مٍس ایڈوانچرز اور جنرل مشرف کا چولی دامن کا ساتھ ہے وہ کارگل ہو یا پھر پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کا آغاز اس بات سے یہ مت سمجھیں کہ مشرف کوئی بہت بڑا آزاد میڈیا کا داعی یا مداح تھا۔ اسکی کہانی عمومی تاثر سے مختلف ہے۔ اقتدار پہ قبضہ کرنے کے بعد جنرل مشرف مشہور آگرہ وزٹ پر بھارت گئے۔ وہاں انکی ملاقاتیں مختلف میڈیا کے گروپس سے ہوئیں۔ انڈین میڈیا میں اسکا بہت چرچا رہا۔ واپس آکر متعدد مواقع پر جنرل پرویز مشرف نے یہ خیال ظاہر کیا کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرز پر پرائیویٹ چینلز ہونے چاہییں تاکہ "نوجوان چہرے" ٹی وی اسکرینوں پر نظر آئیں۔
پی ٹی وی انکے لیے یہ کمی پوری نہیں کر پا رہا تھا۔ جنرل مشرف چونکہ خود کو ایک آزاد منش اور روشن خیال حکمران ثابت کرنا چاہتے تھے اس لیے ضروری تھا کہ انکے اس مؤقف کی پذیرائی کے لیے ایسا پلیٹ فارم دستیاب ہو جو"آزادانہ رائے "پر مشتمل ہو تاکہ سٹیٹ میڈیا کے زریعے اپنی بات مسلط کرنے کے خیال کو زائل کیا جا سکے۔
جنرل مشرف اسوقت پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ انہیں یقیناً یہ گمان تک نہ گزرا ہو گا کہ یہ میڈیا کا جٍن ایسا بوتل سے باہر نکلے گا کہ کنٹرول کرنے میں پوری دہائی درکار ہو گی
اور انکے اپنے خلاف انکے اپنے لوگوں کے ہاتھوں ایسے استعمال ہو گا کہ جنرل مشرف جیسا نو سال تک مطلق العنان حکمران بھی بے بس ہو جائے گا۔ میڈیا کا "انقلابی استعمال"ہمیں وکلا تحریک میں بھرپور نظر آیا۔ اس کامیابی کے بعد میڈیا ایک ایسا ہتھیار بن گیا جسے اپنے مقاصد کے لیے بھرپور استعمال
وقت گزرنے کے ساتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا کہ اس آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنے کا کوئی نسخہ ضرور ہونا چاہییے تاکہ عوام تک بس وہی کچھ پہنچے جو وہ بتانا چاہتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے کچھ"ماؤتھ پیسز "تیار کیے گئے انہیں حُب الوطنی اور مذہبی رنگ میں رنگ کر مختلف پرائیویٹ چینلز پر
بٹھا دیا گیا۔ قوم کی ذہنی تربیت ان کٹھ پتلیوں کے زریعے شروع کی گئی۔ قوم کو یہ بتایا گیا کہ سیاست دان کرپٹ ، غدار اور مذہب فروش ہیں ۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ زہر کئی سالوں تک قوم کے ذہنوں میں انڈیلا جاتا رہا۔ بہتان ، جھوٹ ، کردار کشی ، بدزبانی کا نا تھمنے والا طوفان چوبیسویں گھنٹے ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے لگا۔
جن چینلز نے زرا سی بھی اختلاف کی جرات کی انہیں نشانٍ عبرت بنا دیا گیا چینلز کو چند مخصوص لوگوں کا ایجنڈا آگے بڑھانے کا آلہ کار بنا دیاگیا اور آخر کار مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے۔
ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی گئی جس نے آتے ہی پہلا حملہ میڈیا پر کیا۔ اپنے خلاف تنقید کرنے والی چند آوازوں کو بھی چپ کروا دیا گیا۔ سنسر شپ اس دور کا خاصہ بن چکی ہے۔ اپوزیشن کا بلیک آؤٹ اور حکومتی ترجمانوں کی فوج کو البتہ چوبیسویں گھنٹے لائیو دکھانے کی آزادی ہے۔
جنرل مشرف کا آزاد میڈیا کا مس ایڈوانچر کا جن بڑی کامیابی سے بوتل میں واپس بند کر دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ میڈیا کی یہ آزادی ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی بلکہ ہم نے جدوجہد سے چھینی ہے۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اپنے چینلز پر آزادی سے ایک ٹٍکر تک نہیں چلا سکتے۔
پورے ملک میں انکے چینلز کو چند منٹوں میں بند کر دیا جاتا ہے میڈیا چینلز کی آزادی اب صرف واٹس ایپ ہدایات تک محدود ہو گئی ہے اور جو ان ہدایات پہ عمل کرنے میں چوں چراں کرے اسے لیبل پہ آخری نمبروں پہ پھینک کر گھنٹوں میں سارا دم خم اور آزادی نکال دی جاتی ہے۔
ان لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اب وہ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کیوں نہیں کرتے۔ اب کیا ضرورت نہیں ہے؟ اب لیکر دکھائیں وہ آزادی جس کے دعوے وہ ہر دوسری بات پر کرتے تھے۔ پاکستان میں کچھ بھی اتنا "آزاد" نہیں۔ کنٹرولڈ آزادی کو اپنی جدوجہد مت کہیں۔
ثابت کریں !
“