٢٠١٢ میں آتش رفتہ کا سراغ مکمل کرنے کے بعد مجھے میڈیا ہاؤس کی ضرورت محسوس ہوئی . ٨ برسوں سے میں برابر یہ کہتا آ رہا ہوں کہ ہمیں اپنا میڈیا ہاؤس چاہیے . اب یہ راگ دوسرے صحافی بھی الاپ رہے ہیں .لیکن بیشتر نہیں جانتے کہ میڈیا ہاؤس کی شکل کیا ہوگی . کچھ نے مسلم میڈیا ہاؤس کا راگ الاپنا شروع کیا . میڈیا ہاؤس پر مسلم کا ٹیگ لگتے ہی مقصد فوت ہو جائے گا .
ضرورت کیوں ہے ، پہلے اس بات کو جانئے
ہندوستان کو ایک مخصوص نظریہ کے لوگ جلانے اور جمہوری اقدار کو دفن کرنے کی سازش کر رہے ہیں .مختلف صوبوں میں نفرت اپنی تمام انتہا سے آگے نکل چکی ہے . معیشت تباہ ہو چکی ہے .ہندوستان سے روزگار ختم ہو چکے .بینک دیوالیہ . مودی حکومت نے کروڑوں کروڑ کی دولت لے کر مالیہ اور نیرو مودی جیسے لوگوں کو فرار ہونے کاآسان راستہ مہیا کرایا ..اس ملک میں ان دنوں سب کچھ بک چکا ہے ..الیکشن کمشنر بک گیا .میڈیا بک گیا .رویش ،ابھیسار جیسے کچھ لوگوں نے ضمیر کو فروخت نہیں ہونے دیا . یہ پہلا ملک ہے ،جہاں ا سٹنگ اپرشن میں میڈیا کو فرقہ وارانہ فسادات کی فرضی رپورٹنگ کا مجرم گردانا جاتا ہے اور انصاف سویا رہتا ہے .میڈیا ہندو اور مسلمانوں میں گہری خلیج پیدا کر رہا ہے .اور انصاف کے مجسمے سویے پڑے ہیں . .یہ پہلا ملک ہے جہاں میڈیا موت بیچ رہی ہے ..یہ پہلا ملک ہے جہاں سر عام مسلمانوں کے خلاف میڈیا نے اپنی تمام طاقت جھونک رکھی ہے .
امبیڈکر کی مورتیوں اور گاندھی کے مجسمے کو علامتی طور پر توڑا جا چکا ہے .ایک دن اسی ظلم کے راستے سے امبیڈکر کے آیین کی جگہ منو اسمرتی کا آیین نافذ کر دیا جائے گا .
بچوں کی تعلیم سے کھیلا جا رہا ہے ..ہندوتو کے رکشک کھلے عام مسلم گھروں میں داخل ہو کر اپنی بزدلی کا ننگا ناچ اس لئے دکھا رہے ہیں کہ انکی سرپرستی مرکزی حکومت اور آر ایس ایس کر رہی ہے …خالد ، پہلو خان ، روہت ویمو لا ،اخلاق مسلسل قتل کیے جا رہے ہیں .
…ا ور صور پھونکا جائےگا ،تو بے ہوش ہو جائیں گے، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں،مگر جسے اللہ چاہے،پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(الزمر:68)
.ملک ابھی بھی جل رہا ہے ..
یہ ملک جیسے ہندوؤں کا ہے ،اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے . 1857کی بغاوت میں مادر وطن ہندوستان زندہ باد کانعرہ پہلی بار عظیم اللہ خان نے لگایا تھا، جو اس انقلاب کی ایک مضبوط کڑی تھے۔ اس نعرے کا ترجمہ ہندی میں بھارت ماتا کی جئے ہوتا ہے .۔ ان معتصب شرپسندوں کو کیامعلوم کہ جس نعرے کی بنا پر ہماری صدیوں پرانی ملت کے شیرازے بکھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس کے پیچھے بھی ساجھی سنسکرتی کا ایک نمائندہ کھڑا تھا۔ یہ یوسف مہر علی تھے جنہوں نے پہلی بار انگریزوں کوئٹ انڈیا ، انگریزو بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا۔ سائمن گو بیک کا نعرہ دینے والے بھی یوسف مہر علی تھے۔ اسی دور میں زین العابدین نے جے ہند کا نعرہ دیا اور اپنے نام کے آگے سافرانی کا اضافہ کیا، جس کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں۔ وہ جرمنی میں انجینئرنگ کی پڑھائی کررہے تھے ۔ پڑھائی چھوڑ کر آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے۔ اس زمانے میں قومی پرچم کے ڈیزائن کو لے کر ایک تنازعہ سامنے آیا۔ ہندوطبقہ زعفرانی رنگ چاہتا تھا اور مسلمان سبزرنگ پسند کرتے تھے ۔ ہندﺅں کی دریادلی تھی کہ انہوں نے زعفرانی رنگ کا ارادہ چھوڑدیا مگر زین العابدین کو یہ دریادلی کچھ ایسی بھائی کہ انہوں نے اپنے نام کے آگے Saffronیعنی بھگوارنگ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور عابد حسن سفرانی بن گئے۔ انقلاب زندہ باد کانعرہ حسرت موہانی نے 1921میں دیا۔ بھگت سنگھ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہی نعرہ لگایا تھا۔مولانا کو گنگا دھر کاتلک کانعرہ سوتنتر تا ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے بہت پسند تھا۔ سرفروشی کی تمنا کا نعمہ بسمل عظیم آبادی نے سنایا۔ آج جو ہمارا قومی پرچم ہے ، اس کا ڈیزائن حیدرآبادی خاتون ثریا طیب جی نے تیار کیا۔ ہزاروں مثالیں گواہ ہیں کہ اردو ہندی رشتے نے اپنی شگفتگی، تازگی اور ہمہ جہتی کی بنیاد پر عالم کاری کے اس عہد میں دنیا کے ہر خطے میں اپنے نقوش چھوڑے۔ لیکن کیا یہ کہانیاں ہمارے بچوں کو یاد ہیں ؟ نہیں یاد ہیں .
ہمارے بچے کیا سیکھ رہے ہیں ؟ بچے یہ سیکھ رہے ہیں کہ مسلمان غدار ہیں .مسلمان حب الوطن نہیں ہو سکتے .
کیا میڈیا چینل جو زہر اگل رہے ہیں ، اسکا ہمارے پاس کویی جواب ہے ؟ ظاہر ہے نہیں ہے .
ہمیں اپنا میڈیا ہاؤس چاہیے . لیکن کیا اسکے لئے ملی تنظیمیں سامنے آئینگی ؟
اپنا چینل
——–
بجٹ – ١٠٠ کروڑ
ریاستی سطح کا چینل – بجٹ ١٠ سے بیس کروڑ
چینل کا نام : چینل کا نام ہندی یا انگریزی میں ہوگا . مثال کے لئے دی سورس ، چینل ٢٠٠ ، دی رپورٹ یا کوئی بھی نام ، جس سے ظاہر نہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی ترجمانی کر رہا ہے
٢ – چینل میں ونود دوا ، ابھیسار شرما ، پرسوں باجپیی جیسی فکر کے لوگ ہیں . ابھیسار اور پرسون کو لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لوگ کہیں نہیں ہیں .
٣ – رپورٹنگ کرنے والے ایسے لوگ ہوں جو معیاری رپورٹنگ کر سکیں اور ہندو مسلم تنازعہ سے بچتے ہوئے اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھیں .دلیلیں مضبوط ہوں . پریزنٹیشن ایسا ہو کہ پہلے دن سے ہی چینل لوگوں کی نگاہ میں آ جائے .
٤ – کچھ دن یا دو ایک ماہ چینل عام چینلوں کی طرح ہی رپورٹ کرے .یعنی کویی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں .
٥ – پھر چینل ١٥ سے ٢٠% ان موضوعات پر کام کرے ، جس سے نفرتیں دور ہوں .مسلمانوں کا سچ اجاگر ہو . مثال کے لئے ٢٥ منٹ کا ایک پروگرام — قسطوار — جن پر فرضی دہشت گردی کے الزامات لگے بعد میں الزام غلط پایا گیا — ان مسلمانوں کی کہانیاں جنہوں نے ملک کے لئے قربانیاں دن .ان میں غیر مسلم جانبازوں کو بھی شامل کریں تاکہ توازن برقرار رہے
٧ – میڈیا چینل کی فرضی خبروں کی کاٹ . مثال کے لئے ہتھنی کا واقعہ ، تبلیغی جماعت کا حادثہ . ایسے بہت سے حادثے
٧ – زبان ہندوستانی ہو . اردو کی چھاپ نہ ہو .
٨ – چینل میں غیر ضروری طور پر مداخلت کرنے والے نہ ہوں .اس سے مزاج نہیں بن پاے گا .
٩ – حکومت سے ٹکرانے والی بات نہیں ہوگی .یاد رکھیے ، چینل کے ذریعہ ہم حکومت سے ٹکر نہیں لینگے ، سمجھداری سے مسلمانوں کی بات رکھیںگے جو مضبوط دلائل کی روشنی میں ہونگیں .
١٠ . چھ سے آٹھ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ ہوگا ، جو صلاح اور مشورہ دیں گے . ان میں وکیل بھی ہونگے ، آی ایس افسران بھی . سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...