میراجیؔ کی نظم ــ ’جاتری‘ : ایک تجزیاتی مطالعہ
اس نظم کا عنوان ہی نظم کے بنیادی مسئلے کی طرف ایک مبہم اشارہ کر دیتا ہے۔جاتری یعنی مسافر سے جو کیفیت پیش منظر میں ابھرتی ہے، وہ ایک نوع کے عدمِ استقلال ، بے ثباتی اور اضطراب کی ہے۔گردوپیش میں پھیلی ہوئی پوری زندگی اس بے سکونی اور اضطراب کی زد پر ہے۔ کسی کیفیت کو نہ تو دوام ہے اور نہ ہی آرام۔ مسافرت کی حالت میں سبھی چیزیں رواں دواں اورآنی جانی ہوتی ہیں۔اس سفر کا المناک پہلو یہ ہے کہ یہ سفر بھی طے شدہ منزل کے لیے ہونے کے بجائے بے سمت اور لایعنی ہے۔
اس کیفیت کو گرفت میں لینے کے لیے شاعر نے نظم کے واقعات کے لیے جو محل وقوع منتخب کیا ہے اور جن کرداروں سے کام لیا ہے وہ نظم کی پوری فضا سے غایت درجہ ہم آہنگ ہیں۔لایعنیت اور رائگانی کا جتنا شدید احساس ان کرداروں کے ذریعہ ممکن تھا۔غالباً کسی دوسری طرح ممکن نہ ہوتا۔دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ وہ اعمال اور واقعات جو لذت و انبساط کا سر چشمہ ہیں۔ مخصوص سیاق و سباق میں انتہائی بے لطف اور بے معنی نظر آنے لگتے ہیں۔شاعر نے جنسی جذبات اور جنسی عمل کے ذریعہ رائگانی اور بے معنویت کے اس احساس کو نہایت ہنرمندی سے اس نظم میں پیش کیا ہے جبکہ جنسی جذبہ انسانی کردار کا مرکز اور جملہ راحتوں سے بڑھ کر ہے بلکہ بعض اعتبار سے تو انسان کی شخصیت اور اس کی معاشرتی زندگی کی اساس یہی جذبہ ہے۔جب اس جذبے کی تسکین ہی بے معنی اور لاحاصل ہے تو ظاہر ہے انسانی وجود کی بنیادیں ہی خرابی کی زد پر ہو ں گی ۔ اس طرح شاعر نے اس نظم میں مخصوص فضا، محل وقوع اور مختلف کرداروں کی مدد سے بے لطفی اور بے معنویت کی مہیب صورتِ حال کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔
دوسری بات جو اس نظم کے سلسلے میں قابلِ توجہ ہے وہ یہ کہ نظم کی ہئیت اور اس کی ساخت اپنے انوکھے پن کی وجہ سے حیران کن ہے۔ میراجی ؔنے اپنی بیشتر نظمیں’نظم آزاد‘ کی ہئیت میں لکھی ہیں۔ جس میں مصرعے تو چھوٹے بڑے ہوتے ہیں لیکن اپنے آہنگ اور وزن کے سبب دیکھنے اور پڑھنے میں بھی خیال کی اکائی کے مطابق کوئی مصرعہ بڑا اور کوئی چھوٹا ہوتا ہے لیکن ارکان کی تکرار اور ان کا مخصوص وزن ظاہری سطح پر بھی شعری آہنگ کو قائم رکھتا ہے۔ اس نظم میں میراجی ؔنے پہلی بار مصرعوں کو یکے بعد دیگرے مرتب انداز میں لکھنے کے بجائے نثر کی ہئیت میں اس طور پر لکھا ہے کہ نہ تو مصرعوں کی کوئی اکائی متعین ہو پاتی ہے اور نہ کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ نظم کا ایک بند کہاں ختم ہو رہا ہے اور دوسرا بند کہاں شروع ہو رہا ہے۔ اس طرح خیالات ، مصرعوں اور بندوں کی مدد سے چھوٹی بڑی اکائیوں میں تقسیم ہونے کے بجائے مسلسل ایک دوسرے سے مربوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نظم اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ غرض مصرعوں کا آہنگ اور خیالات کی اکائی نہ صرف ان میں وزن پیدا کرتی ہے بلکہ وزن کی تکرار اس کے غنائی تاثر کو بھی نمایاں کر دیتی ہے۔ نظم یہ تاثر بھی قائم کرتی ہے کہ ایک ہی خیال کی پیچیدگی اور تسلسل کو نہ تو مصرعوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بندوں کی شکل میں ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ گویا ساری باتیں اپنی جملہ تفصیلات اور انسلاکات کے ساتھ ایک متحد اکائی کی صورت میں بیان کر دی گئی ہیں اور نظم کو اسی ساخت میں قاری کوقبول کرنا چاہئیے۔ نظم کے لکھنے کا یہ پیرایہ جس پر بہ ظاہر نثرکا دھوکا ہو۔میراجیؔ کی جدت پسند طبیعت کا نتیجہ ہے اور اس سے بھی نظم کا تاثر اور کیفیت خلق کرنے میں میراجیؔ نے بڑا کام کیا ہے۔ نظم کی نثری ہیئت اور بیان کا تسلسل قاری کو چوکانے والا ہے۔ اس مخصوص ہیئت سے بھی نظم کی کیفیت اور اثر میں مدد لی گئی ہے۔
نظم کے ابتدائی مصرعوں سے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ نظم کا ماحول اور اس کی فضا کسی ایسی جگہ سے متعلق ہے جہاں لوگوں کی آمد ورفت ہے اور یہ کہ کسی کی بے کیف راتوں کے گزرنے کا بیان ہو رہاہے اور یہ بھی نظم کی ابتدا میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں کی یہ آمدورفت پر خلوص رشتے کی حرارت سے خالی محض کاروباری اور بازاری آمدورفت ہے چنانچہ ’ایک آیا گیا، دوسرا آئے گا‘ کا پیرایئہ بیان صاف ظاہر کرتا ہے کہ آنے اور جا نے وا لے یہ لوگ جذباتی رشتے کی حرارت سے یکسر محروم ہیں۔ یہ ساری آمدورفت ایک میکانکی عمل ہے۔ نظم کا کردار اس پورے منظر کو کسی شخص کی طرح دیکھتا اور اس کا تجزیہ کرتا ہے۔پہلے دو مصرعوں میں تین طرح کے کرداروں کا بیان ہے۔ ایک آنے جانے والے لوگ دوسرا وہ کردار جس کی رات یوں ہی گزر جائے گی اور تیسرا واحد متکلم جو دیر سے اس کوچے میں کھڑا ہے اور جسے خود نہیں معلوم کہ اسے کیا کام ہے؟ ان تینوں کرداروں کے عمل سے صورتِ حال کی بے کیفی اورلایعنیت عیاں ہے۔ایک کا آنا جانا اور پھر کسی دوسرے کا اسی طرح آ نا ایک ایسا عمل ہے جس کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔
’دیر سے دیکھتا ہوں ،یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی۔میں کھڑا ہوں یہاں کس لئے، مجھ کو کیا کام ہے، یاد آتا نہیں۔‘
یہ بیان بھی ظاہر کرتا ہے کہ وقت کا یہ بہائو اس کردار کے لیے ایک جبر ہے جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یوں ہی کا لفظ اس بے لطفی اور لایعنیت کو ظاہر کرتا ہے اور تیسرا کردار یعنی متکلم جس جگہ دیر سے کھڑا ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ یہاں کیوں اور کس طرح آیا ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے؟ غرض لایعنیت اور بے کیفی کی عمومی فضا سے نظم کا آغاز ہوتا ہے۔
تیسری اور چوتھی سطر میں شاعر یادوں کے حوالوں سے اپنے ماضی کے کسی تجربے کو یاد کرتا ہے جس کے نقوش اب دھندلے ہو چکے ہیں ۔ سطریں ملاحظہ ہوں۔
’یاد بھی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی ہے ،جس کی رکتی ہوئی جھجھکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے، مگر میرے کانوں نے کیسے اسے سن لیا۔
ایک آندھی چلی، چل کے مٹ بھی گئی ۔‘
ان سطور میں کردار کے ساتھ ماضی میں پیش آنے والے تجربے اور اس کی یادوں کی روشنی اس تک ایک بجھتے ہوئے چراغ کی طرح پہنچتی ہے یا ایک ایسے قہقہے کی طرح جو آواز سے محروم ہے۔یاد کے ان دو صفات کا استعمال یاد کی صورتِ حال پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ یہ ایک رکتی اور جھجھکتی ہوئی کرن ہے، یا بے صدا قہقہہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی کرن جو ٹمٹماتی ہوئی ہو اور ایسا قہقہہ جس میں آواز تک نہ ہو وہ کھوکھلا اور بے معنیٰ ہوگا۔ اس طرح یہ مصر عے بھی بے لطفی اور بے معنویت کے رنگ کو اور بھی گہرا کر دیتے ہیں لیکن اس قہقہے کو نظم کا واحد متکلم سنتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے اپنی زندگی کا کوئی ایسا تجربہ یاد آتا ہے۔جو کبھی تیز آندھی کی طرح اس کے د ل ودماغ کو جھنجھوڑ چکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان ہوائوں کی رفتار بھی مدھم پڑ چکی ہے۔اس تجربے کی شدت آندھی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ کس طرح اس نے اس کردار کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور مخصوص ماحول میں آندھی کا مفہوم بھی بڑی حد تک ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ ماضی کا کوئی ایسا تجربہ ہے جو زندگی میں معنیٰ پیدا کرتا ہے اور جس کی یادیں اب بھی کردار کے ذہن میں محفوظ ہیں چنانچہ اس آندھی کے لیے شاعر نے ’مچلتی ہوئی اور ابلتی ہوئی پھیلتی پھیلتی ‘ کی جو صفات استعمال کی ہیں، اس سے بھی اس تجربے میں زندگی اور تحرک کی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور پھر جس جگہ یہ کردار کھڑا ہے اس کوچے میں زندگی کی بے معنویت کے مقابلے میں ماضی کے اس تجربے کی حرارت صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ ایک وہ آندھی تھی جس کا نقش اب بھی کسی نہ کسی شکل میں متکلم کے دل و دماغ پر موجود ہے جبکہ دوسری طرف اتنی رونق ،چہل پہل اور لوگوں کی آمدورفت کے باوجود پورا منظر نامہ بے روح اور بے جان ہے۔بازارِ حسن کا یہ منظر بہ ظاہر بہت بارونق اور ہنگامہ خیز ہے۔لوگوں کی آمدورفت،چہل پہل اور اژدحام کو شاعر نے نہایت ہنرمندی سے بیان کیا ہے اور اس کیفیت کے بیان کے لیے شاعر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ،ان سے بھی اس کوچے کی رونق بلکہ افراتفری صاف ظاہر ہوتی ہے۔ یہ سطریں ملاحظہ ہوں۔
’ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر،آرہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے، اور ٹہلتے ہوئے ، اور رکتے ہوئے، پھر سے بڑھتے ہوئے اور
لپکتے ہوئے ، آرہے جا رہے ہیں اِدھرسے اُدھر ،اور اُدھر سے اِدھر۔‘
اس پورے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی مخصوص جہت نہیں ہے۔ ایک بے معنیٰ آمدورفت اسے اجتماع کے بجائے ایک بھیڑ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر طوائف کے کوچے میں جس طرح سے لوگ آتے ہیں، اس کی تصویر بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔کچھ لوگوں میں ایک جھجھک ہے، معاشرے کا خوف ہے۔ کبھی پائوں رکتے ہیں اور کبھی خواہش آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔جھجھکنا اور بڑھنا ان کے باطن کی ایک آویزش ہے جو ان مصرعوں میں نمایاں ہو گئی ۔ انھیں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو عادی ہو چکے ہیں اور اس کوچے میں بے تکلفی سے چل رہے ہیں ۔ گویا ان کے لیے یہاں آنا کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ اس منظر نے کردار کے ذہن میں خواہش اور یادوں کی ملی جلی کیفیت کے سبب ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور وہ اپنے تخیل کی آنکھوں سے پوری تصویر اور اس پورے عمل کو دیکھ لیتا ہے جو طوائف کے بالاخانے پر ہو رہا ہے کہ چراغ کی کرنیں ایک خاص ہیئت میں زندگی کو خاص شکل میں ظاہر کر رہی ہیں۔مثلاً
’اِک ٹمٹماتے دیے کی کرن زندگی کو پھسلتے ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کئے جا رہی ہے۔‘
زندگی کے اظہار کی یہ صورت جنسی عمل کی ایک تصویر قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے چنانچہ اس پورے تصور سے شعری کردار بھی جنسی جذبے سے مغلوب ہو جاتا ہے اورذہن میں چلنے والی اس آندھی سے نجات کی صورت خود بہ خود پیدا کر لیتا ہے۔مایوسی کے عالم میں اس وقتی تسکین کو ’اب تیرگی اک اجالا بنی ہے‘ کے پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔اپنی جنسی آسودگی کے لیے کردار کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اس کی واضح تصویر آئندہ سطروں میں موجود ہے۔مثلاً
’اس اجالے سے رِستی چلی جا رہی ہیں وہ امرت کی بوندیں جنھیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں۔‘
’اس اجالے‘ یعنی تسکین میں امرت کے وہ قطرے رِس رہے ہیں، جو زندگی اوروجود کا بنیادی وسیلہ ہیںجنھیں یہ کردار اپنی ہتھیلیوں پر سنبھالتا ہے مگر ہتھیلی ان قطروں کے سبب ایسا چراغ بن گئی ہے جن میں آثارِ حیات کی کمی ہے بلکہ امرت کی یہ بوندیں اپنے مناسب محل میں استعمال نہ ہونے کے سبب ضائع اور رائگاں جاتی ہیں۔رائگانی کے اسی احساس کی وجہ سے زندگی کے اس چراغ کو بجھتے ہوئے ایک دیے سے تعبیر کرتا ہے۔
’ ہتھیلی مگر ٹمٹماتا ہوا ایک دیا بن گئی تھی۔‘
جنسی جذبے کی اس خودکار اور خود ساختہ وسیلے کے ذریعہ تسکین کی صورت کو شاعر نے نہایت خوبصورت بصری پیکروں کی مدد سے بیان کیا ہے کہ کردار کی ذہنی اور جسمانی کیفیت اس عمل کے وقت کیا ہوتی ہے۔’پھڑپھڑاتے ہوئے طائر ِ زخم خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا‘ کا پیرایئہ اظہار لذت اور احساسِ محرومی کی ملی جلی کیفیت کو بڑی فنکاری سے نمایاں کر دیتا ہے اور اس پورے عمل کے بعد کردار جس احساسِ شکست اور محرومی سے دوچار ہے۔ اس کے پائوں بڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔وہ اپنی جگہ حسرت و یاس کے عالم میں کھڑا رہتا ہے اور اپنے دل سے باتیں کرتا ہے۔مثال دیکھئے۔
’دل میں اک بوند نے یہ کہا،رات یوں ہی گزر جائے گی۔‘
ملحوظ رہے کہ دل کی ظاہری شکل بھی کسی گرتے ہوئے قطرے کی مانند ہوتی ہے اور کردار کا اپنے دل سے مکالمہ یہ ہے کہ’رات یوں ہی گزر جائے گی،زندگی یوں ہی گزر جائے گی‘ یوں ہی کی معنویت نظم میں اپنی تکرار کے سبب خصوصی توجہ چاہتی ہے ۔ یوں ہی یعنی لاحاصل ، بے نتیجہ اور بے کیف۔ دل کی یہ بوند کردار کی آنکھوں میں حسرت کے آنسو بن کر ٹمٹمانے لگتے ہیں۔کسی زخمی پرندے کی طرح جو مضطرب اور بے چین ہے۔زندہ ہے بھی اور نہیں بھی۔مثال دیکھئے۔
’پھڑپھڑاتے ہوئے طائرِ زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے،مجھ کو آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا۔ اب یہ
زخمی پرندہ نہ تڑپے گا لیکن مرے دل کو ہر وقت تڑپائے گا۔
شعری کردار کا بیان یہ ہے کہ یہ پرندہ اب شاید دوبارہ کبھی نہیں تڑپے گا لیکن اس کی محروم اور حسرت زدہ زندگی کی یادیں اسے تاحیات بے چین رکھیں گی۔ یہ کردار امرت کی ان بوندوں کو اپنی ہتھیلی پر سنبھالے رکھنے کا ایک عہد کرتا ہے۔ یہ غالباً اشارہ ہے اس بات کی جانب کہ اسے جنسی تسکین کی خاطر کسی مصنوعی اور بے جان عمل پر ہمیشہ انحصار کرنا ہوگا۔ کردار کی زندگی ایک ایسا چراغ ہے جو آثارِ حیات سے محروم ہے اور جس کی روشنی خود کردار پر ایک ایسا طنزیہ قہقہہ ہے جس کی صدائیں اس کردار کے دل میں بجھتی ہیں لیکن یہ گونج دوسروں کو سنائی نہیں دیتی کیونکہ یہ قہقہہ بے صدا ہے۔ اندھیرے اور اجالے کا یہ سفر فطرت کا قانون ہے اور اس راستے کی رسم بھی یہی ہے کہ لوگ آتے جا تے رہیںگے اور زندگی معمول کے مطابق یوں ہی رواں دواں رہے گی۔ نظم میں اس کردار کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ جنسی جذبے کی اس آویزش سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے لیکن یہ ایسی آرزو ہے، جس سے نجات ممکن نہیں چنانچہ بہت سے قافلے اس راستے پر ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے منزل تک پہنچنے کی راحت نہیں پائی لیکن شام ہونے سے پہلے پہلے ان کے لیے بھی مقصود کا بند دروازہ کھلنے لگا ہے اور وہ سخت مشقت اور محرومی کے بعد کامرانی کی مسرت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔کردار کی بدنصیبی یہ ہے کہ
’میرا دروازہ کھلتا نہیں ہے،مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرہ یہی کہہ رہا ہے کہ ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا
کہ جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہو کی پلا دو۔‘
کردار کے لیے زندگی پھیلا ہوا ایک صحرا ہے جہاں زندگی کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔چاہے اور چاہے جانے کی خواہش سے محرومی کا اس سے زیادہ درد انگیز بیان اور کیا ہوگاکہ راستے میں پھولوں کی راحت تو کیا،کانٹوں کی نوک بھی اس کے حسرت زدہ دل کو میسر نہیں آتی۔یہ کردار لاکھوں لوگوں میں شامل ہوکر ایک بے معنیٰ سفر کرتا اور راہ میں ہی کہیں ڈوب جاتا ہے۔اس عالم یاس میں اسے اپنی سوکھی ہتھیلی ایسے کنول کی مانند محسوس ہوتی ہے جو بہتی لہروں میں کھلا ہے۔ گویا اس کی یہی ہتھیلیاں اس کی تنہاجائے پناہ اور واحد سہارہ ہیں۔ اسی ذہنی کشمکش میں بازارِ حسن کا ایک دوسرا کردار نظم کے متکلم سے مخاطب ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ آپ چپچاپ تنہا کیوں کھڑے ہیں۔ یہ جگہ تو ناامیدی اور مایوسی کی نہیں۔اس کوچے میں ہر شخص کامیاب اور بامراد ہے۔آپ جو کانٹوں کی حسرت میں تنہا کھڑے مایوسی سے دوچار ہیں۔فقط آپ کے حکم کی ضرورت ہے۔ اگر کہیں تو آپ کی خدمت میں بے مثال نرم و نازک ٹہنی پیش کی جا سکتی ہے جو آپ کے دل سے کانٹوں کی حسرت کو ہمیشہ کے لیے دور کر سکتی ہے۔کردار اس کے جواب میں اس پیش کش کو نا منظور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں یہاں اس غرض سے نہیں آیا۔میںاپنے کسی دوست کا انتظار کر رہا ہوں۔اس مکالمے کے بعد بھی اس کے دل کو سکون میسر نہیں آتا۔ وہ خود کو کسی ایسے صحرا کا باشندہ سمجھتا ہے جہاں کسی ٹہنی یا پھول کا ملنا نا ممکن ہے۔مثلاً
’میں ایک صحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود اپنی نظر میں، مجھے اب کوئی بند دروازہ کھلتا نظر آئے،یہ بات ممکن نہیں ہے ،میں
اک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھپا لے۔‘
نظم کے کردار کے لیے سبھی دروازے بند ہیں ۔اس کا گوہرِ مراد شاید اسے کبھی دستیاب نہ ہو سکے گا۔ اسے حسرت اس بات کی ہے کہ محبت کی کوئی تیز آندھی اس کے وجودکی بنیادوں کو ہلا دے ، اسے اپنے محفوظ پردوں میں چھپا لے۔زندگی کے سہانے منظر کسی بہتے ہوئے ہوا کے جھونکے کے مانند اس کی گرفت سے آزاد ہو چکے ہیں ۔ امرت کی وہ بوندیں جو اس کی ہتھیلی پر وقتی مسرت کا واحد وسیلہ تھیں وہ بھی خشک ہو چکی ہیں اور نظم کے آخر میں کردار بے معنویت کے شدید احساس سے افسردہ اور دل گرفتہ ہے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا مہیب صحرا ہے جس میں نہ تو کوئی رنگ ہے نہ زندگی کے آثار ہیں جو خشک اور بے برگ ہے۔یہ صحرا اتنا ویران اور دل کو دہلا دینے والا ہے کہ کردار یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ ’ ایک آیا گیا ،دوسرا آئے گا ۔رات میری گزر جائے گی‘ گویا وقتی اور مصنوعی تماشے بھی دل کی تسکین کے لیے اس صحرا میں دستیاب نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔