3 دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر
اللہ تعالی نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس کائنات میں ایک ذرے سے لے کر،پودے پتے،جھاڑ جھنکار اور ریت کے ذروں سے لے کر پہاڑ،چٹانیں،غاریں اور دریا اور سمندر تک بے شمار مخلوقات ہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ان دریاؤں اور سمندروں کے اندر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں،اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جوپہاڑوں کے درمیان وادیوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں اور پتھروں کے اندر اور درختوں کی جڑوں سے چمٹے ہوئے اس دنیا میں موجود ہیں اور نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس طرح کی مخلوقات جو ہنوزانسانی مشاہدے میں نہیں آسکیں اللہ تعالی کی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں۔لیکن یہ سب قطعاََ بھی بے مقصد نہیں،اتفاقََانہیں اور نہ ہی الل ٹپ ہیں بلکہ اللہ تعالی نے یہ سب ایک نظام کے تحت،ایک منصوبے کے مطابق اور ایک منزل کے تعین کے ساتھ اوربامقصد تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں واضع کیاہے کہ ”الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۳:۱۹۱)“ترجمہ:”جواٹھتے بیٹھتے اورلیٹے ہرحال میں اللہ تعالی کو یادکرتے ہیں اورزمین وآسمان کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں (وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں)پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا،توپاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے،پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے“۔اسی طرح کی اور آیت میں یوواردہوا کہ”وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۲:۶۱)“ترجمہ:”اورہم نے اس آسمان اورزمین کو اورجوکچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر(بے مقصد)نہیں بنایاہے“۔ان ساری مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق حضرت انسان ہے جسے اللہ تعالی نے خود اشرف المخلوقات کہا ہے،اور اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے اور اپنی مقرب ترین مخلوق ”ملائکہ“سے اس انسان کو سجدہ کروایا ہے اور اس سجدے سے انکار کرنے والے کو راندہ درگاہ کیا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۱:۰۷)“ترجمہ:”یہ توہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کوعزت اوربزرگی دی اورانہیں خشکی و تری میں سواریاں عطاکیں اوران کوپاکیزہ چیزوں سے رزق دیااوراپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی“۔گویا اب جو بھی حضرت آدم علیہ السلام کے قبیلے میں اورانکی نسل میں پیدا ہو گا وہ اللہ تعالی کے ہاں سے پیدائشی طور پر عزت والا بن کر آئے گا۔یہ انسان کے لیے بہت بڑا اعزازہے کہ اسے خالق کائنات نے اپنے ہاں سے عزت والا بنا کر بھیجا ہے۔
اسی انسان کے ہاں ایسے بچے بھی جنم لیتے ہیں جو بعض اوقات جسمانی یا ذہنی طور پر معذورہوتے ہیں،لیکن حضرت آدم کی نسل سے ہونے کے باعث وہ اللہ تعالی کے ہاں سے حق عزت ساتھ لے کر آئے ہیں اور انسانی معاشرے میں معزز و محترم ہیں کہ اس معاشرے کے خالق نے انہیں یہ حق عطاکیا ہے اور کوئی قانون،کوئی تہذیب،کوئی معاشرت،یا رویہ ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔عربی زبان میں ”نفس“اسکو بھی کہتے ہیں جو سانس لے، چنانچہ قانون اسلام کے ماہرین،فقہائے کرام انسان کو اس وقت سے ”نفس“سمجھتے ہیں جب سے وہ ماں کے پیٹ میں سانس لینا شروع کر دیتاہے اور قرآن نے ”نفس“کے قتل کوناجائز قرار دیا ہے۔گویا اگر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی معذوری کی اطلاع ہو جائے تو بھی اسکا قتل ناجائز ہے معذوربچے قدرت نے بے مقصد پیدا نہیں کیے ہیں،انکی پیدائش کا کیا مقصد ہے؟یہ انسانی دماغ کا امتحان ہے کہ وہ ان بچوں کا بغور مشاہدہ کرے اور ان میں وہ جوہر قابل تلاش کرے جو قدرت نے ان میں چھپا رکھا ہے۔قدرت کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے کہ”مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلَ لَدَیَّ وَ مَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(۰۵:۹۲)“ترجمہ:”میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں“۔قدرت اگر کسی کوایک چیز سے محروم کرتی ہے تو اسکا بہترین نعم البدل بھی عطا کرتی ہے،چنانچہ عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ معذورافراد بعض اوقات بہت بلا کے حافظے کے مالک ہوتے ہیں،خاص طور پرنابینا افراد میں سے بعض کا حافظہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ دس سال بعد بھی صرف ہاتھ ملانے سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں کب ملے تھے وغیرہ۔اسی طرح ہاتھوں سے معذور افراد بعض اوقات پاؤں سے اسطرح کے کام کر لیتے ہیں اچھابھلاآدمی بھی ایسا نہ کر سکے۔
اس سب کے باوجود معذور افراد کو:
1۔حتی الامکان اعتماد نفسی دینا چاہیے اور ان میں سے اس احساس کو کم سے کم کرنا چاہیے کہ وہ معذور ہیں۔
2۔ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے کہ جیسے وہ صحیح الاعضا والحواس ہیں۔
3۔ان کے کسی بھی کام میں معاونت سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ان میں کسی قسم کا احساس کمتری پیدا نہ ہو،سوائے مجبوری کے۔
4۔ان کی معاشرتی تربیت معاشرتی ومذہبی اقدار کے بالکل عین مطابق ہو تاکہ ان میں ذہنی بالیدگی وقوع پزیر ہو سکے اور مسلسل ارتقا پزیر رہے۔
5۔معذور افراد کی اپنی مخصوص نفسیات ہوتی ہے،انکے قریبی رشتہ داروں کو اس نفسیات سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس کے مطابق ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔
6۔معذور افراد جس بات سے خوش ہوتے ہوں،جس کھانے کو پسند کرتے ہوں،جس ماحول میں آسودگی محسوس کرتے ہوں اورجن افراد سے مطمئن رہتے ہوں،غیرمحسوس طور پر انہیں ان کے مزاج کے موافق ماحول فراہم کیاجاناچاہیے۔
7۔ناپسندیدگی اور چڑ جانے کارویہ اور بہت جلد غصہ اور بعض اوقات قابو سے باہر ہوجانا مخصوص افراد کی نفسیات ایک کمزور پہلو ہوتا ہے،اکثر لوگ مزے لینے کے لیے معذور افرادکو تنگ کرتے ہیں جس سے یہ افراداپنے ان منفی رویوں میں مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخریہ رویے اان معذورافراد کی پہچان بن جاتے ہیں۔اس طرح مخصوص افراد کو گویا انکی محرومیوں میں اندر تک مزیددھکیل دیا جاتا ہے،جس سے اصلاح احوال کی منزل کی بجائے بگاڑکا گڑھاقریب آلگتاہے۔
8۔علم نفسیات نے معذورافراد کو بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے دریافت کیے ہیں،یہ طریقے سالہا سال کی طویل مشق کے بعد اور کئی کئی مخصوص افراد پر تجربوں کے بعد دریافت کیے گئے ہیں،ان طریقوں کا استعمال بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔
9۔فن طب میں بہت ساری دوائیاں بھی ان مقاصد کے لیے تیار کر رکھی ہیں،جو معذورافراد کو عام حالات میں یا کسی خاص حالات میں دینے سے انکوافاقہ ہوتا ہے۔
10۔بعض مخصوص افرادبس گوشت کا ایک لوتھ ہی ہوتے ہیں جو بہت بڑے ہو جانے کے باوجود بھی اپنی ضروریات تک سے آگاہ نہیں ہوپاتے،یہ اگرچہ معاشرے پر ایک مستقل بوجھ ہیں اور والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتے ہیں لیکن نہ جانے جس گھر میں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں سے کون کون سی آفتیں محض انہی کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن ان جانے اسباب سے محض انہی کی خاطرگھر والوں کے لیے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اللہ تعالی کے ہاں مایوسی کو کفر سے ملایا گیا ہے پس کبھی اور کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے،اور پھر کیا سب معاملات اسی دنیا میں ختم ہوجانے ہیں؟؟نہ معلوم ایک معذور بچے کی پرورش کے عوض اللہ تعالی کے ہاں کتنا ہی ڈھیرسارااجر لکھاجائے۔
یہ کام اگرچہ محنت طلب اور طویل دورانیے پر مبنی ہے،اور یقیناََ کامیابی کے امکانات بھی بعض اوقات بہت روشن نہیں ہوتے لیکن اس کے علاوہ اسکا حل ہی کیا ہے؟وہ بچہ جیسا کیسا بھی ہے بہرحال انسان کا بچہ ہے،ایک جانور بھی اپنے بچے کا کس قدر خیال کرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ایسے اسباق پڑھائیں جو زبانی یاد رکھے جانے کے قابل ہوں،انہیں ایسا کام سکھلا دیں کہ وہ کم از کم معاشی طور پر کسی کے کے محتاج نہ ہوں اورسب سے بڑی بات یہ کہ انکے ذہن میں مسلمان ہونے کا تصور ضرور ڈالیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے مخصوص افراد کے مشاہیر مقرر کرے جو انکی نگہداشت کرنے والوں کو ادا کیے جائیں تاکہ سرپرست افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔حکومت ایسے ادارے بھی بنائے جہاں ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے یا زیادہ دیر کے لیے رکھاجاسکے تاکہ انکے ذمہ داران اپنی دیگر ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر سکیں اور جن بچوں میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے حکومت ان کے لیے تعلیمی ادارے بھی قائم کرے تاکہ انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔اور سرکاری سرپرستی میں تحقیق کےدروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں معذور بچوں کی پیدائش کو کم سے کم کیاجاسکے اور عوام میں ان تحقیقی نتائج کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جائے۔
اللہ تعالی نے جس طرح سلامت الاعضا والحواس انسانوں کو اپنی کتاب میں احکامات کے ذریعے براہ راست مخاطب کیاہے اسی اسلوب میں معذورافرادکو بھی قرآن مجیدنے براہ راست مخاطب کیاہے۔حضرت سعید بن مسیب ؒفرماتے ہیں کہ مدنی زندگی میں مسلمان جب بھی جہادکے لیے جاتے تواپنے گھروں کی چابیاں معذورافرادکو دے جاتے تاکہ وہ جب چاہیں دروازے کھول کر جوچاہیں کھا پی لیاکریں۔لیکن معذورافرادکو ہچکچاہٹ تھی یاشاید وہ اسے مناسب نہ سمجھتے ہوں،تب اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں:” لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ(۴۲:۱۶)“ترجمہ:”کوئی حرج نہیں اگرکوئی نابینایالنگڑایامریض تمہارے (یاکسی کے) گھرسے کھالے“۔سیرت النبی ﷺمیں معذورافراد کے لیے خصوصی رعایات کا تفصیلی ذکرملتاہے۔ایک غریب اور نابیناصحابی حضرت ابن ام مکتوم ؓ تھے،یہ آپﷺ کو بہت محبوب تھے۔پہلے یہ اصحاب صفہ کے درمیان رہتے تھے پھرانہیں ”دارالغذا“میں ٹہرادیاگیا۔جب حضرت بلال نہیں ہوتے تھے تویہ مسجدنبوی میں آذان دیاکرتے تھے خاص طورپر رمضان کے مہینے میں جب حضرت بلال سحری شروع کرنے کی پہلی آذان دے کرلوگوں کو بیدارکرنے کے لیے گلیوں کاچکرلگاتے تھے تب فجر کی آذان یہی نابیناصحابی ہی دیاکرتے تھے اورلوگ ان کی آذان سن کر کھانا پینا بندکردیتے تھے۔کئی مواقع پر جب آپﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تویہی نابیناصحابی مصلی نبوی پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی نمازمیں امامت کرتے تھے کیونکہ آپﷺ نے انہیں کام پر مامور کررکھاتھا۔ایک بارآپﷺمسلمانوں کے مجمعے سے مخاطب تھے کہ ایک نیم پاگل بوڑھی عورت نے باہرسے آپﷺ کو آواز دی،لوگوں نے عرض بھی کیاکہ یہ ذہنی معذوربڑھیاہے لیکن آپ ﷺکمال شفقت و مہربانی سے اس کے ساتھ چل دیے،وہ آپﷺ کو گلیوں میں گھماتی رہی اورآپ ﷺ گھومتے رہے،وہ کہتی یہاں بیٹھ جائیں آپ وہیں تشریف رکھتے،وہ اپنی لمبی لمبی کہانیاں آپﷺ کو سناتی رہی اورآپ پورے انہماک اوردلجمعی سے سنتے رہے۔حضرت عیسی علیہ لسلام کے معجزات تو معذورافرادسے ہی متعلق ہیں،نابیناکوبیناکردینا،کوڑھ کے مریض کو شفایاب کردیناوغیرہ۔حضرت عمرنے معذوراوربزرگ افرادکے لیے وظائف کااعلان کررکھاتھااور جو معذوریابزرگ غیرمسلم ہوتے انہیں جزیہ بھی معاف کردیاجاتاتھا۔
ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی طرف حکومت،مخیرحضرات اور غیرسرکاری تنظیموں کی توجہ کی اشدضرورت ہے کہ وطن عزیزمیں بعض مقامات پر پورے کے پورے قبائل ہیں جو کئی نسلوں سے کسی خاص معذوری کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن غربت اور جہالت کے باعث وہ اسکے اسباب اوربچنے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ان کا کھوج لگانا،ان پر طبی تحقیق کرنا،مستندنتائج حاصل کرنا اور پھر ان میں جو حکومت اور معاشرے کے کرنے کے کام ہیں وہ انکے ذمے لگانا اور جو متاثرہ خاندانوں کے کرنے کے کام ہیں اس سے انکو آگاہ کرنا ایک قابل قدر انسانی خدمت ہوگی اورآنے والی نسلوں کی حفاظت کی ضامن ہو گی۔والدین اور معاشرہ ایسے افراد کی پرورش اور نگہداشت کے ذمہ دار ہیں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے وہاں ریاست بھی اپنے فرائض سرانجام دے گی لیکن ریاست اس معاملے صرف مالی و تکنیکی معاونت ہی فراہم کرسکتی ہے جبکہ اول و آخر ان افراد کی نگہداشت معاشرے اور والدین کو ہی سرانجام دینی ہے۔
سیکولرازم اورلبرل ازم نے گزشتہ کم و بیش تین سوسالوں سے قبیلہ بنی نوع آدم کی گردنوں پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اس تمام عرصے میں بے پناہ جنگیں،انقلابات،ریاستی کھنچاؤ اور غربت و جہالت نے جس طرح ننگاناچ ناچا ہے اس سے معذورافرادکی ایک نئی قسم نے جنم لیاہے جو کہ ”نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ذہنی مفلوج“طبقہ ہے۔اب یہ طبقہ پوری دنیامیں پایاجاتاہے جنہیں اپناوطن،اپنی زبان،اپنی تہذیب و ثقافت اورمذہب کی بجائے دورکے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔خاص طورپر دوسری جنگ عظیم کے بعد سردجنگ کے زمانے نے اس معذوری میں مزیداضافہ کردیاہے۔یاسیت زدہ اس ذہنی معذورطبقہ کوان کے مغربی آقاؤں نے روشن خیال،ترقی پسند، جدت پسند اورآزادخیال جیسے نام دیے ہیں۔ لیکن ان کی فکر،ان کی سوچ،ان کی ذہنی بالیدگی اور ان کی خیال آرائیاں سب کچھ مغربی سیکولرتہذیب کے سامنے ہتھیارڈال کراب محتاج محض ہوکر معذورومفلوج ہو چکے ہیں۔انہیں اپنی قوم میں دنیاجہان کی برائیاں،خامیاں،کمزوریاں اورناہمواریاں نظرآتی ہیں اور چڑھتے سورج کے ان پجاریوں کو مغرب میں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔یہ ذہنی معذورطبقہ اب غلامی کی آخری باقایات کے طورپر موجودہے۔جیسے جیسے تعلیمات وحی قلوب انسانی میں جگہ پیداکر کے شعورومعرفت کی منزلیں سرکرتی چلی جارہی ہیں ویسے ہی یہ طبقہ اپنی موت آپ مرتاچلاجارہاہے اور بہت جلد ان ذہنی معذوروں سے نجات کے بعد آزادی کے دن قریب آ لگے ہیں،ان شااللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...