کو مزارعوں کے حوالے کرنے کے علاوہ اس کا کوئی اور حل نہیں۔ یہاں زمینیں دینے کی بجائے انکے کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔
ایک مزارع خاندان کو ایک سو سال قبل 12 ایکڑ زمین کاشت کرنے کو اس وقت دی گئی جب یہ زمینیں بے آباد تھیں۔ مزارعوں کی چار نسلوں نے بے پناہ محنت سےان زمینوں کو آباد کیا ہے۔
پاکستان میں جاگیرداری نظام قائم ہے۔ کچھ افراد جاگیردار ہیں اور کچھ ادارے۔ زرعی مسئلہ حل ہی اس وقت ہو گا جب جاگیرداری نظام ٹوٹے گا۔ اور زمینیں مزارعین کے حوالے کی جائیں گی۔
یہاں تو نظام ہی الٹ ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھٹو دور کی زرعی اصلاحات کو "غیر اسلامی" قرار دےدیا گیا اور جاگیرداروں نے اپنی چھینی گئی زمینیں دوبارہ مزارعین سے واپس لے لیں۔ اس کو 2012 میں ورکرز پارٹی نے مختلف ٹریڈ یونینوں، سماجی اور کسانوں کی تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ان میں انجمن مزارعین پنجاب بھی شامل ہے۔ عابد حسن منٹو اور بلال حسن منٹو اس میں ورکرز پارٹی کی جانب سے رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اسے کئی بار سنا، اب تو ایک سال سے زیادہ ہو گیا کہ اس کی سماعت ہی نہ ہوئی۔ ورکرز پارٹی بعد ازاں عوامی ورکرز پارٹی میں ضم ہو گئی تھی۔
جھوٹے مقدمات سے مزارعین کو زمینوں کی ملکیت کے مطالبہ سے دستبردار نہیں کرایا جا سکتا۔ جتنی جلدی ھو سکتا ہے یہ کام کر لیا جائے۔ آپ مزارعوں کو بے دخل نہیں کر سکتے، زمینیں وہ خالی نہیں کریں گے یہ ان کا قانونی حق ہے۔ مزارعیت کے قوانین کے تحت مزارعوں سے زمین خالی نہیں کرائی جا سکتی۔ پنجاب حکومت اس مسئلہ کے حل کے لئے جھوٹے مقدمات واپس لے۔ مزارعوں کو باعزت بری کرے اور ان سے مزاکرات کرے۔ اور نوآبادیاتی دور کی اس نشانی سے جلد از جان چھڑائے اور زمینیں مزارعوں کے نام کرے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔