وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کر دیا
یہ شعر تو سب نے سنا ہوگا لیکن شاعر بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا۔
یہ تھے م ۔ حسن لطیفی
جن کی آج 59 ویں برسی ہے۔ وہ 11 دسمبر 1905 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ایک خاص طرح کی ارسٹوکریٹک زندگی گزاری ۔ ہفت زباں تھے۔ صحافت بھی کی۔ زندگی کا آخری حصہ خود فراموشی کے عالم میں گزرا۔ 23 مئی 1959 کو لاہور میں وفات پائی۔ اور میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
قبر کا کتبہ
میاں محمد حسن لطیفی صحافی پسر محمد شاہ صاحب رئیس لودیانہ
۲۳ ،مئی ۱۹۵۹ مطابق ۱۴ ذیقعد ۱۳۷۸ ہجری
وائے حسن لطیفی قادر بیاں ادیب
پسر سخی محمد شاہ ولی و سعد
آں گنج بخش فیض کرم مظہر سخا
مفلس را ابر باراں و منعم را مثال رعد
رفت از جہان فانی و ممکن نمی گذاشت
پیدا کند زمانہ حریفش بدور بعد
پرسیدم از سروش تاریخ رحلتش
گفتا بشب ماہ کمال از ما ذیقعد
۱۴ ذیقعد ۱۳۷۸ ہجری
پاکستان ٹیلی ویژن کی مشہور پروڈیوسر صوفیہ لطیفی ، م۔ حسن لطیفی کی صاحبزادی تھیں۔
دختران ہند، لطیفیات (تین حصے) ،عظمت آدم ، نظریہ مہدی اور The Legend of Heer Ranjha
م۔ حسن لطیفی کی تصانیف ہیں ۔ لطیفیات لاہور کے ماورا پبلشرز نے دوبارہ بھی چھاپی۔
وہ دور جنوں تھا یا کچھ اورکہ ایک وقت امام مہدی ہونے کادعوی' بھی کیا اور لدھیانہ کو ارض لد قرار دیا۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان آئے تو ان کے پرنٹنگ پریس کے عوض کیمبل پور( اٹک) میں ملٹری پریس نامی چھاپہ خانہ الاٹ ہوا۔مرزا حامد بیگ صاحب کی روایت ہے کہ وہ پریس کی چابیاں وہیں پھینک کر لاہور آگئے۔ وہ پریس کافی عرصے بعد کسی اور کو الاٹ کردیا گیا۔
م۔ حسن لطیفی کی ایک غزل
غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا
میں عالم غم اپنا عالم سے نہیں کہتا
پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھہ تڑپی ہوئی نظریں
دکھہ اپنے میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا
رہ گیر ہوں میں ایسا ہر غم سے گزرتا ہے
دعوت پہ جو رندان خرم سے نہیں کہتا
موسم ہمہ گردش ہے پس ماندۂ گردش ہے
لب تشنہ کوئی یہ شے کیوں جم سے نہیں کہتا
کسب متحرک سے پابستہ نسب طغرے
یہ کیا ہے کوئی اہل خاتم سے نہیں کہتا
آ داغ محبت کے سانچے میں تجھے ڈھالوں
خاتم سے میں کہتا ہوں درہم سے نہیں کہتا
کچھہ بات تھی کہنے کی کچھ بھول گیا اب میں
فطرت سے نہیں کہتا آدم سے نہیں کہتا
کہتے تو نہیں باور نا کہئے تو کافر تر
کہنے کی قسم مجھ کو میں دم سے نہیں کہتا
کہلانے میں خود ان کا کچھہ تکملہ نارس ہے
الٹے انہیں شکوے ہیں کیوں ہم سے نہیں کہتا
ہاں میری یہ الجھن تو ہر دل میں کھٹکتی ہے
کچھہ مڑ کے کوئی زلف برہم سے نہیں کہتا
کیوں ہو نہ جنوں کم گو جب ہوتا ہے یہ زیرک
دہرائی ہوئی باتیں محرم سے نہیں کہتا
کہنے سے ہوا گہرا کچھہ اور غم پنہاں
میں سائے سے کہتا ہوں ہمدم سے نہیں کہتا
جس لمحے سے دیکھا ہے اک شعر سراپا کو
دانستہ کوئی مصرع اس دم سے نہیں کہتا
دیتے ہیں وہ محفل میں یوں داد لطیفیؔ کو
اشعار یہ کیا اکثر مبہم سے نہیں کہتا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“