بے ہوشی کا طریقہ
کسی آپریشن سے پہلے مریض کو بے ہوش کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ سب سے پہلے ہوریس ویلز نے ۱۸۴۵ میں دریافت کیا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر کی مہارت جلد سے جلد آپریشن کر دینا تھی۔ اس دوران مریض کو باندھ کر اور سختی سے جکڑ کر رکھا جاتا اور دھیان کسی دوسری جگہ بٹایا جاتا یا پھر اسے نشے میں دھت کر دیا جاتا۔ ایک اور طریقہ مریض کے سر پر زور سے ضرب لگانے کا بھی تھا۔ نائٹرس آکسائیڈ گیس ہنسنے والی گیس ہے یعنی اسے اگر سونگھنے والا ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو پارٹی میں ہنسنے ہنسانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ولیم ہوریس ایک ڈینٹسٹ تھے۔ ایک پارٹی میں ان کے ایک دوست نے زیادہ سونگھ لی۔ اس دوران اس دوست کی ٹانگ پر بڑا زخم آ گیا۔ ان کے دوست کو پتہ بھی نہیں لگا۔ ولیم دانت نکلواتے وقت مریضوں کی اونچی چیخیں سننے کے عادی تھے، انہوں نے یہ دیکھا تو یہ کام مریضوں پر شروع کیا۔ کامیاب رہا اور مریض کو پتہ بھی نہیں لگتا تھا۔ اس کا پیٹنٹ ولیم کے پاس ہے۔ نائٹرس آکسائیڈ پہلا اینستھیٹک تھا۔
سٹیتھوسکوپ
یہ فرنچ ڈاکٹر رینے لائنچ کی ایجاد ہے جو پیرس کے ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر نے جب مریض کی حالت دیکھنا ہوتے تو اس کا ایک طریقہ مریض کی چھاتی کو انگلیوں سے بجا کر چیک کرنے کا تھا۔ ڈاکٹر دینے کو ایک نوجوان مریضہ کو چیک کرنا تھا۔ وہ اس معائنے کے دوران اس لڑکی کو شرمندگی سے بچانے کے لئے ڈاکٹر نے انگلیوں کے بجائے اپنے سامنے پڑے موٹے کاغذ کو گول کر کے سنا۔ آواز بہتر آئی۔ اس سے تشخیص میں آسانی رہی۔ یہاں سے سٹیتھوسکوپ کا خیال آیا۔ پہلی سٹیتھوسکوپ لکڑی کی ٹیوب کے تھے۔
پٹی
گھروں میں عام استعمال ہونے والی بینڈ ایڈ ۱۹۲۰ میں ارل ڈکسن نے ایجاد کی۔ ارل جانسان اینڈ جانسن کے لئے روئی کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ ان کی بیوی جوزفین اکثر اپنے آپ کو چوٹ لگا لیتی۔ علاج مہنگا تھا۔ ارل نے انفیکشن سے بچنے کی ترکیب سوچی۔ کپڑے کی جالی کے دونوں طرف کے حصوں پر چپکنے والی چیز لگا کر زخم پر لگا دی۔ یہ پہلی بینڈ ایڈ تھی۔ کچھ ہی برسوں بعد شروع ہونے والی جنگ عظیم میں اس نے بہت سے زخمیوں کی جان بچائی۔
آج میڈیکل میں ان عام استعمال ہونے والی ایجادات کی ان ہلکی پھلکی کہانیوں میں ایک مشترک چیز مؤجد کا مشاہدہ اور پھر اس مشاہدے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔