اگر ہم چار سو سال پہلے کی دنیا میں جائیں تو جالینوس کی لکھی اناٹومی میڈیکل سائنس میں پڑھائی جاتی تھی۔ اس اناٹومی کی ایک جھلک،
“جگر خوراک کی مدد سے خون پیدا کرتا ہے جو گاڑھے رنگ کا ہوتا ہے۔ یہ رگوں کے ذریعے جسم کے اعضاء تک پہنچتا ہے۔ جس طرح پانی پودے کی خوراک ہے، اسی طرح خون جسم کے اعضاء کی۔ کچھ خون پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔ وہاں پر یہ ہوا سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈا خون دل تک جاتا ہے اور اس چمکدار سرخ خون کو دل، دماغ تک بھیج دیتا ہے۔ یہ ہمارے جذبات اور احساسات پیدا کرتا ہے۔ خون جسم میں جذب ہوتا رہتا ہے اور جگر اس کو مسلسل پیدا کرتا ہے۔ اگر جگر زیادہ خون پیدا کرے تو توازن بگڑ جاتا ہے اور سردرد سے لے کر گھنٹیا جیسے امراض کا باعث بنتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ خون نکلوایا جائے۔ نکلوایا جانے والا خون فاسد مادے لے کر نکلے گا اور جسم کا توازن بحال کر دے گا۔”
(آج کے کئی توہمات اور حکماء کے نسخوں کے پیچھے ڈیڑھ ہزار سال تک مقبول رہنے والے یہ خیالات ہیں)
اس اناٹومی کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ یہ غلط تھی لیکن صدیوں پرانے علم کو چیلنج کرنا آسان نہیں تھا۔ خون کی سرکولیشن، دل اور جگر کا کردار تو آج ہر کوئی جانتا ہے اور اس کے میڈیکل سائنس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انجیکشن سے لے کر سرجری تک، اس علم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
لیکن اس سرکولیشن کو دریافت کر کے جالینوس کی اناٹومی کو ماضی کا حصہ بنا دینے والے برطانیہ کے شاہی طبیب ولیم ہاروے تھے اور اس دریافت نے ان کی شہرت کو اور ان کے کیرئیر کو تباہ کر دیا تھا۔
خون جسم میں سرکولیٹ ہوتا ہے۔ دمشق سے تعلق رکھنے والے ابنِ نفیس نے تیرہویں صدی میں یہ خیال پیش کیا تھا اور سولہویں صدی میں ہسپانیہ سے تعلق رکھنے والے مائیکل سرویٹس نے بھی، لیکن یہ مقبول نہ ہوئے۔ اپنے نئے خیالات اور تھیولوجی کو ملانے پر مائیکل سرویٹس، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں ہی طرف سے معتوب قرار پائے تھے اور ان کا انجام آگ لگا کر دی جانے والی سزائے موت پر ہوا تھا۔ اس دور میں روایات سے ہٹنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
ولیم ہاروے کو بھی اس کا اندازہ تھا لیکن میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے شاہی طبیب بننے کے بعد بھی انہوں نے تجربے جاری رکھے۔ جانوروں اور انسانوں پر کئے گئے تجربات سے انہوں نے نتیجہ نکالا کہ خون ہر وقت نیا نہیں بن رہا ہوتا۔ ستر صفحات پر مشتمل کتاب میڈیکل سائنس کی سب سے لمبی چھلانگ تھی۔ یہ کتاب 1628 میں شائع ہوئی۔
اس کا ثبوت دینے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا وہ سادہ اور طاقتور تھا۔ انہوں نے ایک کیلکولیٹ کیا کہ ایک گھنٹے میں کتنا خون بہتا ہے اور یہ کہ اتنا خون نیا بننا ممکن ہی نہیں۔ کتوں پر تجربہ کر کے انہوں نے کیلکولیٹ کیا کہ ان کو دن کا 245 کلوگرام خون بنانا ہو گا۔ خون کا بہاوٗ انسانوں پر بھی چیک کر کے نتیجہ نکالا کہ یہ سب صرف اس وقت ہو سکتا ہے اگر یہی خون جسم میں چکر لگاتا رہے۔ (بغیر مائیکروسکوپ کے وہ کیپیلیری تو نہیں دیکھ سکے تھے جس سے رگوں اور شریانوں کا رابطہ پتا لگتا۔ ان باریک رگوں کو ان کی وفات کے بعد میں دریافت کیا گیا)۔ اس کا نتیجہ انہوں نے یہ نکالا کہ دل ایک پمپ ہے اور اس کی دھڑکن اس کو دھکیل کر جسم میں بھیجتی ہے۔
ہاروے کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور کنزرویٹو ڈاکٹروں نے ان پر عطائی ہونے کا الزام لگا دیا جس کی وجہ سے ان کی پریکٹس متاثر ہوئی۔ ڈیکارٹ نے اس خیال کو ماننے سے انکار کر دیا کہ دل ایک پمپ ہے۔ اس وقت کی میڈیکل اسٹیبلشمنٹ سے بھی سپورٹ نہیں ملی۔ لیکن ابتدائی مزاحمت کے بعد ہاروے کی تھیوری مقبول ہونا شروع ہوئی اور ان کی زندگی میں ہی اس کو عام قبولیت مل چکی تھی۔
ہاروے کے سرکولیشن کے آئیڈیا کو جدید میڈیکل سائنس کی اہم ترین دریافت سمجھا جاتا ہے۔ اس نے نہ صرف فزیولوجی کا آغاز کیا بلکہ میڈیسن میں تجربے کی روایت کا بھی۔
ولیم ہاروے کے اہم تجربوں میں سے ایک جادوگرنی، مینڈک اور دودھ پر کئے گئے تجربے کی مدد سے خواتین کی جان بچانے کا بھی تھا لیکن اس کی کہانی پھر کبھی۔
پھیپھڑوں کے فنکشن کو سمجھنے کا کام ابھی باقی تھا اور ولیم ہاروے اس بارے میں بالکل غلط تھے۔
(جیرالڈ فریڈلینڈ اور مائیر فرائیڈمین کی لکھی کتاب Medicine's 10 Greatest Discoveries میں اس دریافت کی اہمیت کو پہلا نمبر دیا گیا ہے)
ولیم ہاروے کے بارے میں