مغرب میں فیملی سسٹم ٹُوٹ رہا ہے، تباہی کے دہانے پر پُہنچ گیا ہے ایسے اور اِسی سے مِلتے جُلتے بیانات ہم آئے دِن سُنتے اور پڑھتے رہتے ہیں ایسے بیانات کا ایک ہراول سپاہی harbinger اوریا مقبُول صاحب بھی ہیں ، ایک تو پتہ نہیں کیوں لیکن ہر غلط تصور میں اِن بھائی صاحب کا نام سرِ فہرست آجاتا ہے ۔ خیر پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کُچھ ہونے نہیں والا اور بالفرضِ محال اگر ایسا ہوبھی تو ہمیں اِس سے کیا فائدہ ہوگا ؟
یورپ وغیرہ میں فیملی سسٹم ہے ہی کیا ؟ ہم کیا کرتے ہیں کہ اپنا دیسی فیملی سسٹم اور اَسی فیصد کیسز میں جوائنٹ فیملی سسٹم کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ ایک بڑا سا گھر ہو جہاں آپ اپنے دادا ، دادی ،تایا چچا اور اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوں ، پہلے دادا کماتے تھے ، پھر اب اُن کے بیٹے کماتے ہیں ، اگر بیچ میں کُوئی بیٹا نکھٹو ہے تو اُس کی شادی بھی ہو جائیگی ، اولاد بھی اور اُس کا کام بھی چلتا رہیگا ۔ اب یہ سسٹم کتنا کامیاب تھا کتنا ناکام اِس کا اندازہ یُوں لگائیں کہ اب یہ دیہاتوں تک محدُود ہوگیا ہے گو کہ ساٹھ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں بستی ہے لیکن یہ ماڈل آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔
یورپ میں لوگ شادیاں بھی کرتے ہیں فیملی سسٹم بھی ہے ، بعض حالات میں کئی بھائی اور والد اکٹھے کاروبار بھی کرتے ہیں لیکن اکھٹے ایک ہی گھر میں رہنے کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے ، اِس کی کئی وجوہات میں گھروں کا چھوٹا ہونا ، پرِویسی/ privacy کا تصور جو ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے ، اپنے اپنے معاشی حالات بھی ہیں ۔ مغربی لوگ بھی اپنے بچوں سے والہانہ پیار کرتے ہیں اور اپنے بُوڑھے ہوتے والدین سے بھی دِلی محبت کرتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہیں اُن کو لیکر آتے ہیں ، زیادہ پیسے ہوں تو اُن کو گھر بھی لیکر دیتے ہیں یا لینے میں مدد کرتے ہیں ، کاروبار کرنے میں مدد دیتے ہیں یعنی ہر وُہ کام کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے والدین کرتے ہیں ۔ اب فرق کیا ہے ؟
مغرب میں ایک پیدا ہونیوالا بچہ سٹیٹ کا بچہ ہوتا ہے اُس کی تعلیم فِری ہے ( پرائیوٹ سُکولز میں کتنے فیصد بچے پڑھتے ہیں یہ آپ خُود سرچ کرلیں ) ، عِلاج مُعالجہ فری ہے ، بڑا ہوگا تو جاب مِل جائیگی ورنہ ریاست کو اُسے بیروزگاری الاؤنس دینا پڑے گا ۔ والدین بچوں کو اپنا بچہ سمجھتے ہیں پراپرٹی یا ملکیت نہیں ، اُن کی زندگی میں کئے گئے فیصلوں میں اپنی رائے یا نصیحت تو بھلے دے لیں لیکن اپنا فیصلہ نہیں ٹھونستے ۔ جبکہ ہمارے ہاں ماں باپ بچے کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں اُس کی زندگی میں ہونیوالے ہر فیصلے کو اپنی مرضی سے کرنے کی نہ صرف کوشش کرتے ہیں بلکہ ایکچوئیلی کرتے بھی ہیں ۔ بچے کی تعلیم سے لیکر جاب تک اُسے سپون فیڈنگ کرتے ہیں اپنے بچوں کو بہتر مُستقبل دینے کی خاطر ہر طرح کے صحیح غلط کام کرتے ہیں ۔ بُہت کم والدین اپنے بچوں کو سیلف میڈ بننا سکھاتے ہیں زیادہ تر تو بچے کو بس یہی کہتے ہیں کہ میں نے تُمہیں پڑھایا لکھایا یہ کیا وُہ کیا وغیرہ ۔مائیں بچوں کو اپنا دُودھ نہ بخشنے کی دھمکیاں دیتی مِلیں گی۔
آج بھی ہمارے ہاں رویہ یہ ہے کہ آپ کو اسلام آباد میں ایسے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ حامد میر کل تک زیرو پوائنٹ پر موٹر سائیکل پر گھومتا تھا ۔ یعنی اُس کی کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی بس اُس کا غریب ماضی ہی یاد رکھنا ہے حالانکہ ایسی باتیں کرنے والے کل بھی وہیں تھے اور آج بھی وہیں ہیں ۔ گو اِس میں ریاست کی ناکامی موجود ہے جو فلاحی نہ بن سکی لیکن کہیں نہ کہیں ہمارے اپنے رویے بھی اِس میں شامل ہیں ۔ تفصیلات میں جانے کی گُنجائش نہیں لیکن ہم نے اپنے بچوں کو مہنگے موبائل ، موٹر کاریں دِلانی ہیں لیکن بُنیادی سِوک سینس نہ ہمارے اپنے پاس ہے نہ ہم اپنے بچوں کو دے سکے ہیں ۔
مغرب میں پلا بڑھا بچہ اپنا اچھا بُرا خُود سمجھتا بھی ہے اور اپنے کئے گئے غلط سلط فیصلوں کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے ۔ اولڈ ہومز کی مثالیں دینے والے یہ کیوں بُھول جاتے ہیں کہ اولڈ ہوم میں بُزرگ افراد خُود اپنی مرضی سے جاتے ہیں کہ وہاں اُن کی کمپنی ہوتی ہے ، اچھی کئیر ہوتی ہے ورنہ اُن کو کوئی مائی کا لعل گھر سے زبردستی نہیں بھیج رہا ہوتا نہ بھیج سکتا ہے ۔ ویسے ہمارے گھروں میں سچی بات تو یہ ہے کہ بُوڑھے افراد کو عملاً ایک کونے تک محدُود کردیا جاتا ہے جہاں وُہ اپنی زندگی کے آخری سال عُضو معطل بن کر گُزارتے ہیں ۔
اگر مغرب میں کُچھ ٹُوٹ رہا ہے تو وُہ ہے میرج انسٹیٹوشن marriage institution ۔ لوگ بوجوہ شادی نہیں کرتے ، اکٹھے رہتے ہیں ، بچے ہوتے ہیں اُن کی ذمہ داری بھی پُوری کرتے ہیں لیکن شادی نہیں کرتے کیوں نہیں کرتے اِس کی بُہت وُجوہات ہیں جو یہاں لکھنا مُمکن نہیں ہوگا ۔ آپ گرل فرینڈ بوئے فرینڈ کو پاکستان کے حساب سے دیکھیں گے تو غلط ہے ، مذہب بھی اِس کو غلط کہتا ہے لیکن یہ لوگ پاکستانی نظر سے تو نہیں دیکھیں گے اپنے حساب سے ہی چلیں گے تو بھائی ہم کیوں پریشان ہورہے ہیں ۔
اگر کہیں آپ یہ سوچتے ہیں کہ ایک دِن مغرب تباہ ہو جائیگا اور ہم سُپر پاور بن جائیں گے تو ایسی سوچ پر نمبردار کے مرنے اور مراثی کے نمبردار بننے کی لاحاصِل خواہش کا مشہور پنجابی لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ ہم دُنیا میں اِتنے پیچھے ہیں کہ ہماری سُپر پاور بننے کی باری آنے تک شاید قیامت آجائے ۔