عوام کے دلوں سے خدا کا خوف نکل چکا ہے۔ مظلوموں کی آہ آسمانوں کا سینہ چیر کر سیدھا اُوپر جا رہی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا شعر ایک زمانے میں زبان زد خاص و عام تھا‘ آج پھر اُس کا ورد کرنا چاہیے ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
ڈاکٹر عاصم مظلوم ہیں۔ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ وہ فریاد کناں ہیں کہ غصہ کسی اور پر ہے‘ نکل اُن پر رہا ہے۔ اُنہی کے ہسپتال میں انہیں اس طرح لے جایا گیا کہ ہاتھ لوہے سے بندھے تھے۔ کبھی کہا جاتا ہے‘ اتنے کروڑ روزانہ کے حساب سے لیتے رہے‘ کبھی الزام لگایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا علاج معالجہ کراتے رہے۔ حالانکہ وہ بے قصور ہیں‘ معصوم ہیں!
آصف علی زرداری مظلوم ہیں۔ آہ! وطن سے دُور‘ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ اپنی سرزمین کی مٹی کو ترس گئے ہیں! غریب الوطنی صحت کو گھُن کی طرح کھا رہی ہے۔ روکھی سوکھی جو ملے زہر مار کرنا پڑتی ہے۔ یا رب کوئی جہاں میں اسیِر محسن نہ ہو! اُن کے احوال کا سُن کر کلیجہ مُنہ کو آتا ہے مگر افسوس! سوائے صبر کے چارہ نہیں!
قائم علی شاہ مظلوم ہیں۔ خوش قسمت لوگ ضُعف اور پیری کے عالم میں آرام کرتے ہیں‘ اولاد سے خدمت کراتے ہیں مگر شاہ صاحب کو اِس عمر میں طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے سرکاری اجلاس میں اُس نے اُن کے خراّٹے خود سنے ہیں۔ کوئی طنز کرتا ہے کہ سانس لینے سے پہلے اجازت لیتے ہیں۔ کوئی نشتر چلاتا ہے کہ وظیفہ پڑھتے وقت کہتے ہیں ’’مُنہ طرف دبئی کے‘‘! کوئی کہتا ہے صوبے میں اہمیت کے لحاظ سے ان کا ساتواں نمبر ہے۔ کبھی بلاول کے ہاں حاضری دیتے ہیں تو کبھی صاحب کے (سوتیلے یا مُنہ بولے) بھائی کے ہاں! تھر کے قحط کا معائنہ کرنے گئے تو گاڑیوں کا جلوس لے کر کیا گئے کہ طعن و تشنیع کے انبار لگ گئے۔ اِس عمر میں قوم کی دن رات خدمت کر رہے ہیں اور اِس جذبے کے ساتھ کہ دل ان کا چاہتا ہے خدمت کرتے ہی رہیں۔ مگر مظلومیت کی انتہا کہ آفرین کہنے کے بجائے ظالم عوام کُچھ اور ہی کہتے پھرتے ہیں!
الطاف حسین مظلوم ہیں! ہائے افسوس! صد افسوس! بیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا دیارِ غیر کی سختیاں سہہ رہے ہیں! وطن سے سات سمندر دُور‘ بھائی بہن‘ عزیز و اقارب کے ہجر میں مرغِ بسمل کی طرح روز و شب تڑپتے ہیں‘ مگر برطانوی حکومت جانے کی اجازت دیتی ہے نہ پاکستانی حکومت آنے کی! اور یہ دونوں کانٹے نکل جائیں تو ظالم عوام فرمائش کر دیتے ہیں کہ وہیں رہیے! اس پر مستزاد یہ کہ بیروزگار ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم جُوں تُوں کر کے قائم رکھے جا رہے ہیں‘ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اُن کی حالت اُس خاندانی شریف کی طرح ہے جو اچکن پہن کر گھر سے نکلتا تھا‘ مگر تنگدستی کی وجہ سے اچکن کے نیچے کُچھ نہیں ہوتا تھا! اِن ساری مصیبتوں کے باوجود ہر وقت قوم کا غم کرتے ہیں!
حمزہ شہباز شریف مظلوم ہیں۔ پرسوں تو ان کی آنکھیں ماضی کو یاد کر کے چھلک چھلک گئیں۔ دادا جان کی چارپائی کو اُن کے علاوہ کندھا دینے والا کوئی نہ تھا! اچھے زمانوں میں جلا وطنی کے لیے حکومتیں کالا پانی چنتی تھیں‘ یا آسٹریلیا کا غیر آباد جزیرہ! اب ظلم کی انتہا دیکھیے کہ جدہ بھیجتے ہیں‘ جہاں لق و دق صحرا ہے اور باقر خانیاں بنانے والا خاص باورچی ساتھ نہ لے جایا جائے تو بیچارے جلاوطنوں کا بُھوک کے مارے جانے کیا حال ہو! حمزہ شہباز جوانی کے دن رات قوم پر لٹا رہے ہیں۔ رکن وفاقی پارلیمنٹ کے ہیں‘ اس کے باوجود اپنی جان کو ہلکان کرتے ہوئے صوبے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ پارٹی بھی چلا رہے ہیں‘ انتخابات کی مشینری کو بھی گریس دیتے ہیں۔ مگر خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے لوگ نکتہ چینی کرتے ہیں!
مولانا فضل الرحمن مظلوم ہیں! پکار پکار کر قوم کو متنبہ کر رہے ہیں کہ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے‘ مگر قوم ہے کہ کانوں میں روئی ڈالے ہوئے ہے! مدارس کا پارلیمنٹ میں دفاع کرتے ہیں اور مدارس شکریہ تک نہیں ادا کرتے! جب بھی قوم کی کشتی بھنور میں پھنستی ہے‘ مولانا صاحب اُسے خون آشام لہروں کے مُنہ سے نکال کر ساحل پر لاتے ہیں۔ مشرف کا زمانہ ہو یا بے نظیر کا‘ زرداری کا ہو یا میاں صاحب کا‘ وہ اپنی خدمات ہمیشہ پیش کرتے ہیں۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود کشمیر کمیٹی کو وقت دیتے ہیں۔ حکومتوں کے بے حد اصرار پر مجبوراً پروٹوکول قبول کرتے ہیں! اِس وقت مُلک میں اگر امن و امان ہے اور آٹا چاول نظر آ رہے ہیں تو مولانا کی جماعت کا بے لوث کردار اس کامیابی کی پشت پر ہے۔ مگر افسوس! طوطا چشم عوام اُن کو عجیب عجیب القاب و خطابات سے یاد کرتی ہے!
میاں شہباز شریف مظلوم ہیں! بغیر تنخواہ کے وزارت خارجہ کی بیگار کاٹ رہے ہیں۔ ایک ٹانگ چین ہے تو دوسری ترکی! کبھی برطانیہ کے لیے پا بہ رکاب ہیں تو کبھی شرق اوسط کا رُخ کیے ہوئے ہیں! صوبے کی فکر الگ ہے۔ فرزند ارجمند کی صلاحیتیں صوبے کو سونپ دیں! بارہ بارہ اٹھارہ اٹھارہ وزارتیں خود چلاتے ہیں۔ ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے! مگر عوام ہیں کہ خوش نہیں ہوتے۔ سڑکوں کے جال بچھا دیے‘ مگر نا شکر گزار قوم ہسپتال کا ذکر لے بیٹھی ہے جہاں مریض برآمدوں میں پڑے ہیں اور قینچی‘ روئی اور آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی نایاب ہیں! لیکن اُن سرکاری سکولوں کا قصہ لے بیٹھتی ہے‘ جن کی چھتیں ہیں نہ دیواریں۔ اساتذہ ہیں نہ پینے کا پانی! کہیں تھانہ کلچر کے نہ بدلنے کا شکوہ کرنے لگتی ہے۔ حالانکہ شاہی خاندان نے اسٹامپ پیپر پر یہ لکھ کر ہرگز نہیں دیا کہ تین عشروں میں‘ محض تین عشروں میں‘ سکول ہسپتال اور تھانے جدید عہد میں داخل ہو جائیں گے!
ان مظلوموں کا موازنہ اگر عوام سے کریں تو صورت حال ایسی سامنے آتی ہے کہ دل بھر آتا ہے۔ المیہ زیادہ گمبھیر یوں ہو جاتا ہے کہ عوام کو ذرہ بھر ان مظلوموں کا احساس نہیں! حقیقت یہ ہے کہ عوام مظالم سے واقف تک نہیں! انہیں معلوم ہی نہیں کہ دبئی میں زندگی گزارنا کتنا جانکاہ اور کٹھن کام ہے! عوام کو جلاوطنی کے جیم کا بھی علم نہیں! جدہ کے محلات میں‘ لندن کے اپارٹمنٹوں میں اور دبئی کے ایوانوں میں زندگی گزارتے تو ان ظالم عوام کے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ جتنی دولت ڈاکٹر عاصم نے اکٹھی کی ہے‘ عوام اکٹھی کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ دولت حاصل کرنا آسان ہے مگر اُسے محفوظ رکھنے کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں‘ ہتھکڑیاں‘ جیلیں‘ عدالتوں میں پیشیاں‘ میڈیا بدنامی‘ ان میں سے عوام نے تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ جتنی کربناک زندگی حمزہ شہباز گزار رہے ہیں‘ عوام کے فرشتوں کو بھی اس کی خبر نہیں ایک جہاز سے اترنا‘ دوسرے پر سوار ہونا‘ میلوں لمبے پروٹوکول کے جلو میں چلنا‘ ماتحتوں‘ ملازموں اور وابستگان کے ہجوم میں رہنا‘ بیک قلم لوگوں کی تقدیریں بگاڑنا یا سنوارنا‘ یہ سب کتنا اذیت ناک ہے۔ عوام کو اِس انوکھی دنیا کے مصائب کا کوئی اندازہ ہی نہیں!
یہ مُلک اگر اب تک سلامت ہے تو اِن مظلوموں کی آہوں‘ کراہوں اور دعائوں کی بدولت! ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں! کاش وہ دن بھی آئے کہ ظالم عوام کیفر کردار کو پہنچیں‘ اور مظلوموں کا یہ گروہ مصائب کے چنگل سے رہائی پائے۔ اُمید کا دیا دُور‘ بہت دُور‘ ٹمٹا رہا ہے! ایک نہ ایک دن اِن مظلوموں کی ضرور سُنی جائے گی! احمد ندیم قاسمی نے انہی کے لیے کہا تھا ؎
خراشیں دل کی امڈیں گی ندیم اک موجِ خوں بن کر
یہی پگڈنڈیاں مل جل کے بن جائیں گی شہراہیں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔