::: " معذوری کا ادبی تنقیدی نظریہ اور مطالعات " { ادبی تنقیدی نظریے کی نئی کروٹ} " :::
دنیا ادبی تنقید کے نظریات میں نئے نئے رنگوں اور مباحث کا اس تیزی سے اضافہ ہوتا ہے جن سے اردو کا ادبی تنقیدی فکری آفاق آگاہ نہیں ہوتا۔ پچھلے ہفتے میرے شہر کے کمیونٹی کالج میں مجھے اس نظرئیے پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ عموما یہ ادبی نشست " جدید تر ادبی تنقیدی نظریات کو متعارف کروانے اور اس پر تازہ ، طبعزاد اور بے لاگ فکری مکالمہ اور محاکمہ کرنا ہوتا ہے۔ میرے لیے بھی یہ موضوع قدرے نیا تھا اس پر اس خاکسار نے کوئی بیس پچس منٹ بات کی۔ اس خلاصہ یا تجرید کچھ یوں تھی۔ اس نئے ادبی تنقید کے نظرئیے کا نام " معذوری کا مطالعہ " {Critical Disability Studies } تھا۔ یہ نظریہ اصل میں سیاسی ، جمالیاتی، جمالیاتی، اخلاقی، ، تمدنی و تہذیبی، نفسیاتی، عمرانیاتی اور بشریاتی افتراقات کے فکری تصادم کا تجزیہ، تشریح و تفھیم کا ایک ماڈل بھی وضع کرتی ہے۔ اور مذکورہ علوم کی ایک بےمعنی " انائیت" کے سبب جو فکری ڈراڈین پڑ گئی ہیں اس کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس نظرئیے کا یہ خیال ہے کہ ان کی فکری رسائیوں کی فکری کشمکش اور تعارض میں یہ تمام فکری شعبے شدید لولہاں ہوکر فکری اور نظریاتی " معذوری " کا شکار ہوگئے ہیں۔ ۔ اس نطرئیے کے تحت ادب کے تنقیدی رسائیوں میں، بہت سے ناقدین کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اس نے فکری ،علمی استعداد، مناجیات کا فقدان اور ان کی کھوکھلی اور بازار کاری کے عنصر کو نہایت باریکی اور دانش کے ساتھ مطالعہ اور نشاندھی کی۔ جو عماما نظروں سے اوجھل ھوتی ہیں۔ وہ معذوریت کی نمائندگی تو کرتی ہیں جو دیگر فکری مباحث اور نظریات کی لاشوں کو خاموشی سے دفنا کر پوری فکری تاریخ کو تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ اور تارریخی اور ثقافتی تحدیدات کو اپنی مردہ سازشی ایجنڈے کے تحت سکہ بند ائیڈیالوجی اور موضوعی رسائی کے تحت اپنے" انا کے بحران" کی تسکن کرتا ہے۔ ادب کے " معذوری" تنقیدی نظریئے میں ان معتصب رویوّں کو تجزیہ اور تقابل کرنے کے بعد اس کی تحقیقات اور وضاحت بھی کرتا ، اور یہ روایات کے طریقوں کی معقولیت سے متعلق ہوتے ہیں ۔
معذوری کے اس نظرئیے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ کسی کی شناخت کے مختلف سمتوں کو مختلف حصوں یا تختوں میں تقسیم کرکے۔ ایک نامیاتی " کل" کے اجزاا کی طرح ، طبقات، ، جنس، جنسیت اور قومیت کے حساس رویوں اور نظریات تو تشویش کے ساتھ ایک " معذوریت" کے ساتھ ایک " جو بدنامی" کے عمل سے گذر رہا ہوتا ہے اس کو فطانت سے پرکھا جاتا ہے۔معذوریت کا مطالعہ دیگر اہم مکتبہ فکر جیسے صنفی مطالعہ، لکیر مطالعہ، نسائیت، اہم نسل کی تعلیم، بھی اس کو زیادہ متاثر کرتی ہیں. حقیقت میں، ماضی میں بہت سے نسل، طبقات، نسلی، اور شناخت کے دوسرے حصے کو معتبر طور پر یا "معزز معذوروں" سے تقسیم کیا گیا ہے جو اس بات پر پر زور دیتے ہیں کہ کیا نسائی اور اثر پذیر اور حاوی ہونے والے نظریاتی کو روزمری گارلینڈ تھامس { Rosemari Garland-Thomson} نے معذوری کی رجحان کو اس طور پر بیان کیا ہے جو سب کے لئے synecdoche کی اس مخصوص ثقافت کو تشکیل دیتی ہے جواس کو غیر معمولی بھی تصور کرتا ہے "۔ جس میں مختلف طور پر، دال/ معنی نما یا اشارہ کنندہ اکثر "معمولی" دنیا سے باہر چیزوں کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ ایک اہم ادبی تنقیدی میدان بھی تشکیل پاتا ہے جو ادبی تنقید کا تجزیہ ، تقابل ، ان کے تعصبّات کی تحقیقات کرتا ہے۔ اس تنقیدی نظرئیے نے ادبی تنقیدی بیانیے کو چیلنج بھی کیا ہے۔ جس میں علامتوں ، علاَئم اور رموزیات کی " معذوریت" کا ابلاغ کرتی ہے۔ یہ نظریہ 1990 میں دبے پاوں ادب کی تنقیدی نظری آفاق میں داخل ہوا تھا یہ نظریہ خاصا دقیق اور پیچدہ ہے اس پر اب بھی مغرب میں زرا کم ہی بات کے جاتی ہے۔ مگر اس پر کچھ محقق اور ادبی ناقدین اور
دانشور کام کررہے ہیں :
راقم الحروف نے بھی " معذاریت کے ادبی تنقیدی نظرئیے کا مطالعہ" شروع کررکھا ہے ۔ ابھی تک یہ تحریریں
میرے مطالعوں میں شامل ہوچکی ہیں:
Bérubé, Michael. “Disability and Narrative.” PMLA, vol. 120, no. 2, Mar. 2005, pp. 568-76.
Davis, Lennard. “Constructing Normalcy: The Bell Curve, the Novel, and the Invention of the Disabled Body in the Nineteenth Century.” The Disability Studies Reader, 2nd ed., edited by Lennard Davis, Routledge, 2006, pp. 3-16.
Garland-Thomson, Rosemarie. “Integrating Disability, Transforming Feminist Theory.” The Disability Studies Reader, 2nd ed., edited by Lennard Davis, Routledge, 2006, pp. 257-73.
Mitchell, David and Sharon Snyder. Narrative Prosthesis: Disability and the Dependencies of Discourse. U of Michigan P, 2000.
Shakespeare, Tom. “The Social Model of Disability.” The Disability Studies Reader, 2nd ed., edited by Lennard Davis, Routledge, 2006, pp. 197-204
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔