مقدس کتاب زبورمیں حضرت داؤد(ع)فرماتےہیں"میری زبان ماھر کاتب کاقلم ہے"۔انجیل کےنئےعہدنامےمیں شامل یوحنا(ع)کےتیسرےخط میں ارشاد ہے"مجھےلکھناتوتجھےبہت کچھ تھامگرسیاہی اورقلم سےتجھےلکھنانہیں چاھتا"۔یہ ایک جملہ ہمارےکتنےالمیوں کوبیان کرتاہے۔یہی صحافت کا المیہ ہے۔
برصغیر کاپہلا اخبارہکی گزٹ یابنگال گزٹ تھا۔اسےآگسٹن ہکی نےجاری کیا۔اخبار29جنوری1778میں جاری ہوا۔گزٹ برصغیرمیں ایسٹ انڈیاکمپنی کیخلاف پہلی صحافتی آوازتھا۔ہکی نے اس دور جبرمیں سچ سامنے لانےکاطریقہ یہ نکالا کہ اس نےمخالفین کےناموں سےملتے جلتےفرضی نام تخلیق کرکےخبر لگانی شروع کی۔
ہکی نےلارڈوارن ہیٹنگزسے لیکر پادری جان زکریا کرنینڈر اور کمپنی کےتمام اعلی افسران کے سکینڈل شائع کرکےانکی اصلیت آشکارکی۔یہاں تک کہ اسکواسی ہزار روپےجرمانےاور ایک سال قیدکی سزاسنائی گئ۔ہکی کےجواب میں کمپنی سرکار نے انڈیاگزٹ نکالا جو
پہلا خوشامدی اخبارتھا۔اب تو ماشاللّہ بےشمارہیں۔
لارڈ ولزلی جسکےدورمیں ٹیپو سلطان کوشکست ہوئی۔مگر بہت کم لوگ جانتےہیں اخبارات پرسنسرشپ کاپہلا قانون ولزلی نےہی جاری کیا۔جسکے تحت اخبارچھاپنے والےکواخبار کےآخرمیں اپنا نام و پتہ لکھنا تھا۔کوئی اخباراسوقت تک شائع نہیں ہوسکتا تھاجبتک حکومتی نمائندہ اسکودیکھ نہ لےاوراسکی منظوری نہ دے۔
13جنوری1823کوجان ایڈم عارضی طورپرگورنرجنرل مقرر ہوئے۔18دسمبر1823کوپریس آرڈینس جاری کیا۔جس نے اخبارات کی آزادی ختم کردی۔اخبارات کوسرکاری چھاپہ خانوں سےشائع کرنےکاحکم سامنے آیا۔اس قانون کوراجہ موہن رائےنے سپریم کورٹ میں چیلج کیا۔اپیل ردہوئی۔راجہ نےبطوراحتجاج اپنا اخباربندکردیا۔
جنگ آزادی1857کےبعدآزادی کےحامی اخبارنویسوں کو سزائیں ملیں۔دہلی اردواخبار کےمدیرمولوی محمدباقر کودہلی کالج کےپرنسپل ٹیلر کے قتل کےالزام میں گولی ماردی گئ۔صادق الاخبارکےمدیرجمال الدین کوتین سال سخت قیدکی سزاملی۔جنگ کےبعد اردو کےاخبارات بندکردیئے گئے۔یہ بھی جبر کا بدترین دور تھا۔
جون1903میں لاھورسےہفت روزہ زمیندارکاآغاز ہوا۔مدیر تھےمولوی سراج الدین۔1907میں جب نہری زمینداروںپرپابندی لگی تو اخبارنےزمینداروں کاساتھ دیا۔چودھری شھاب الدین کا ہاڑا۔۔پگڑی سنبھال اوئے جٹا۔۔اسی میں شائع ہوا۔اسی تحریک میں لالہ لاجپت رائےکو جلاوطن ہوناپڑازمیندارکچھ عرصےکیلئےبندہوگیا۔
پھر حسرت موہانی کا اخبار اردوئے معلی نے کھل کر انگریزوں کی مخالفت کی۔1907میں ایک سخت کالم لکھنے کی بدولت قید کی سزا پائی۔رہا ہوکر آئے تو اس سے بڑھ کر سخت کالم لکھا۔پھر قید ہوئے۔مشق سخن چکی کی مشقت کے ساتھ جاری رہی۔وہ پہلے سیاسی اسیر تھے جن کو پریس لاء کے تحت سزا سنائی گئ۔
1911میں مولانامحمدعلی جوھرنےکامريڈ جاری کیا۔1913میں ہمدرد جاری ہوا۔1915میں جوھرکو نظربندکردیا۔دونوں اخبارات بندکردیئےگئے۔1921میں تحریک خلافت میں نمایاں کردارکی وجہ سےڈھائی سال قیدکی سزا پائی۔آپ پرپچیس کے قریب مقدمات درج کئے گئے۔مگرآپ نےضمیر کا سودا نہیں کیا۔لفافہ بھی نہیں لیا۔
پاکستان بننے کے بعدسب سے پہلے امروز اخبار جاری ہوا۔اسکو میاں افتخارالدین کی سرپرستی حاصل تھی۔جو اپوزیشن کے راہنماتھے۔ایوب مارشل لا کے فوری بعد اس اخبار پررات چار بجے کامیاب آپریشن کے کے قبضہ کیاگیا۔قصور فقط مارشل لا کی مخالفت تھی۔1960میں پریس اینڈ پبلیکشن کا کالا قانون جاری ہوا۔
1959میں رائٹر گلڈکی بنیاد رکھی گئ۔مقاصد بظاھر ادیبوں،اہل قلم کی فلکح تھی۔مگر اصل کام حکومت کی تعریفیں بیان کرنا تھیں۔اس گلڈ سے وابستہ کئ اہل قلم نے فرضی ناموں سےبرئگیڈیر ایف۔آر۔خان کی ہدایت پر ایوب حکومت کیلئے مضامین اور پمفلٹ لکھے۔لفافہ صحافت کا پاکستانی دور شروع ہوتا ہے۔
1964-65کےصدارتی الیکشن میں معروف اخبارات نے فاطمہ جناح کوکم کوریج دی۔جس کا شکوہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں بھی کیا۔کراچی ٹائمز کےزیڈ-اے-سلہری نےمس جناح کو غداری کی سندجاری کی۔ایوب نےاس مضامین کو اپنی تقاریر کاحصہ بنایا۔سلہری صاحب بعد میں آئی-ایس-پی-آر کے ڈرائکٹرجنرل بھی رھے۔
1968میں جب ایوب کیچلاف تحریک چلی۔طلبہ اورسیاسی جماعتوں نےکالےقوانین ختم کرنےکامطالبہ کیا۔ایسےمیں صحافیوں نےبھی آزادئ صحافت کانعرہ بلند کیا۔اخبارات نےعوامی تحریک کوکامیاب کرنےمیں اہم کرداد ادا کیا۔مگرجنرل یحیی کےدور میں بنگالی صجافیوں کا جینا مشکل ہوا تو کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔
1977میں جنرل ضیاکامارشل لا صحافت کیلئےبدترین عہدتھا۔جنرل ضیانےصحافت کےناپسندیدہ عناصرکوالٹا لٹکانےکااعلان کیا۔عناصر جمہوریت کی بات کرتےتھے۔اس عرصے میں120صحافتی کارکنان کو گرفتارکیاگیا۔ملٹری کورٹ نے چھ ماہ سےایک سال تک کی سخت سزاسنائی۔اس دوران شاہی قلعےکی عقوبت الگ۔یہ دور بھی تھا!
ضیا دور میں ناصر زیدی،خاور نعیم اور اقبال جعفری کو سرعام کوڑے مارے گئے۔جبکہ مسعود اللّہ خان کو صحت کی خرابی کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔مگرشاہی قلعے کا عذاب ان پر برابر رہا۔نجم سیٹھی بھی ان احباب میں شامل ہیں جن کوضیا دور میں سخت سزا ملی۔مگر اس وقت بولنے والےموجود تھے۔صحافت زندہ تھی۔
مشرف دور میں صحافیوں پر کڑی پابندی رہی۔عدلیہ تحریک کے دوران میڈیا کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔مگر لوگ ڈٹے رھے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ پابندیاں کڑی ہیں۔مگر بات کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں۔چند اہل قلم برل رھے باقی خود کو تول رھے ہیں۔صجافت شاید آج مکمل طور پر غلام ہے۔
سلیم شہزاد قتل کمیشن ہویا حامد میر حملہ کمیشن،عمر چیمہ تشدد کیس۔احمد نوارنی پر تشدد کا واقعہ ہویا گل بخاری کی گم شدگی۔صحافیوں نے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کام کیا۔اس وقت اگر بولا جاتا تو شاید آج کوئی صحافی یوں قلم چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتا۔آج کل سے بہت زیادہ مختلف اور تاریک ہے۔
آج کل ٹی۔وی چینل پرموجود صحافیوں کودیکھ شورش شدت سےیادآتے ہیں۔فرماتےہیں:
اوصاف سے عاری ہیں
نوری ہیں نہ ناری ہیں
طاقت کے پجاری ہیں
لفظوں کے مداری ہیں
الفاظ کا جھگڑا ہیں
بےجوڑ سراپا ہیں
بجتا ہوا ڈنکا ہیں
ہر دیگ کا چمچا ہیں
واقعہ اب دیگ ایک ہےاور چمچےبہت۔آئیں چمچوں کو پہچانیں۔!