2005
ء کی جنوری تھی۔ دھوپ کی تمازت نے جاڑے کو خوشگوار کیا ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب جھنڈیال کے اشراف۔۔ جن کی تعداد تقریباً پندرہ تھی۔ فتح جنگ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اٹک ضلع کے ناظم میجر طاہر صادق سے ملے
۔جھنڈیال تحصیل فتح جنگ کا ایک عجیب گاؤں ہے۔ عام اصول یہ ہے کہ قریے‘ قصبے اور شہر خستہ حال ماضی سے نکل کر خوشگوار حال کی طرف بڑھتے ہیں اور بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں لیکن جھنڈیال نے الٹی گنگا بہائی ہے۔ اس کا ماضی تابناک تھا اور حال ویران ہے۔ یہاں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ان کا نام غلام محمد تھا۔ انہوں نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک اس گاؤں میں بٹھ کر درس و تدریس کا کام کیا۔ بنگال اور آسام سے لے کر کابل اور بدخشاں تک کے طلبہ آکر ان سے فقہ اور فارسی ادب پڑھتے تھے تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اردگرد کے گاؤں بھی ان طلبہ کے قیام و طعام کی ذمہ داری میں شریک ہو جاتے تھے۔ مولانا غلام محمد معروف طبیب بھی تھے اور مفت علاج کرتے تھے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے شاندار ماضی رکھنے والے اس گاؤں کا حال آج اتنا تاریک ہے کہ یہ گاؤں عبرت کی مثال ہے۔
ضلع ناظم میجر طاہر صادق گاؤں کے اشرافیہ کے وفد کو خندہ پیشانی سے ملے۔ ان کے مطالبات سنے اور متعلقہ اہلکاروں کو جو وہاں موجود تھے۔ اسی وقت حکم دیا کہ اس گاؤں میں ڈسپنسری قائم کی جائے اور اس سکول کو جو 1940ء سے پرائمری چلا آرہا ہے‘ مڈل کر دیا جائے۔ ضلع ناظم نے دونوں کی منظوری دے دی۔ گاؤں کے خوشحال افراد اٹھے۔ سردار تاج خان نے چار کنال اراضی ڈسپنسری کیلئے اور سردار اکبر خان نے آٹھ کنال اراضی مڈل سکول کیلئے تحفے کے طور پر پیش کی اور حکومت کے نام منتقل کر دی۔
اس کے بعد کی داستان۔۔ داستان نہیں ماتم ہےیہ ماتم وعدہ خلافی کا ہے سنگدلی کا ہے بے مہری کا ہے مجرمانہ غفلت اور ظلم و ستم کا ہے۔ ضلع ناظم کی منظوری اور زمین کی حکومت کے نام منتقلی کو چار سال اور آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ یہ چار سال اور آٹھ ماہ محض چار سال اور آٹھ ماہ نہیں۔ اڑھائی سو ہفتے ہیں اور ایک ہزار سات سو تیس دن بنتے ہیں۔ ان سینکڑوں ہفتوں اور ہزاروں دنوں میں ضلع ناظم سے لے کر ضلعی حکومت کے افسروں اور اہلکاروں تک کے دروازے کھٹکھٹائے گئے ہیں۔ یہ گاؤں رویا ہے‘ گڑ گڑایا ہے لیکن اٹک کی ضلعی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
اس عرصہ میں اس گاؤں پر ایک اور قیامت بھی گزری پلاسٹک کے بنے ہوئے شخص شوکت عزیز کی سیاسی لاش تحصیل فتح جنگ کی پیٹھ پر لادی گئی۔ شوکت عزیز اس گاؤں کے ایم این اے بن گئے اور پھر وزیراعظم۔ وہ کتنی بار اپنے ’’حلقے‘‘ میں گئے اور اپنے حلقے کے کتنے لوگوں سے ملے؟ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور کوئی اس کو جھٹلا نہیں سکتا لیکن جس گاؤں کی نمائندگی ملک کا وزیراعظم کر رہا تھا اس گاؤں میں ڈسپنسری بنی نہ سکول کی تعمیر ہوئی۔ عطیے میں دی گئی زمین انتظار کرتی رہی۔ ضلعی حکومت کو ہر سطح پر خطوط‘ درخواستیں عرض داشتیں لکھی گئیں۔ گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جو شہروں میں ملازمتیں کر رہے تھے‘ سارے جتن کئے۔ معلوم ہوا کہ اٹک کی ضلعی حکومت میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے اس زمین کو بنفس نفیس دیکھنا ہے جو ڈسنپسری کے نام کرائی گئی تھی۔ یہ ڈاکٹر صاحب اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی رہائشی کالونی میں رہتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے اسلام آباد آکر ان ڈاکٹر صاحب کو گاڑی پر بٹھایا اور ادب احترام سے گاؤں لے کر گئے۔ ان کی پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے سب کے سامنے کہا کہ میں رپورٹ لکھ رہا ہوں۔ بہت جلد تعمیر شروع ہو جائے گی۔ لیکن چار سال ہونے کو ہیں‘ رپورٹ جانے کون سے آسمان پر لکھی گئی‘ ابھی تک اس زمین پر نہیں پہنچی جہاں ڈسپنسری بننی تھی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اٹک کے ناظم نے لاہور میں قیام پذیر ہوتے ہوئے بھی ضلع میں ترقیاتی کام بہت کئے ہیں۔ اس سے انکار کرنا حقیقت کی خلاف ورزی ہو گی۔ وہ ملتے بھی خندہ پیشانی سے ہیں۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ اس مخصوص گاؤں کی بدقسمتی کی کیا وجہ ہے؟ اہل دہ کا خیال یہ ہے کہ ضلع ناظم نے منظوری دے دی لیکن اس کے بعد ضلع کی نوکر شاہی اس منظوری پر سانپ بن کر بیٹھ گئی۔
بہت سے پاکستانی حیران ہوتے ہیں کہ آخر پاکستان کو بیماری کیا ہے کہ یہ ہر آنے والی صبح کو پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ اگر اس ملک کی بدقسمتی کو کسی ایک نکتے پر مرتکز کرکے دیکھنا ہو تو اس گاؤں پر غور کیجئے ضلع ناظم بنفس نفیس‘ گاؤں کے پندرہ افراد کی موجودگی میں سکول اور ڈسپنسری کی منظوری دیتا ہے‘ اراضی حکومت کے نام منتقل کر دی جاتی ہے‘ ڈاکٹر گاؤں میں آکر زمین کا معائنہ کرتا ہے‘ اس کے بعد ۔۔ چار سال نو ماہ ہوتے ہیں کہ عرضداشتوں اور یاد دہانیوں کے باوجود ایک پتہ نہیں ہلتا ایک ذرہ نہیں حرکت کرتا۔
یہ گاؤں اب چوبیس گھنٹے کام کرنے والے اور نہ تھکنے والے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے اور گاؤں کی درخواست خادم پنجاب کی خدمت میں یہ ہے کہ ڈسپنسری اور سکول بنوانے کا حکم تو صادر کریں لیکن خدا کیلئے یہ کھوج لگائیں کہ مجرم کون ہے؟ اگر اس ظلم کی ذمہ دار نوکر شاہی ہے تو کیا خادم پنجاب ذمہ دار افراد کو عبرت ناک سزا دیں گے؟ اور اگر غفلت اہل سیاست کی ہے تو اس ملک کے اہل سیاست میں خیر کا پہلو کبھی تھا‘ نہ ہے‘ سوائے ان چند سیاست دانوں کے جو صحیح معنوں میں خلق خدا کی خدمت کر رہے ہیں اور جن کا نام سب کو معلوم ہے۔ مشک وہ ہے جس کی خوشبو خود پھیلتی ہے۔ بیچنے والے کو نہیں بتانا پڑتا۔
میاں شہباز شریف شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ جدید نظم کے معروف شاعر فرح یار کے تازہ مجموعے کا نام ہے ’’نیند جھولتے لوگوں کے لئے لکھی گئی نظمیں‘ دل چاہتا ہے کتاب کا نام ہوتا ’’سولی پر لٹکے لوگوں کیلئے لکھی گئی نظمیں‘‘ فرح یار نے اپنی نظم SUBVERSION میں پاکستانی عوام کی بے زبانی اور درد ناک بے ہوشی کو کس تاثیر کے ساتھ اور کس دل گیر لہجے میں پیش کیا ہے…
؎ہدف میں نہ تھا
پر مجھے اس نے اپنے نشانے پہ رکھا
خبر اس نے لکھی زمانے سے ہٹ کے
مگر موجۂ سر زمانے پہ رکھا
جدائی کی شاخوں سےامید باندھ
یسماوات کو آب و دانے پہ رکھا
کہیں دشمنوں کو زمینیں سجھائیں
کہیں دوستوں کو ٹھکانے پہ رکھا
عجب لہر میں اس نے خواہش بھرے دن
گزارے زمیں پر
یقیں کے پیالے میںخاشاک بھر کے
ارادوں کوسونے سلانے پہ رکھا
ہدف میں نہ تھاپر مجھے اس نے اپنے نشانے پہ رکھا