امریکی پروفیسر جارج رٹزر (George Ritzer) کی مشہور کتاب میکڈونلڈائزیشن آف سوسائٹی (McDonaldization of Society) کا پہلا ایڈیشن 1992میں شائع ہوا۔ دو سال قبل اس کا نواں ایڈیشن شائع ہوا۔ اکیڈیمک کتابیں اس قدر کامیابی حاصل کریں، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس شاندار کتاب میں پروفیسر جارج رٹزر نے میکڈونلڈ کو استعارہ بنا کر بڑے امریکی کاروباری اداروں ،جو اکثر ملٹی نیشنل کی شکل میں امریکہ کے علاوہ باقی دنیا پربھی حکومت کر رہے ہیں، کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس تھیوری کو انہوں نے میکڈونلڈائزیشن کا نام دیا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بار بار مولانا طارق جمیل کا خیال آتا ہے۔
میکڈونلڈائزیشن سے مراد ہے سماجی و معاشرتی شعبوں کا میکڈونلڈز (McDonald’s) کی طرز پر کام کرنا۔ پروفیسر جارج رٹزر کا کہنا ہے کہ ایک کے بعد ایک امریکی شعبہ میکڈونلڈائزیشن اپنا رہا ہے ۔ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں میکڈونلڈائزیشن کا عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ہمارے ہاں پاکستان مین میکڈونلڈائزیشن کی اورمثالیں بھی ہیں مگر ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے مذہب کی میکڈونالڈائزیشن کر دی ہے۔یہ مضمون اسی بارے میں ہے مگر ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی جائے گی کہ میکڈونلڈائزیشن کیا ہے۔
میکڈونلڈائزیشن ،پروفیسر جارج رٹذر کے مطابق، چار چیزوں کا نام ہے:
(۱) کارکردگی (efficiency)
(۲)حساب کتاب (calculability)
(۳)پیش گوئی(predictability)
(۴) اختیار (control)
پروفیسر جارج رٹزرکے مطابق یونیورسٹیاں ، میڈیا، ہسپتال، کھیل اور سپورٹس سے لے کر وال مارٹ اور ایمازن اور ائر بی این بی جیسے بڑے بڑے برانڈ میکڈونلڈائزیشن کے چار اصولوں پر استوار ہیں۔ حتیٰ کہ چرچ اور جنازے بھی اس عمل کا شکار ہیں۔ہمارے ہاں تبلیغی جماعت اسکی ایک علامت ہے۔آئےے اب ذرا ان اصولوں کی تشریح کر کے دیکھتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ دیکھا جائے گا کہ تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل پر یہ تھیوری کس طرح صادق آتی ہے۔
(۱) کارکردگی (efficiency):
ہر کاروباری شخص یا انتظامیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مزدور اور ملازم سے زیادہ سے زیادہ کام لے۔ فیکٹری ہو یا خدمات فراہم کرنے والا ادارہ،سرمایہ داری کی تاریخ اس کوشش سے تعبیر ہے کہ مزدور اور ملازم کو تنخواہ کم سے کم دو اور کام زیادہ سے زیادہ لو۔ سرمایہ داروں اور مالکوں کے اس استحصال کو روکنے کے لئے اور اپنے اوقات کار یا تنخواہ بہتر بنانے کے لئے مزدور جوابی طور پر ٹریڈ یونین بناتے ہیں۔ اس پر ذرا بعد میں بات کریں گے۔ فی الحال ایفیشینسی کی بات جاری رکھتے ہیں۔
لگ بھگ سو سال پہلے ایفیشینسی یا کارکردگی بہتر بنانے کے ٹیلر ازم یا فورڈ ازم کے حربے اپنائے گئے۔ چارلی چپلن کی مشہور فلم ’دی ماڈرن ٹائمز‘ میں ایک سوشلسٹ نقطہ نظر سے چارلی چپلن نے اپنے مخصوص انداز میں ان سرمایہ دارانہ حرکتوں کا مذاق بھی اڑایا ہے اور ان کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ یہ فلم میکڈونلڈائزیشن کو سمجھنے کے لئے ضرور دیکھنی چاہئے(یہ فلم یو ٹیوب پر دستیاب ہے)۔
میکڈونلڈز نے البتہ کارکردگی بہتر بنانے کے اس عمل کو ایک بالکل نئی جہت دیدی ہے۔اس ضمن میں میکڈونلڈائزڈ طریقہ کار تین حربوں پر مشتمل ہے:
اول:سٹریم لائنگ یعنی ایک ہی چھت تلے مختلف چیزیں مہیا کر دو۔ آپ نے تفریح کرنی ہے، بچوں کو خوش کرنا ہے، سستا کھانا (مغربی سیاق و سباق میں،پاکستان میں تو میکڈونلڈ امیروں کی جگہ ہے)کھانا ہے، کافی پینی ہے، گاڑی سے اترے بغیر کھانا خریدنا ہے تا کہ وقت بچ جائے تو میکڈونلڈز کا رخ کریں۔ اس عمل کی تازہ مثال سپر سٹور ہیں۔ جیسا کہ لاہور میں میٹرو سٹور یا الفتح۔ آپ نے دودھ دہی خریدنا ہے یا پھل اور سبزی، فرنیچر لینا ہے ٹائلٹ کا سامان یا برتن اور ریڈی میڈ کپڑے۔ سب ایک چھت تلے ملے گا۔ ورنہ ایک دور تھا دودھ گوالمنڈی سے لاو ۔کاپیاں کتابیں اردو بازار سے ۔ کپڑے انار کلی اور اچھرہ سے۔ یہی صورتحال مالز کی ہے۔پیکجز مال میں چلے جائیں۔ ہر طرح کا آوٹ لیٹ بھی مل جائے گا۔ سینما میں فلم بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جیب میں پیسے ہونے چاہئیں ،بچوں کو بھی کسی فن لینڈ میں خوش کر سکتے ہیں۔
غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ مولانا طارق جمیل نے بھیMTJ کا برانڈ لانچ کر کے مذہب کی سٹریم لائنگ کر دی ہے۔ آپ مولانا کا مرید بن جائیں،جنت بھی ملے گی اور دنیا میں بھی فیشن کا بھرپور موقع ہے حالانکہ باقی سب مولوی حضرات (ماضی میں مولانا طارق جمیل خود بھی)فیشن کو فحاشی سمجھتے ہیں۔ مولانا کا بیان سننا ثواب بھی ہے اور سوشل پورنوگرافی کی ایک شکل بھی۔ یوں ثواب بھی حاصل کریں اور انٹرٹینمنٹ بھی۔ اسی طرح انٹرنیشنل کرکٹ میں جوا کھیلا تھا یا کوئی ویڈیو لیک ہو گئی تھی تو تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر کھوئی ہوئی دنیاوی عزت بھی حاصل کریں اور اگلی دنیا میں بھی کامیابی کا ٹکٹ۔ اور تو اور جس بلاسفینی پر گورنر تاثیر کا قتل ہو گیا، اس کا ارتکاب کرنے کے بعد جنید جمشید کی طرح جان بھی بخشوا لیں۔دنیا اور آخرت دونوں کو سٹریم لائن کر دیا گیا ہے،کم از کم مڈل کلاس اور بورژوازی کے لئے۔
دوم: چیزوں کو سادہ بنا کر پیش کرنا۔ مثال کے طور پر کڑاہی گوشت یا چکن قورمہ کھانا کتنا مشکل ہے۔ چلتے چلتے،بس یا گاڑی میں بیٹھ کر،ڈرائیونگ کرتے ہوئے تو یہ سب کھانا اور بھی مشکل ہوتا مگر میکڈونلڈ نے چکن اور گوشت کو بن (bun)کے اندر لپیٹ کر یہ عمل اتنا آسان بنا دیا کہ آپ چلتے چلتے کھائیں یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے۔ آپ کو دستر خوان یا ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے رہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل دیگر شعبوں میں بھی نظر آئے گا۔ فیس بک نے ہم سب کو سٹیزن جرنلسٹ بنا دیا ہے۔ اب ایم اے جرنلزم کی ضرورت نہیں۔ یوٹیوب پر ہم سب اسٹیفن سپیل برگ ہیں۔ ٹک ٹاک نے لاکھوں کروڑوں شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے پیدا کر دی ہیں۔ گوگل اور ویکیپیڈیا نے اربوں لوگوں کو سکالر بنا دیا ہے۔ پی ایچ ڈی پر وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔
یہی صورت حال تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل کے کاروبار(جی ہاں ،تبلیغی جماعت معاشی لحاظ سے ایک کاروبار ہے) میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے مذہب کو بالکل سادہ بنا دیا ہے۔ آپ کو مدرسے جانے کی ضرورت ہے نہ قرآن پاک حفظ کرنے کی۔ ایم اے اسلامیات چاہئے نہ حدیث اور فقہ کا علم۔ مولانا طارق جمیل خود بھی سند یافتہ عالم نہیں ہیں۔موصوف کا دینی علم بھی چند قصے کہانیوں سے آگے نہیں جاتا۔ میکڈونلڈائزڈ مذہب میں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ تبلیغی جماعت کا رکن بن جائیں۔جس کا دل چاہے دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اسے تبلیغ شروع ہو جائیں۔ تبلیغ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ میں تم سے بہتر مسلمان ہوں،تم بھی میری طرح بن جاو اور یہ کہ میرے پاس دین کا علم تم سے زیادہ ہے اس لئے میری بات سنو۔ حقیقت میں تبلیغی بھائی کے پاس وہ چند قصے کہانیاں بھی نہیں ہوتیں جو مولانا طارق جمیل نے رٹا لگا رکھی ہیں مگر تبلیغی جماعت نے مذہب کو اتنا سادہ بنا دیا ہے جتنا میکڈونلڈ نے گوشت کھانا۔ جیسے میک چکن برگر کھانے کیلئے دستر خوان پر بیٹھنا ضروری نہیں،اسی طرح تبلیغی جماعت کا مبلغ بننے کے لئے سولہ سال یا اٹھارہ سال مدرسے جانا ضروری نہیں۔
سوم: میکڈونلڈ نے گاہک کو مزدور (producer)بنا دیا۔ وہ گاہک (consumer) سے بلا معاوضہ کام لیتا ہے. مثال کے طور پر آپ کاونٹر سے کھانا خود لیتے ہیں۔کوئی بیرا آپ کو سرو (serve)نہیں کرتا۔ کھانا کھانے کے بعد میز خود صاف کرتے ہیں یعنی میکڈونلڈ بیرا اور صفائی مزدور کا کام اپنے گاہکوں سے لے کر اپنا سٹاف کم کرتا ہے اور یوں اپنا منافع بڑھا لیتا ہے۔ آج کل ٹچ مشین اور اے ٹی ایم کارڈ نے کاونٹر پر سٹاف کی ضرورت اور بھی کم ہو گئی ہے۔ اب آپ بیرے اور صفائی مزدور کے علاوہ کیشئیر کا کام بھی خود کرتے ہیں۔ یوں آپ ،بقول پروفیسر جارج رٹزر، کنزیومر نہیں پروزیومر (prosumer) بن گئے ہیں۔ایمازن ،بنکنگ اداروں اور آن لائن کاروبار کرنے والے بہت سے اداروں نے یہی کچھ کیا ہے۔ کریم اور اوبر بھی اس کی ایک مثال ہیں۔
پاکستان کے اندر مذہب کی حد تک تبلیغی جماعت اس عمل میں سب سے آگے ہے۔ لوگ کاروبار، گھر بار،نوکری کی پروا کئے بغیر چالیس چالیس دن تبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں۔ اپنی جیب سے سارا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ ہر وقت لاکھوں تبلیغی اپنی جماعت میں نئے رکن بھرتی کرنے کے لئے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ اس جماعت کا حصہ بنیں گے، اس کا کاروبار (چندہ اور اثر و رسوخ) اور بڑھے گا۔ اس کا برانڈ مضبوط ہو گا۔ اسی طرح، بھلے آپ تبلیغی جماعت کا رکن نہ ہوں صرف ہمدرد ہوں، پہلے آپ اپنا وقت بلا معاوضہ لگا کر مولانا طارق جمیل کا بیان سنیں گے ،پھر واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پر اسے ری پروڈیوس کریں گے۔ میکڈونلڈز تو چلیں آخر میں ایک برگر دے دیتا ہے،تبلیغی جماعت سے آپ کو صرف شراب طہورہ ملتی ہے وہ بھی مرنے کے بعد بشرطیکہ آپ نے نیک عمل کئے تھے ۔
میکڈونلڈائزیشن کا دوسرا پہلو ہے حساب کتاب (calculability)، اب اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
(۲)حساب کتاب (calculability):
میکڈونلڈز کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے پاس حساب کتاب اور ناپ تول بڑا پکا ہے۔ دنیا بھر میں، سو سے زائد ملکوں میں چالیس ہزار سے زائد میکڈونلڈز آوٹ لیٹ ہیں۔ 3
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...