یہ کڑوی سچائی تو ہم ذہنی طور پر قبول کر ہی چکے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا مسلمانوں کا‘ خاص طور پر ہم پاکستانیوں کا دشمن ہے!
ایک طویل عرصہ سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان قومیتوں‘ زبانوں‘ علاقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں‘ حالانکہ حقیقت کا اس سے دور دور کا تعلق نہیں۔ ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب آپس میں شیرو شکر ہیں۔ شام اور مصر میں گاڑھی چھنتی ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان مل کر ایک کنفیڈریشن بنانے کا سوچ رہے ہیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی ساتھ ملانے کا پروگرام بنا رہے ہیں!
بین الاقوامی میڈیا جو یہودیوں اور نصرانیوں کے آہنی پنجے میں جکڑا ہوا ہے‘ رات دن مذموم پروپیگنڈا کیے جا رہا ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دروغ گوئی کی حد یہ ہے کہ بجلی کا بلب شیخوپورہ کے چودھری نصیر احمد نے ایجاد کیا تھا مگر پاکستان دشمنی کا شاخسانہ ملاحظہ ہو کہ کتابوں میں تھامس ایڈیسن کا نام لکھا جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز ہی کو دیکھ لیجیے۔ تحصیل تلہ گنگ کے دو بھائیوں ملک سمندر خان اور ملک جمعہ خان نے جدید دنیا کو یہ تحفہ دیا مگر سہرا آرول رائٹ اور ولبر رائٹ کے سر باندھا جا رہا ہے۔ دنیا کی پہلی ای میل کا تجربہ سوڈان کے ایک مسلمان شیخ عنابی ارضی سماواتی نے کیا تھا مگر یہودی میڈیا کہتا ہے کہ ایک امریکی رے ٹام لِن سن نے کیا تھا۔ یونیورسٹیوں کے شعبے میں اس قدر دھاندلی برتی گئی ہے کہ دنیا کی چوٹی کی پانچ سو یونیورسٹیاں ساری کی ساری جبوتی‘ صومالیہ‘ برونائی‘ پاکستان‘ مراکش اور سینی گال میں ہیں لیکن نام ہارورڈ‘ جان ہاپکن‘ کیمبرج وغیرہ کا لیا جاتا ہے۔ ٹائلٹ کا فلش سسٹم ایک برطانوی شخص سر جان ہیرنگٹن کے ذمے لگایا جاتا ہے کہ اس نے 1596ء میں ’’ڈبلیو سی‘‘ بنا ڈالا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایجاد تو دو مسلمانوں نے بیک وقت کی تھی۔ ایک کا نام ابراہیم لودھی تھا دوسرے کا ظہیرالدین بابر تھا۔ دونوں لڑائی جھگڑے سے دور‘ سائنس کے تجربوں میں مگن رہتے تھے تاکہ خلق خدا کو آرام پہنچائیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دونوں نے بیک وقت فلش سسٹم ایجاد کر ڈالا۔ ابراہیم لودھی نے آگرہ میں اور بابر نے کابل میں۔ اب یہ عام سی بات ہے کہ دو بھائیوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو ہی جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی اور اس بات پر کہ فلش سسٹم پہلے کس نے بنایا‘ پانی پت میں معمولی سا جھگڑا ہو گیا جسے عالمی دشمن میڈیا نے پانی پت کی پہلی جنگ کا نام دے دیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہزاروں افراد ہوسِ ملک گیری کی بھینٹ چڑھ گئے۔
بین الاقوامی میڈیا کی یہ اسلام دشمنی تو ہم ذہنی طور پر قبول کر ہی چکے تھے مگر تازہ افتاد یہ آن پڑی ہے کہ قومی میڈیا بھی غلط خبریں دینے لگ گیا ہے۔ اس عیدالفطر کے سعید موقع پر پاکستانی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے اتنے بڑے بڑے جھوٹ… سفید جھوٹ بولے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ وزیراعظم پاکستان کے بارے میں خبر دی گئی کہ انہوں نے عید سعودی عرب میں منائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف کے متعلق پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے لندن میں عید منائی۔ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کے بارے میں ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے کہ دونوں رہنمائوں نے عید دبئی میں کی۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کے روز وزیراعظم پاکستان سحری کے وقت بیدار ہوئے۔ راولاکوٹ پونچھ سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کی وجہ سے وزیراعظم سخت پریشان تھے۔ مسلمان جنگ سے پریشان نہیں ہوتا۔ آپ کو پریشانی اس بات کی تھی کہ فوجی جوان عید کے دن بھی دشمن کی بزدلانہ کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ فوجی جوان تو مورچے میں ہوں اور ہمارے مقبول و ہردلعزیز حکمران عید کے روز آرام کریں۔ چنانچہ وزیراعظم نے عید کی نماز اگلے مورچوں کے پاس جوانوں اور افسروں کے ہمراہ ادا کی۔ زمین پر دسترخوان بچھایا گیا۔ وزیراعظم مجاہدوں اور غازیوں کے ساتھ بیٹھے۔ وہی کچھ کھایا جو سب کھا رہے تھے۔ لشکریوں کے حوصلے بلند ہو کر آسمان کو جا لگے۔ ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔
جناب شہبازشریف عید کے روز پو پھٹے بیدار ہوئے۔ وہ کئی دن سے سوچ رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس میں عساکر کے شانہ بشانہ ہماری پولیس بھی فرنٹ لائن پر ہے۔ پولیس کے بے شمار جوان اور افسر شہادت کے جام نوش کر چکے ہیں۔ یہی وہ جاں باز ہیں جو ان تمام محلات پر پہرہ دے رہے ہیں جنہیں ’’وزیراعلیٰ ہائوس‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ خادم اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ وہ عید کی نماز پولیس لائن میں ادا کریں گے اور نماز کے بعد جوانوں اور افسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
جناب آصف علی زرداری جب تک صدر رہے‘ کوئی عید ایسی نہ تھی جو انہوں نے صدارتی محل کے پرتعیش ماحول میں منائی ہو۔ کبھی وہ سیاچن ہوتے تھے تو کبھی کارگل۔ جہاں کہیں دھماکہ ہوتا‘ بے مثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں پہنچتے‘ زخمیوں سے ملتے‘ ہسپتالوں کے دورے کرتے اور شہدا کے لواحقین کے پاس جاتے۔ اس عید پر انہوں نے اپنی اس روایت کا پاس کیا۔ وہ عید کی نماز ادا کرنے لیاری کے تنگ گلی کوچوں میں پہنچ گئے۔ عوام انہیں اپنے درمیان دیکھ کر حیران رہ گئے۔ لیاری کے باشندے پیپلز پارٹی کے پشتینی وفادار ہیں
اور اس عزوشرف کے مستحق ہیں۔ جناب زرداری نے عید کی نماز ان کے ساتھ ادا کی۔ اور پھر لوگوں سے عید ملے۔
جناب بلاول بھٹو زرداری نے عید کی صبح فیصلہ کیا کہ وہ رینجرز کے جوانوں کا حوصلہ بڑھائیں گے کیونکہ امن و امان قائم کرنے کا جو کام جناب قائم علی شاہ نے کرنا تھا‘ وہ رینجرز کو کرنا پڑا ہے۔ رینجرز کے افسروں اور جوانوں کی قربانیاں بھی بے مثال ہیں۔ جانیں انہوں نے ہتھیلیوں پر رکھی ہوئی ہیں؛ چنانچہ بلاول بھٹو زرداری رینجرز ہیڈ کوارٹر میں پہنچے اور عید جوانوں کے ساتھ منائی۔
رہی ہمارے میڈیا کی یہ خبر کہ عساکرِ پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے عید کی نماز وانا میں پڑھی اور جوانوں سے عید ملے یا یہ خبر کہ جنرل نے بکاخیل کیمپ میں متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور دور دراز کے علاقوں میں متعین فوجی جوانوں کو عید پر ان کے مورچوں میں جا کر ملے‘ تو بین الاقوامی میڈیا کی طرح ہمارے قومی میڈیا نے بھی یہ چالاکی اب سیکھ لی ہے کہ جہاں چار جھوٹی خبریں دو‘ وہاں ایک سچی بھی دو تاکہ اعتبار قائم رہے۔
ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر میڈیا قوم کو یہ بتا رہا ہے کہ ہمارے صفِ اول کے سیاستدان اپنے فوجیوں‘ پولیس کے جوانوں اور رینجرز کے جاں بازوں کو بھلاتے‘ عوام کو پسِ پشت ڈالتے عید کے موقع پر لندن‘ سعودی عرب اور دبئی کے عشرت کدوں کا رُخ کرتے ہیں اور آرمی کا سربراہ منزلوں پر منزلیں مارتا عید کی صبح وانا جوانوں کے ساتھ اور عید کی شام بکاخیل متاثرین کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ ثابت کیا کرنا چاہتا ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔