یہ 1968 کی بات ہے ہم اس وقت ساتویں کلاس کے طالب علم تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں سینما کلچر اپنی معیاری فلموں کی وجہ سے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ سینماؤں میں فلمیں دیکھنے کے لیے پورے کے پورے خاندان ایک ساتھ جایا کرتے تھے، فلموں کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے لوگ طویل طویل قطاروں میں لگتے تھے۔ 1968 کے برس بھی ہمارے ملک میں تقریباً سو فلمیں بنی اور ریلیز ہوئیں تھیں۔ ہم اپنے خاندان کے ہمراہ ایک پاکستانی فلم "جہاں تم، وہاں ہم" دیکھنے کے لیے سینما ہاؤس گئے۔ اس فلم میں پہلی بار ہم نے اداکار "آزاد" کو دیکھا جو اس میں ایک کریکٹر رول کر رہے تھے۔ اس فلم میں ان کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا جو وہ اکثر اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ "بیگم تم تو بالکل دیوار ہو" یہ مکالمہ وہ اس خوبصورتی سے ادا کرتے تھے کہ ان کا وہ مخصوص انداز کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہمارے ذہن پر چسپاں ہے۔
"آزاد" کا اصل نام "محمد حنیف قریشی" تھا۔
آپ 16 اکتوبر 1916 کو دہلی، برطانوی ہند (موجودہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ 1935 سے 1940 تک انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور کے فرائض بھی سرانجام دیئے تھے۔
بنیادی طور پر "آزاد" فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ ان کے اپنے مطابق؛
"میں ممبئی فلم نگری میں 'آٹھ آنے' روز پر اداکاری کرتا تھا۔ امید تھی کہ ایک دن ضرور فلم انڈسٹری کا درخشندہ ستارہ بنوں گا"
محمد حنیف عُرف آزاد بہت باتونی اور خوش گفتار تھے۔
اردو ان کی مادری زبان تھی، جس سے امپیریل فلم کمپنی کے تمام ستارے نا آشنا تھے۔ اردو زبان میں دسترس کی وجہ سے وہ لوگ "آزاد" سے ہی رجوع کیا کرتے تھے۔ اس طرح وہ ان تمام ستاروں کے حال لکھتے اور پھر اسے پڑھتے بھی تھے۔ اگر "اردو" میں کوئی "خط" ہوتا تو "آزاد" کی تلاش شروع ہوجاتی تھی۔
مشہور افسانہ نگار منٹو نے قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے بارے میں "میرا صاحب" کے عنوان سے جو خاکہ لکھا تھا اس کے راوی یہی آزاد صاحب تھے، ان ہی کی زبانی منٹو نے جناح صاحب کی شخصیت کے وہ اوجھل پہلو پڑھنے والوں تک پہنچائے تھے جن کے بارے میں عموماً اب لوگ بات کرنا پسند نہیں کرتے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہی جناح کی شخصیت کے گرد تقدس کا جو ہالہ بُنا گیا ہے اس سے یہ خاکہ میل کھاتا ہے۔ یہاں پر ہم اس خاکے سے آزاد صاحب اور جناح کے بارے میں ایک دلچسپ سا واقعہ بیان کریں گے۔ منٹو "میرا صاحب" میں لکھتے ہیں کہ
"محمد حنیف آزاد ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے کہ یہ سن انتالیس کا ذکر ہے۔ شام کے وقت ورلی کی سیر ہو رہی تھی۔ میں ان کی سفید پیکارڈ آہستہ آہستہ چلا رہا تھا سمندر کی موجیں ہولے ہولے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ موسم میں گلابی خنکی تھی صاحب کا موڈ بہت اچھا تھا۔ میں نے موقع پا کر عید کا ذکر چھیڑا۔ اس سے جو میرا مطلب تھا وہ ظاہر ہے۔ صاحب فوراً تاڑ گئے۔ میں نے بیک ویو مرر میں دیکھا۔ ان کے پتلے ہونٹ مسکرائے۔ نہ جدا ہونے والا سگار منہ سے نکال کر انہوں نے کہا 'اوہ۔۔۔ ویل ویل۔۔۔ ابھی تم ایک دم مسلمان ہو گیا ہے، تھوڑا ہندو بنو' اس سے چار روز پہلے قائداعظم، آزاد کو مسلمان بنا چکے تھے یعنی انعام کے طور پر اسے دو سو روپے دے چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو تھوڑا ہندو بننے کی تلقین کی۔"
آزاد کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ ان کے گھر پر پاکستان کی ایک مشہور فلمی جوڑی رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوئی تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ
فلم "تم ملے پیار ملا" کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29 ستمبر 1966ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر واقع "ناظم آباد" میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کیا تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور اور پاکستان کے ممتاز فلمی اداکار محمد حنیف عرف "آزاد" کا انتقال بارہ ستمبر 1986 کو کراچی میں ہوا۔
اس تحریر میں شامل کی گئی تصویر روزنامہ جنگ اخبار کراچی سن 1978 کی اشاعت سے لی گئی ہے۔
“