چوک پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک آدمی اونچی جگہ پر کھڑا ان سے مخاطب تھا۔ انوریؔ سننے کے لئے نزدیک ہو گیا۔ وہ شخص انوریؔ ہی کے شعر سنا رہا تھا اور لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ سنانے والا دم لینے کیلئے رکا تو انوری نے چیخ کر کہا…’’ یہ تو انوری کے اشعار ہیں! اس آدمی نے اثبات میں سر ہلایا…‘‘ہاں یہ انوری ہی کے اشعار ہیں۔
’’تو تم کیوں سنا رہے ہو؟‘‘
’’میں انوری ہی تو ہوں‘‘
اس موقع پر انوری نے اپنا وہ فقرہ کہا جو آج تک مشہور ہے کہ ’’شعر تو چوری ہوتے سنے تھے۔ شاعر چوری ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ وسط ایشیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے المیے کا ذکر کرتے وقت ہم آخر اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ رسم الخط بدل کر انہیں اپنے ماضی سے کاٹ دیا گیا لیکن ہم شاید یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری تو پوری کی پوری زبان ہی بدل دی گئی! جیسے صرف شعر نہیں، شاعر بھی چوری ہوگیا۔
ہر سال یوم اقبال آتا ہے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گائے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے وہ سربراہ جو اپنے نام نہاد عملی تصوف اور کھوکھلے علم کی تشہیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر سال بھر کیلئے بلوں میں واپس گھس جاتے ہیں۔ ضمیر جعفری مرحوم نے اس ضمن میں کہا تھا …؎
بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
لیکن اس بنیادی نکتے پر کوئی بات نہیں کی جاتی کہ اقبال شناسی کے فقدان کا اصل سبب کیا ہے؟
1860ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد زارِ روس نے تاشقند پر قبضہ کیا۔ اس سے پہلے ترکستان کے دوسرے بڑے بڑے شہر وہ ہڑپ کر چکے تھے۔ 1917ء میں اشتراکی انقلاب آیا تو یہ قبضہ لینن کی حکومت کو منتقل ہو گیا۔ سوویت یونین نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کو اپنے ماضی اور عالم اسلام دونوں سے کاٹنے کیلئے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کیا اور لاطینی کر دیا لیکن کچھ عرصہ بعد جب اتاترک نے بھی انقرہ میں ترکی رسم الخط کو لاطینی میں بدل دیا تو اشتراکیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ایک رسم الخط ہونے سے وسط ایشیائی مسلمان ترکی کے قریب ہو جائینگے۔ چنانچہ انہوں نے دوسرا وار کیا اور وسط ایشیاء پر لاطینی کے بجائے روسی رسم الخط مسلط کر دیا لیکن اس ظلم کے باوجود وسط ایشیائی اپنی زبان سے محروم نہ ہوسکے کیونکہ زبان وہی تھی فقط رسم الخط بدلا تھا۔ وہ اب بھی نوائیؔ ، جامیؔ، ابوسیناؔ اور بابرؔ کی تحریریں پڑھ سکتے تھے۔ اگرچہ نئے رسم الخط کیساتھ الجھنیں بھی آئی تھیں۔لیکن برصغیر کے مسلمانوں کیساتھ جو حادثہ پیش آیا وہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی تھا۔ یہاں شعر نہیں، شاعر چوری ہو گیا۔ رسم الخط تو وہی رہا، پوری زبان اٹھا لی گئی، انیسویں صدی کی تیسری دہائی تھی۔
جب لارڈ میکالے نے ایک خاص طبقہ پیدا کرنے کیلئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا۔ یہ طبقہ اسکے الفاظ میں رنگت کے اعتبار سے مقامی لیکن اندر سے انگریز تھا۔ روسی بے وقوف تھے۔ رسم الخط بدلنے کے چکر میں الجھ گئے۔ انگریز شاطر اور مکار تھے۔ انہوں نے اردو کو چھیڑا نہ فارسی کو۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم کی اور روزگار کی زبان انگریزی کو قرار دیا اب کون ہوگا جو فارسی اردو پڑھ کر بے روزگاری کے دریا میں غوطے کھاتا۔ معاش، تہذیب و تمدن تو کیا، اپنے پیاروں کو چھڑوا دیتا ہے۔چنانچہ سو سال سے کم عرصہ میں ایک ہزار سال پر محیط ادبی اور تہذیبی میراث درس گاہوں گلیوں بازاروں مکانوں اور دالانوں سے منہ موڑ کر مخطوطوں پرانی لائبریریوں اور عجائب گھروں میں بند ہو کر رہ گئی۔
آج سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر پوچھئے کہ بیدل کون تھا؟ نظیری کہاں سے آیا تھا؟ صائبؔ طالبؔ آملی، ابو طالبؔ کلیم، عرفیؔ، فیضی اور ابو الفضل لوہار تھے یا ترکھان؟ آخر کئی سو سال تک ایران سے نقل مکانی کا تانتا کیوں بندھا رہا؟ ہر صاحب کمال بخارا، سمرقند، نمنگان، شیراز، اصفہان، تبریز اور تہران کیوں چھوڑتا تھا اور دہلی کا رخ کیوں کرتا تھا، طالب علم تو طالب علم ہیں، اساتذہ بھی جواب نہیں دے سکتے۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے اہل علم اپنے ہی ماضی کے مشاہیر سے بے خبر ہیں! آج کتنے پڑھے لکھے پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ غالب کا اصل کارنامہ اس کا فارسی کلام ہے۔ اردو شاعری تو وہ چھینٹے ہیں جو ادھر اْدھر پڑ گئے تھے!۔ اب اس سیاق و سباق میں غور کیجئے کہ اقبال کتنا مظلوم ہے! خطاب تو اسے شاعر مشرق کا دیا گیا، حکیم الامت بھی کہہ دیا گیا، قومی شاعر بھی قرار دیدیا گیا لیکن اسکے ستر فیصد کلام کو پڑھا ہی نہیں جاتا، پڑھا جا سکتا ہی نہیں۔ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ جاوید نامہ، اسرار و رموز۔ پیامٍ مشرق زبور عجم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کا تین چوتھائی حصہ۔ سب فارسی میں ہیں اور شاید ہر دس ہزار لوگوں میں فارسی جاننے والا ایک بھی مشکل سے ملے گا!۔
آپکا کیا خیال ہے کہ کیا اقبال کا اردو کلام پڑھا جاتا ہے؟ اور سمجھا جاتا ہے؟ اور کیا آپکو معلوم ہے کہ اردو اس ملک میں روبہ زوال ہے؟ اس لئے کہ جڑ کے بغیر کوئی درخت کھڑا نہیں رہ سکتا اردو کی جڑ فارسی ہے۔ آج جن لوگوں کو اردو جاننے کا دعوی ہے انکی اکثریت فارسی سے نابلد ہے اور اردو جاننے والے غلط اردو پڑھا رہے ہیں اور اس طرح پڑھا رہے ہیں کہ یہ پڑھنے والے اردو کے جوہر سے آشنا نہیں ہو سکتے اسکی مثال یوں سمجھیے کہ ایرانی ساری عرب دشمنی کے باوجود فارسی زبان و ادب کے طلبہ کو بنیادی عربی ضرور پڑھاتے ہیں اس لئے کہ عربی زبان و ادب فارسی میں رچا بسا ہوا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے قومی شاعر کے کلام کے انہی حصوں سے آشنائی ہے جو گویوں نے گائے ہیں اور بار بار گائے ہیں۔ جیسے خودی کا سرِ نہاں لاالٰہ الا اللہ اور، ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان۔اقبال کی مظلومی کے اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ کہا تو اس نے یہ تھا کہ…؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
لیکن ابلہِ مسجد اور تہذیب کے فرزند۔ دونوں نے اسے اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا اور خوب کیا۔ غلام احمد پرویز سے لیکر ڈاکٹر اسرار احمد تک… اور سبز دستاروی سے لیکر سرخ پرچموں تک۔ ہر ایک نے اقبال سے فائدہ اٹھایا۔ کسی کو صرف یہ یاد رہا کہ دین مْلّا فی سبیل اللہ فساد اور کوئی سارے کلامِ اقبال سے۔ ہر خوشۂ گندم کو جلادو۔ والا شعر اڑا لایا لیکن اس مطلب برآری اور خود غرضانہ استعمال سے خدا کا کلام نہ بچ سکا تو اقبال کا کلام کیا کرتا
جس قرآن نے بار بار تدبّرکی تعلیم دی اور قوت و شوکت کی اہمیت جتائی اسی کو دنیا سے پیچھے رہنے کے لئے آڑ بنایا جا رہا ہے ۔ خود اقبال ہی نے تورونا رویا تھا
اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایامہ و پرویں کا امیر
رہی یہ بات کہ عربی اور فارسی پڑھ کرہم ترقّی نہیں کر سکتے توانگریزی کو ماں باپ بنا کر ہم نے جتنی ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔اس کے مقابلے میں ایران ،جہاں سب کچھ فارسی میں ہوتا ہے،بجلی میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ برآمد بھی کرتا ہے۔ترقی دوسروں کی زبان اپنانےسے نہیں ہوتی محنت اور عزت نفس سے ہوتی ہےاور یہ وہ اجناس ہیں جو بازار میں نہیں ملتیں
بات دور نکل گئی۔آئیے۔یوم اقبال پر اُس ظلم کو بھی یاد کریں جو اقبال پر ہو رہا ہے۔ ،