یونہی پرانی تصویریں دیکھتے دیکھتے ایک تصویر کو دیکھ کر نجانے کیا ہوا کہ ہاتھ رک گئے ـ
ماضی کے دریچے کھلتے گئے اور کچھ مناظر جو آنکھوں کے سامنے آتے گئے ـ
منظر صبح کا آنکھوں کے سامنے آتا ہے، جہاں آوازیں فضاؤں میں گونج رہی ہیں ـ
اسکول کے سامنے پانچ قطاروں میں پہلی سے لے کر پانچویں جماعت کے بچے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور سامنے سیڑھیوں میں دو بچے لہک لہک کر گا رہے ہیں ـ
! لب آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
اس کے بعد سندھی میں "
" سستي مان ڇا ھڙ حاصل قدم وڌائي اگتي ھل " اور آخر سب مل کر قومی ترانہ پڑھتے ہیں،
" پاک سر زمین شاد باد "
میں یہ سب دیکھ رہا ہوں چہرے اپنے سے لگتے ہیں، سب چہروں میں خوبصورت معصومیت سی ہے ـ
منظر بدلتا ہے، اسکول کے کمرے میں استاد پڑھا رہا ہے، کچھ بچے لکھ رہے ہیں، کچھ سر کو جھٹک جھٹک کر کچھ پڑھ رہے ہیں، جیسے حفظ کر رہے ہوں، اور آس پاس شور بھی ہے، اور خاموشی بھی، وقت جیسے تھم سا گیا ہو، کچھ نہ ہو کر بھی سب کچھ دیکھ رہا ہوں،
منظر بدلتا ہے، اسکول کے سامنے بچے کھیل رہے ہیں، ایک ریڑھی والے کے پاس بچے کھڑے ہیں، ایک بوڑھا سفید داڑھی والا کرسی میں بیٹھ کر بچوں کو ٹافیاں بیچ رہا ہے، بچے کبھی کچھ مانگتے کبھی کچھ اور بوڑھا کبھی ہنس کر کبھی غصے سے ان کو چیزیں دے رہا ہے ـ
پاس ہی مسجد اور مسجد کے سامنے بہتا ٹیوب ویل کا صاف شفاف پانی اور ایک قطار میں بڑے بڑے درخت اور ان کے چاؤں میں کھیلتے شور مچاتے بچے زندگی کی خوبصورتی کو بیان کر رہے ہوں جیسے ـ
پھر کچھ آوازیں سنتا ہوں، گمان ہے کہ پہلے سنے ہوں وہ آوازیں، جو زندگی ہیں، ان آوازوں میں میری آواز مجھے بھی اجنبی سی لگتی ہے، میں ہی ہوں یا کوئی اور،
منظر بدلتا ہے مسجد کے ساتھ امرود کے درخت اور اس میں کھیلتے بچے، کوئی امرود تھوڑ کے کھا رہا ہے، کوئی درختوں میں کھیل رہا ہے کوئی دوڑ رہا ہے کہ اچانک ایک چیخ کر کہتا ہے، بھاگو حاجی آ رہا ہے سب بچے غائب اور ایک خاموشی درختوں کی سرسراہٹ پرندوں کے ترانے یہ سب کچھ سن کر زندگی رقصاں ہوں جیسے،
منظر بدلتا ہے بارش کے پہلی بوند سے آس پاس کی زندگی جیسے خوشی سے جھوم اٹھی ہو، پھر تیز بارش سے زمین سے وہ خوشبو اٹھی جو روح کو معطر کر گئی، کیا بچے کیا بوڑھے کیا عورتیں سب خوشی سے بھیگ رہی ہیں پانی چاروں ہور، اچانک ایک آواز سنائی دیتی ہے، ندی آیا دیکھو ندی، پھر سب ندی کی طرف بھاگتے ہیں، جو گاؤں کے ساتھ ہے، ندی میں پانی بہہ رہا ہے، پانی سے بھرا ہوا شور کرتا ہوا زور لگاتا ہوا لہریں بناتا ہوا ، آواز آتی ہے کہ بچوں کو دیکھو کوئی ندی میں گر نہ جائے سب اپنے بچوں پہ نظر رکھو ،
بہتے پانی کو دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت ہے لوگوں میں، خوشی ہے جوش ہے، ندی کے پاس کھڑے ہر مرد و زن بچے بوڑھے سب مست مگن بارش سے بے نیاز بس ندی کے بہتے پانی کو دیکھ رہے ہیں میں یہ سب دیکھ رہا ہوں محسوس کر رہا ہوں،
منظر بدلتا ہے، زمین نے بارش کے بعد سبز چادر اوڑھ لی ہے کشمیر کا منظر ہو جیسے،
کسان ہنستے گاتے اپنے زمینوں پہ کام کر رہے ہیں، پہاڑوں پہ گاؤں والے گھوم رہے ہیں درخت خوشی سے جھوم رہے ہیں، چرند پرند سب خوشی سے گا رہے ہوں ہر طرف ایک خوشی ہے راحت ہے ـ
ہر منظر جو سامنے آتا جاتا ہے، وہ ایک جنت نظیر منظر ہوتا ہے، اور میں ہر منظر دیکھ کر کبھی ہنستا کبھی روتا ہوں پھر ــــــ
اچانک ، اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں میں روشنی نہیں رہی اور منظر جلدی جلدی رنگ بدلنے لگے، بہار خزاں میں بدلنے لگی درخت سوکھنے لگے، لوگ رنگ بدلنے لگے، زمین جلنے لگی ـ
بڑی بڑی ٹرکوں کا شور اور فضا میں تیز چیخیں پھر ٹرکیں اور بڑی ہوتی گئیں چیخیں اور تیز اور تیز ـــــ
ان چیخوں میں ایک کرب، درد پنہاں ہے ـ
آس پاس عالیشان عمارتیں بنتی رہیں اور ہم چھوٹے گھر اور چھوٹے ہوتے گئے ـ
آس پاس دنیا بنتی رہی اور ہماری دنیا اجڑتی جا رہی تھی ، میں سمجھنے کی جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ کس کی چیخیں ہیں، جو دل کو دہلا رہی ہیں، ایک تصویر جو دھندلی تھی، ادھوری تھی مگر جب تصویر مکمل ہوئی اور منظر واضح ہو گئی تو میری چیخیں نکل گئیں اور میں تڑپ کے خود کو کوسنے لگا ـ
یہ چیخیں میری زمین ملیر اور گڈاپ کی ہیں، جہاں میں پیدا ہوا بڑا ہوا بوڑھا ہوا، اسی زمین نے مجھے سب کچھ دیا مگر میں نے کچھ بھی نہیں، وہ چیختا رہا اور میں چپ چاپ غرض کی چادر اوڑھے سنتا رہا ـ
مگر جب میری ہستی ایک سوال بن چکی ہے، تو زمین مجھ سے جواب طلب ہے، اور میں مجرم بنا صرف اشک بہا سکتا تھا سو بہا رہا تھا ـ
اپنے ضمیر کے سوالوں سے گھبرا کر جب میری آنکھیں کھلی اور میں سچ کی بھیانک دنیا میں آ گیا ـ
آس پاس بڑی عمارتیں اپارٹمنٹ، گراؤنڈ، شاپنگ مال، غرض، دولت مند، اپنے بدصورت چہروں سے میرے وجود کا مذاق اڑا رہے تھے، اور دوسری طرف ہماری چھوٹی سی محدود سی غریب سی دنیا میری منتظر تھی، جہاں کچھ بھی نہیں نہ جینے کی جگہ اور نہ مرنے کے بعد دفن ہونے کی جگہ اور آنکھوں میں اشک ء ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...