دانش مند لوگ کہتے ہیں کہ ”علم اور تعصب اکٹھے نہیں ہو سکتے“ اپنے مفادات کے لیے، نسلی گروھی مذہبی معاشی دباؤ کے تحت، حقیقت چھپانا تعصب ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے ”سرکاری تاریخ دان“ ہیں۔ اپنے کالم میں رنجیت سنگھ کے حرم اور ان سے منسوب مضحکہ خیز قصوں کو جناب نے مزے لے لے کے بیان فر مایا بلکہ آج کے حکمرانوں سے رنجیت سنگھ کا موازنہ کیا۔ یہ سخت نا انصافی ہے۔ تاریخ چیخ چیخ کر اس کا ابطال کر تی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب، کشمیر رنجیت سنگھ نے فتح کر کے پنجاب میں شامل کیا۔ پھر شمال کی جانب وہ کام کیا جو آج ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہے یعنی ہمارے ظالمان طالبان، یہ وہ زمانہ تھا کہ پنجاب نے ایسا وقت نہ دیکھا تھا۔ ہمیشہ کے لیے اس نے پشاور کو پنجاب کا حصہ بنایا بعد میں انگریزوں نے اس کو ڈیورنڈ لائن سے بدلا اور یوں پنجاب یعنی آج کے پورے پاکستان اور ہندوستان کو ان حملوں سے محفوظ کیا۔
مستند ترین حوالہ جات کے مطابق ان دنوں لاہور میں ہر خاص و عام کی زبان پر تھا
حکومت نواب عبداللہ
نہ رہے چکی تے نہ رہے چولہا۔
سچ پوچھیں تو اس پورے خطے پر، اٹھارویں صدی مشکلات اور نقصانات کی صدی تھی۔ اس میں نادر شاہ کی خونیں یلغار، احمد شاہ ابدالی کے نو حملے، پھر مرہٹوں کی چڑھائی، جاٹ قوم کی لوٹ مار اور سکھا گردی نے پنجاب کے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔ حساس و درد مند بلھے شاہ لکھتے ہیں۔
جدوں اپنی اپنی پے گئی
دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی
منہ بارہویں صدی پساریا
سانوں آ مل سجن پیاریا۔
یا فرما تے ہیں۔
در کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہو یا پنجاب دا
ڈر ہاوئیے دوزخ ساڑیا۔
سانوں آ مل سجن پیاریا۔
پنجاب کے زرخیز و سرسبز میدان اس کا جرم بن گئے۔ ظالمان خود تو کھیتی باڑی کرنا جانتے نہ تھے سو آئے دن کوئی نہ علاقائی بدمعاش پنجاب کو روندنے آ جاتا۔ کبھی احمد شاہ مالیہ وصول کرنے تو کبھی کوئی سکھ لٹیرا کسی مثل کا سردار راکھی یا بسنت کے نام پہ جگا وصول کرنے۔ مرہٹے چوتھ لینے آ پہنچتے یعنی کیا افراتفری ہوگی کہ چکی اور چولہا کسی بھی گرہستی کا بنیادی رکن تک لے جاتے اور لوگ آہ بھر کر کہتے
کھادا پیتا لاہے دا۔ باقی احمد شاہے دا۔
۔ اسی احمد شاہے نے مغلانی بیگم نامی خاتون کو لاہور کا حاکم بنائے رکھا۔ محترمہ موصوف کی داشتہ تھیں اور جملہ امور خفی و جلی کی ما ہر سمجھی جاتی تھیں۔ اس وقت پنجاب سکھوں کی بارہ مثلوں یعنی گروہوں میں تقسیم تھا۔ یہ اتنے طاقتور تھے کہ پنجاب کے پانچ دو آبوں میں سے چار ان کے تسلط میں آ گئے تھے۔ طاقتور زمینداروں نے اپنے اپنے فوجی دستے بنا کر خودمختاری کا اعلان کر رکھا تھا۔ سندھ ساگر دو آب میں گکھڑ اور ٹوانے، چج دو آب میں وڑائچ، رچنا میں چیمے چٹھے اور باجوے، بٹالہ میں رندھاوے، قصور میں افغان، کپورتھلہ میں راجپوت جالندھر دو آب میں بھی افغان، جھنگ میں سیال اور ساہیوال میں بلوچ خود مختار بن گئے۔
ٹکڑوں میں بٹے، اس زمانے کے پنجاب کو رنجیت سنگھ نے انتہائی دانشمندی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ متحد کیا۔ آئیے طائرانہ جائزہ لیں کہ رنجیت سنگھ کون تھا؟
رنجیت سنگھ گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں 1770 میں پیدا ہوا۔ دس برس کا تھا کہ باپ مہاں سنگھ مر گیا۔ اس کی ماں مائی مالوائین بڑی دانا عورت تھی۔ اس نے رنجیت کی تربیت کی اور جوان ہونے پر اس نے بیٹے کی شادی بٹالہ کی طاقتور کانہیا مثل میں کی تاکہ سکرچکیہ مثل مضبوط ہو۔ رنجیت سنگھ کی خوش قسمتی کہ اس کی بیوی مہتاب کور اور ساس سدا کور بھی عقل مند عورتیں تھیں اور انہوں نے رنجیت کو اپنی طاقت بڑھانے کے لئے مفید مشورے دیے۔
رنجیت سنگھ بیس سال کی عمر میں اپنی بہادری اور دانائی کے لیے مشہور ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں لاہور تین سکھ سرداروں کے قبضے میں تھا جنہیں ”ہر سہہ حاکمان لاہور“ کہا جاتا تھا۔ 1798 تک یہ تینوں مر چکے تھے لیکن ان کے بیٹے علی الترتیب چیٹ سنگھ ، صاحبا سنگھ اور مہر سنگھ لاہور کے حاکم بن گئے۔ لاہور کے شہری اجڑ چکے تھے رنجیت سنگھ کی شہرت سن کر شہر کے سر برآوردہ لوگوں نے رنجیت سنگھ کو شہر پر قبضے کی دعوت دی۔ ان میں آرائیں برادری کے میاں محکم دین (انارکلی کی محکم بیکری) میاں عاشق محمد اور معتبر ہندو سکھ شامل تھے۔ رنجیت سنگھ اور اس کی ساس سدا کور کی افواج لاہور جی پی او کے علاقے میں خیمہ زن ہوئیں۔ رنجیت سنگھ نے بارہ دری وزیر خان میں ڈیرہ لگایا جنگ کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ میاں محکم دین جو لوہاری دروازے میں رہتے تھے انہوں نے رات کو شہر کے دروازے کھلوا دیے۔ رنجیت سنگھ فوج سمیت شہر میں داخل ہوا دو سکھ سردار یہ دیکھ کر فرار ہو گئے چیٹ سنگھ قلعے میں بند ہو گیا دوسرے دن جان کی امان پا کر فرار ہوگیا۔ اس طرح رنجیت سنگھ نے بغیر کوئی جنگ لڑے 1799 میں لاہور پر قبضہ کر لیا۔
پچھلے سات سو سالوں میں، پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلی فوج تھی جو لاہور شہر میں پرامن داخل ہوئی۔ کوئی لوٹ مار نہ ہوئی نہ کہیں آگ لگائی گئی۔ اس سے پہلے شہاب الدین غوری لاہور کو جلا چکا تھا۔ لاہور کے کسی شہری کو مردوں عورتوں بچوں کو کچھ نہ کہا گیا جبکہ اس وقت غلام بنانے کا رواج عام تھا۔ یوں رنجیت سنگھ نے حکمرانی کا آغاز کیا اور پرزہ پرزہ کٹے پھٹے پنجاب کو جوڑ کر انگریزوں کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی طاقت بنا دیا۔
تاریخ صاف بتا رہی ہے کہ جب تک یہ شخص زندہ رہا نہ تو انگریز پنجاب پر قبضہ کر سکے نہ افغانوں کو جرات ہوئی کہ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی طرح پنجاب پہ چڑھ دوڑیں۔ رنجیت سنگھ کا پنجاب پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اسے متحد کیا۔ اس دور میں پنجاب ایسی ریاست بن گئی جس کی باگ ڈور مقامی لوگوں کے ہاتھ تھی اس نے دفاعی مقاصد کے لیے مضبوط ترین فوج کھڑی کی۔ اس زمانے کا پنجاب آج کا کشمیر ملا کے سندھ اور بلوچستان کے جنوبی علاقوں کے علاوہ تقریباً پورا پاکستان بنتا ہے پورے ملک میں عدل و انصاف کی بنیادیں استوار کیں۔ ایسا شخص جس نے تاریخ میں اپنے لیے عزت دار مقام مقام بنایا وہ اس کا جائز حق دار ہے اس مقام کو تسلیم تقاضائے عقل و فطرت سلیم ہے۔