::: "میراجی کے فکری اور شاعرانہ روپ رنگ " :::
}آج ۲۵ مئی کو میرا جی کا 106 وان یوم پیدائش ہے{
میراجی کی یہ بدنصیبی رہی کی ان کی تفھیم کبھی آسان نہیں رہی ۔ حا لانکہ میراجی کا شعری رویہ بہت ساف اور سادہ ہے اور بھر یہ کہ ان کی ذہانت کو منفی طور پر قبول کیا گیا۔ میراجی کے فن کو کم اور اس کے غیر معمولی روئیے کو ذیادہ اہمیت دی گئی۔ میراجی کی شخصیت کا تضاد ان کی نفسایاتی الجھیں، زہنی خلفشار، ارادی، غیر ادادی، شعور یا غیر شعوری ناپسندیدہ حرکات پر نظر روڈائی جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ قدیم ہندوستان کے ترجمان ہوتے ہوئے جدید دور کے پیخام بر کیسے ہعحئے ۔۔ شاید یہ سوال ہمیشہ ہمشہ لاجواب رہے گا۔ میراجی کی شاعری میں کچھ عناصر بہت نمایاں ہیں۔ وجودی فکر یا بے فکری فطرت سے قربت یا تنہائی کے استلالی فاصلے کی لذّت ہے۔ جیسے جمالیاتی فاضلے کی ترجمانی، مسکویت یا میرا سین سے ناکام محبت کا ریشنلائزیشن بھی کہا جاسکتا ہے میراجی نے علامتوں اور اشاروں کی سے نئے انداز میں سوچنے کا انداز دیا۔ اور اردو نظم کونئی سمتوں کی جانب موڈ دیا۔ اور وہ جدیدت کی کی روایات شکنی، غیر عقلی، لامقصدیت اور نئے لہجے اور نئے اسلوب کے شاعر بن کے ابھرے ۔میرا جی کی نظم کے لیے چند تجربوں سے عبارت ہے، میرا جی نے جدید اردو نظم کی مصرع سازی کی طرف خاصی توجہ دی اور نئے لکھنے والوں کو سکھایا کہ جدید نظم کا مصرع کہاں توڑنا چاہیے اور کہاں سے نیا مصرع شروع ہونا چاہیے۔ نظم میرے خیال میں ایک خیال کو تسلسل کے ساتھ اس کی توریثlegacy کا خیال رکھتے ہوئے کہی جاتی ہے، میرا جی کی متنوع شخصیت ان کے فن پر کچھ ایسے حاوی ہے کہ ان کی شعریت اور دوسرے جملہ کاموں کی تفہیم و ترسیل میں اسے ہر گز طاق پر نہیں رکھا جا سکتا، کیا یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ بظاہر جنس کی شاعری کرنے والا میرا جی جب اپنے قلمی نام سے مضامین لکھتا ہے تو اس کے موضوعات جاپان میں مزدوروں کے مسائل، چین کے کارخانوں میں مزدوروں کے اوقات کار اور سامراج کا ہندوستان ٹوٹنے کا دو طرفہ عمل وغیرہ ہیں، رشید امجد کی تحقیق ہے "میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔۲۵؍مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے)ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو انہوں نے میرا جی کی والدہ سے شادی کر لی جو عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔گجرات کا ٹھیا واڑ سے لے کر بوستان ، بلوچستان تک انہوں نے سکھر،جیکب آباد،ڈھابے جی،جیسے مقامات گھوم لیے۔بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا ۔۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں،چنانچہ ثناء اللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا { یاد رہے میراج ہیلے " ساحری" کے تخلص سے شاعری کرتے تھے}اور رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر سکے۔ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا ۔ بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔پھر اس میں تدریجاََ ترقی کرتے گئے،لوہے کے تین گولے،گلے کی مالا،لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ،بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے اندر،بے تحاشہ شراب نوشی،سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے۔ بقول محمد حسن عسکری :’’جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے،اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری‘‘۔۔ میراجی کو جنس زدہ شاعر قرار دیا گیا۔ میراجی نے اس بات کی کبھی پرواہ نہیں تھی۔ جنس سے تو ہر شخص کا تعلق کسی نہ کسی طور پر رہا ہے۔صرف فرق کم اور زیادہ شدت کا ہے۔ کیرا جی وہ پہلا شاعر ہے جس نے جنس کے موضوع کو شاعرانہ زبان دی۔ کیونکی وہ ظاہری اندنگی سے زیادہ باطنی زندگی پر یقین رکھتے تھے۔ یہ بھی ہے کہ فرد کا باطن ہی اس کی تصویر کو نمایاں کرتا ہے۔ خارج کی دنیا مصنوعی ہے جہاں قدم قدم پر روپ بہروپ ہے مگر باطن میں کوئی منافق نہیں ہوتا۔۔ باطن ہی سے فرد کی اصل حقیقت کا سراغ ملتا ہے۔
میرا جی پر جنسی کج روئی، بے راہ روی اور مریضانہ شخصیت کے ایسے ایسے اشتہاری پوسٹر چسپاں کر دیے گئے کہ اصل میرا جی کے نقش و نگار کہیں چھپ کر رہ گئے۔ میرا جی کے نادان دوستوں اور بدخواہ حریفوں نے ان کی ذہنی و جسمانی غلاظتوں کے وہ خاکے اڑائے کہ انھیں عام انسانوں کی دنیا سے الگ تھلگ کوئی جناتی مخلوق بنا کر رکھ دیا۔ شہر کے لوگ تو ظالم تھے ہی، خود میرا جی کو بھی مرنے کا کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے خول کے اندر ہی محفوظ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے:
’لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں، مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا، یہ کمپلیکس ہی میری تحریریں ہیں۔ میرا جی کی غزلوں میں میرؔ کی سی ہی سادگی ہے۔ انھوں نے آزاد نظم کا رواج ڈالا۔ میرا جی کی نظموں میں ارتقا، تنہائی، یگانگت، عدم کا خلد، آنگینے کے اس پار کی شام ’خدا‘ اور صدا بہ صحرا دیکھی جا سکتی ہیں۔ میرا جی نے غزلوں میں بھی خوب خوب داد پائی لیکن میرا جی کا غزل کو نظم کی ہیئت ہی میں لکھنے کا رجحان ہے، وہ نظم کی وحدت کو Running Lines کے ذریعے قائم رکھتے ہیں۔ اس طرح کی ایک اور مثال ’’سمندر کا بلاوا‘‘ ہے یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں؟ تم کو بلاتے بلاتے مرے‘ دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے۔
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا
بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا
پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا
بہتے بہتے کام نہ آئے لاکھوں بھنور طوفانی ساگر
اب منجدھار میں اپنے ہاتھوں جیون ناؤ ڈبونا ہوگا
میرا جی کیوں سوچ ستائے، پلک پلک ڈوری لہرائے
قسمت جو بھی رنگ دکھائے، اپنے دل میں سمونا ہوگا
صرف 38 سال کی عمر میں 3 نومبر، 1949ء کوکنگ ایڈورڈ ہسپتال ، ممبی میں انتقال کرگے۔ اورممبئی کیا ایک قبرستاں مین ہیوند زمیں ہوئے۔ میرا جی ایک ایسے شاعر تھے جنہیں اردو ادب میں باغی شاعر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ باغی اس لیے کہ انہوں نے ن۔م۔ راشد کی طرح اردو نظم کی روایت سے مکمل بغاوت کی اور اپنی منظومات کو موضوع اورتکنیک ہر دو لحاظ سے بالکل نئے رنگ میں پیش کیا۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجموعے ہیں راقم السطور نے اپنی کتاب " تنقیدی تحریروں" ممبئی{ 2004} میں ' میرا جی، کے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔