سچ تو یہ ہے کہ وہ جسمانی غلام تھے فکری نہیں. ان کے تن پر قبضہ تھا مگر ان کے افکار و نظریات پر پہرےبٹھانا دشمن کی طاقت سے پرے تھا. کہا جاتا ہے کہ جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں وہ ہرگز خواب غفلت کا شکار نہیں ہوتے اور کبھی اغیار کے ہاتھوں اپنی ذہنی آزادی کا سودا نہیں کرتے. آزادی، انسان کی سرشت کا ایک بیش بہا حصہ ہے جس کے حصول کی خاطروہ ہر گھڑی ماہی بے آب رہتا ہے ۔
ایک وقت تھا جب بیرون ملک سے آئے چند اوباش اور فتنہ پرور دشمنوں نے مالک کی نرم خوئی اور آدم گری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی زمین کو ہتھیا لیا اور ہم سے اختیارات چھین کر اپنی حکومت کا آغاز کر دیا. شہر سے شروع ہوئی یہ حکومت اوردیکھتے دیکھتے اس بیرونی ناجائز حکومت نے پورے ملک کو امربیل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
لیکن ہندو مسلم سکھ عیسائی کی انتہائی دیدہ ریزی و جفاکشی نے اسے برطانوی قید و بند سے آزاد کرادیا. ہندوستان اگرچہ 15 اگست 1947 میں محبان وطن کی جدو جہد سے آزاد ہوا لیکن تاریخ میں 26 جنوری کا الگ ہی امتیاز ہے. حکومت نے ڈاکٹر امبیڈ کر کی سرکردگی میں آئین ساز کمیٹی تشکیل دی ۔اس کمیٹی نے مسلسل تین برس کی شب و روز عرق ریزی کے بعد آئینی مسودہ آمادہ کیا. اسمبلی کی منظوری کے بعد اس آئین کو بعنوان ضابطہ ہند مکمل طور پر نافذالعمل کیا گیا اور 26 جنوری 1950 میں بھارت خود مختار ملک بن گیا. اب اسے سامراجی غلبہ سے ہمہ گیر خلاصی نصیب ہوچکی تھی. ہم اس دن کو روزے جمہوریہ کے نام سے یاد کرتے ہیں. اس روز کی مناسبت سے ملک بھر میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ یوم جمھوری کی تقریب منعقد کی جاتی ہے ۔
بھارتی عوام اپنی چشم پرنم اور صمیمی قلب سے وطن کے جانثاروں کے عزم ہمت کو سلام کرتی ہے اور عہد کرتی ہے ہم آخری سانس تک اس سرزمین کا دفاع کرتے رہیں گے. ۔
26 جنوری کو جوآئین طے پایا تھا. اس کے آغاز میں ایک حسین جملہ تحریر تھا"ہم ہندوستانی عوام تجویزی رائے کرتے ہیں کہ بھارت ایک آزاد اور جمہوری ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے. جس میں تمام شہروں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادی خیال، اظہاررائے اور آزادی عقیدہ کی برابری اور انفرادی تشخص کو یقینی بنایا جائے گا اور اسکے یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا. "
1971میں اندرا گاندھی نے آئین کے زیور میں سیکولر لفظ کے قیمتی موتی کااضافہ کردیا جس کے باعث دنیا بھر میں اس دستور کو خوب سراہا گیا اور اسے روا داری پر مبنی برانصاف آ ئین قرار دیا گیا ۔
اصول ہند کے رو سے ہر بھارتی بلاتفریق مذہب وملت یکساں و برابر ہے. تمام مذاہب کا احترام کیا جائے گا اور مذہب کی بنا پر کسی بھی قسم کا کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے گا. دستور کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے یہ اصول بلکل کامل ووافی نظر آتے ہیں ۔
آزادی ہند کے معماروں نے اپنی آنکھوں میں ایک پرنم اور ترقی یافتہ بھارت کا سنہرا خواب سجا کر ابدی نیند کی چادر اوڑلی. ان کی دلی تمنا تھی کہ ہم اختلافات کے سامراجی دربار کو کھنڈر میں تبدیل کرکے اتحاد کا عظیم الشان تاج محل تعمیر کریں ۔ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان ایسا ملک بنے جہاں ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کا بھید بھاؤ نہ ہو اور تمام مذاہب کے پیرو باہمی یگانگت کے ساتھ اپنے مذہبی رسومات ادا کرنے میں افتخار کریں ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان جوں جوں دہلیز شباب کی جانب قدم بڑھاتا گیا ،خوب سے بد ہوتا گیا جب کہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کی ترقی کے میدان کا علمبردار ہوتا اور اپنی ذات میں ید طوبی کا مالک ہو۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا. اسے سیاستدان کی نااہلی کہہ لیں یا عوام کی بد انتخابی کہ حالیہ دور میں ہندوستان خانہ جنگی کی کگار پر کھڑاخون کے آنسو رورہاہے. آج کل سیاست نے بھی اپنی شکل و صورت تبدیل کر رکھی ہے. ان دنوں سیاستداں اپنی بساط پر فرعون کا کردار ادا کر رہے ہیں. نہ جانے مذہبی تعصب کی آنکھ مچولی کب تک چلتی رہے گی. دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے رہنے کا کوئی حق نہیں ھے جبکہ گلستان ہند کی ہر بہار گواہ ہے کی اس کی شادابی بھی مسلمانوں کے بھی لہو کام آئے ہیں اور اس کی نگہبانی میں اہل اسلام نے بھی اپنی جانیں نچھاور کی ہیں ۔
یہ تصور بھی جرم ہے کہ ہندوستان کسی ایک فرقے کی جاگیر ہے. گنگا جمنی تہذیب کو روندا جا رہا ہےاور مہاتما گاندھی کے مشن کو کچلا جارہا ہے. نہ جانے خوابو کے اس عزیز وطن اور گنگا جمنی تہذیب کے اس سنگم کو کس بد نظر کی نذر لگ گئی. دشمن مسلسل اپنی ابلیسی تخریب کاری کے ذریعے ان بے لوث مجاہدین آزادی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ میں روڑے ڈال رہا ہے اور ہمارے سیاستدان ہیں کہ ان کی جی حضوری میں اپنا شرف سمجھتے ہیں ۔
گاندھی جی کی روح تڑپتی ھوگی کہ آج میرے خوابوں کا شاندار محل ویران کیا جارہا ہے. اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کیا کہ آپ کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا اور آپ ہر بھارتی کے درد میں برابر کے شریک تھے. لیکن سر دست ہندوستان کی حالت یہ ہے کہ آپسی اختلافات کو ہوا دے کر جمہوریت کو مجروح کیا جارہا ہے اور سیاستمدار ہیں کہ مسلسل بیجا خاموشی کا ثبوت پیش کیے جارہے ہیں لیکن یہ مسلم ہے کہ اندھیرے کبھی اجالوں کو نگل نہیں سکتے ہیں اور
دوچار امیدوں کے دیئے اب بھی ہیں روشن
ماضی کی حویلی ا بھی ویران نہیں ہے