میٹھے پانیوں کا سمندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُچھ دن پہلے، یوسف حسن کے جنازے سے فارغ ہُوا تو دل بہت اُداس تھا۔ سمجھہ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اچانک دل نے کہا کہ "چل شاھد مسعود ! پروفیسر سجاد حیدر ملک کو جا کے ملتے ہیں"۔ ملک صاحب سے کبھی کبھی فون پہ بات ہو جایا کرتی تھی، لیکن جب سے اُن کے گھر کا فون نمبر تبدیل ہُوا تھا، اُن سے رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔اس عرصہ میں کوئی ایسا مشترک دوست بھی نہیں ملا جو بتاتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ آخری ملاقات کئی برس پہلے ہُوئی تھی جب میں، اُن کے ایک پرانے شاگرد، محمد طاہر کے ہمراہ اُن کے گھر اُن سے ملنے گیا تھا۔ اُن دنوں اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اور کافی نحیف بھی دکھائی دے رہے تھے۔ اس بیماری کے باوجود، اُنہوں نے ہمیں اٹھنے نہ دیا تھا، اور ہم کافی دیر اُن کے ساتھ بیٹھے رہے۔
ابھی میں اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ نجانے ابکی بار اُن کی حالت کیسی ہو گی، کہ اچانک میں نے خود کو اُن کے آبائی گھر کے دروازے پہ کھڑا پایا۔ گھنٹی بجانے پر ایک پیاری سی بچی باہر آئی تو میں نے بتایا کہ میں پروفیسر صاحب سے ملنے آیا ہُوں ۔ وہ میرا نام پوچھ کر اندر چلی گئی اور پھر واپس آ کر مُجھے گھر کے اندر لے گئی۔ ملک صاحب ایک چارپائی پہ قمیض اُتارے براجمان تھے اور رات کا کھانا اُن کے سامنے دھرا تھا۔ وہی تپاک، وہی خندہ پیشانی، اور اپنے اسی مخصوص قہقہے کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ اُنہیں صحتمند اور چہچہاتا ہُوا دیکھ کر میرا دل شاد ہو گیا۔
اب میں کیا بتاؤں کہ سجاد حیدر ملک جس شخص کا نام ہے، وہ کیا بلا کا آدمی ہے! میں نے اپنی زندگی میں اتنا صابر اور قانع شخص نہیں دیکھا۔ ایک قلندرانہ شان کے ساتھ زندہ ہیں۔ انگریزی ادبیات کے اُستاد، صحافی اور میڈیا پرسن ہونے کے حوالے سے تو بہت لوگ واقف ہونگے، لیکن ان کی شخصیت کے کُچھ ایسے پہلو بھی ہیں، جو صرف چند قریبی دوست ہی جانتے ہیں۔ مُجھے فخر ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہُوں ۔
ملک صاحب سُناتے ہیں کہ جب وہ نوجوان تھے اور GHQ میں ملازم تھے، تو ایک گرمیوں کی دوپہر جب وہ دفتر سے گھر آ کے ڈیوڑھی میں سائیکل کھڑی کر رہے تھے، تو بیٹھک سے اُن کے والد نے انہیں آواز دے کے بُلایا ۔ اُنہیں حکم ملا کہ جاؤ مسجد سے جا کے نہا کے آؤ ۔ چونکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب والدین سے اولاد کم ہی بحث کیا کرتی تھی، اس لئے بغیر چون و چرا، حکم کی تعمیل کی اور نہا کے واپس بیٹھک میں آ گئے۔ یہاں آ کے اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کا نکاح اُن کی ایک کزن سے پڑھایا جا رہا ہے۔ کہنے لگے کہ نکاح کے بعد، کھانا کھا کے، دوبارہ اپنی سائیکل لی اور گھر سے نکل گیا۔ شام جب گھر لَوٹا تو دلہن کو اپنے کمرے میں موجود پایا۔
ملک صاحب کی بیوی ایک حساس خاتون تھیں اور رسائل میں مضامین وغیرہ بھی لکھا کرتی تھیں ۔ ۱۹۷۱ میں سقوطِ ڈھاکہ کا واقعہ ہُوا، تو اس سانحہ کا، خاتون پر اتنا شدید اثر ہُوا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں ۔ علاج کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہُوا۔ وہ گاہے بگاہے violent بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، اس لئے کافی مسائل اُٹھ کھڑے ہُوئے تھے۔ ایک دن ملک صاحب کے والد نے سجاد صاحب کو بُلا کے پاس بٹھایا اور کہا کہ اُن کے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ خاتون کو پاگل خانے میں داخل کرا دینا چاہئے۔ اس پر، غالباً زندگی میں پہلی مرتبہ، سجاد صاحب نے اپنے والد کے کے سامنے انکار کر دیا، اور کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس واقعہ کے بعد کسی کو یہ بات کہنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
جب تک ملک صاحب کے بچے جوان نہیں ہو گئے، اور خود ماں کا خیال رکھنے کے قابل نہیں ہو گئے، تب تک، ملک صاحب کی روز کی Routine کُچھ یوں ہوتی تھی کہ صبح اُٹھتے، بیوی بچوں کو نہلا دھلا کے تیار کرتے، ناشتہ بناتے، بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتے، بچوں کو سکول چھوڑتے، اور خود کالج چلے جاتے،پڑھانے کے لئے۔ دوپہر کو کالج سے واپس لوٹتے، بچوں کو سکول سے لیتے، گھر آ کے، کھانا وانا کھاتے، اور شام کو Pakistan Times کے دفتر چلے جاتے۔ جب کبھی شام فارغ ہوتی تو بیوی کو لے کر باہر ٹہلنے کے لئے نکل جاتے۔ کہتے ہیں کہ، کئی بار میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہُوئے سُنا ہے کہ " وہ دیکھو، پاگلوں کی جوڑی جا رہی ہے"۔اُنہیں لوگوں کے سامنے کبھی بھی اس بات کی embarrassment نہیں ہوئی کہ اُن کی بیوی پاگل ہے۔ چند بہت قریبی لوگوں کے علاوہ، کسی کو یہ علم نہ تھا کہ، اُن کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اور نہ ہی کبھی اُن کے تاثرات سے کبھی ظاہر ہوتا کہ یہ شخص کس درجہ کی مشقت کی زندگی گزار رہا ہے۔
میں کئی مرتبہ اُن کے گھر گیا ہُوں ۔ ہر مرتبہ ملک صاحب میرا تعارف اپنی بیوی سے کرواتے، " اے شاھد مسعود اے، تہانوں یاد نہیں ؟ "۔ جواب میں وہ بس مسکرا دیتیں۔ میں نے ملک صاحب کو، اپنی بیوی سے، بچوں کی طرح پیار کرتے دیکھا ہے۔ اُن کے ہاتھ چومتے، گال سہلاتے، بالوں میں کنگھی کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے۔ ایک مرتبہ میں اُن کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ خاتون کے سر میں، بڑے پیار سے مہندی لگا رہے ہیں۔
میں نے ملک صاحب کو کبھی حالات کا گلہ کرتے ہُوئے نہیں سُنا۔ پہاڑوں جیسی استقامت، اور سمندروں جیسی گہرائی رکھنے والا شخص، اپنی بیوی کی رحلت، اور بہت بعد میں اپنے جوان بیٹے کی موت کو بھی اِسطرح سہار گیا کہ جیسے اُسے اس ہونی کا پہلے سے علم ہو۔
۔ ملک صاحب بڑے دل کے بھی مالک ہیں۔ جن دنوں وہ اخبار میں، فلموں پہ تبصرے لکھتے تھے، کبھی کبھی مُجھے بھی کوئی نئی فلم دکھانے کے لئے ساتھ لے جاتے۔ سینما گھر والے، وی آئی پی پروٹوکول دیتے، اور گیلری میں بٹھا کے مفت فلم دکھواتے۔ کسی فلم کے کسی پہلو پر میری کوئی بات پسند آ جاتی تو ہمیشہ میرے نام کے ساتھ، اپنے کالم میں، اُس کا ذکر کرتے۔ میں نے اُن سے اپنے ایک ڈرامہ سیریل میں ایکٹنگ بھی کرا رکھی ہے۔
آج میں پھر ایک مرتبہ، ملک صاحب کا ہاتھ تھامے، اُن کے پاس بیٹھا تھا۔ سامنے tv پر فُٹبال ورلڈ کپ کا میچ چل رہا تھا۔ کہنے لگے کہ یار اب دھکم پیل بہت ہو گئی ہے۔ وہ جو فٹبال میں artistry تھی، اب کم نظر آتی ہے۔ میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہُوئے، پُرانے وقتوں کی خوبیاں ، اور موجودہ زمانے کے نقائص بیان کئے تو کہنے لگے، یہ تو ہونا ہی تھا، بس صرف اتنا ہُوا کہ بہت تیزی سے ہو گیا ہے۔ زمانے کا گلہ کرنا اُن کے مزاج کا حصہ کبھی بھی نہیں رہا۔ میں نے شوکت واسطی کا شعر سنایا کہ، شوکت ہمارے ساتھہ عجب حادثہ ہُوا / ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا ، تو ہنس کے کہنے لگے کہ پہلا مصرع بلکہ یوں ہونا چاہئے تھا کہ، "شوکت ہمارے ساتھ عجب ہاتھ ہو گیا"۔
اُن کے پوتے پوتیاں یوں اُن سے باتیں کر رہے تھے جیسے ہم عُمر ہُوں ۔ اپنے ایک پوتے کے بارے میں، ہنستے ہُوئے کہنے لگے کہ" یہ بڑا بدمعاش ہے۔ اسے، مُجھ سے پیسے اینٹھنے کا گُر آتا ہے۔ لگتا ہے بڑا ہو کے سیاستدان بنے گا"۔ میں نے کہا کہ ملک صاحب کوئی ایسی چیز ہے جسے آپ مِس کرتے ہوں ؟ کہنے لگے، " بس ایک چیز، خط و کتابت۔ میں نے اس مرتبہ، عید سے کُچھ دن پہلے بچوں کو عید کارڈ خرید کر لانے کے لئے بازار بھیجا۔ گھر آ کر بچوں نے بتایا دکاندار کہہ رہا ہے کہ کہ اب عید کارڈ نہیں چھپتے "۔ کہنے لگے کہ اب بھی جب گھر کی گھنٹی بجتی ہے، تو دم بھر کے لئے مُجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ڈاکیہ آیا ہو۔ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ پھر خاموشی کے ایک طویل وقفہ کے بعد نجانے اُنہیں کیا سوجھی کہ اپنی پوتی کو آواز دی کہ پیڈ اور پین لے کر آؤ ۔ جب یہ دونوں چیزیں آ گئیں، تو انہیں میری طرف بڑھاتے ہُوئے، بچوں جیسی معصومیت کے ساتھہ مُجھے کہنے لگے کہ "اپنا پتہ لکھ دو، میں تُمہیں خط لکھوں گا۔ مُجھے جواب ضرور دینا"۔ یہ وعدہ کرتے ہُوئے جب میں اپنے گھر جانے کیلئے اُٹھا تو میں، جو ابھی گھنٹہ بھر پہلے، ایک بوجھل دل کے ساتھ آیا تھا، اُٹھتے ہُوئے یوں لگا کہ جیسے روح سرشار ہو گئی ہو۔ اور ہو بھی کیوں نہ، کہ مُجھے میٹھے پانیوں کے سمندر کے پاس دیر تک بیٹھنے کا موقعہ ملا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔