"مذھبی جنونیت کے خلاف جنگ ہماری اپنی ہے" مزھبی جنونیت بارے بدلتے ریاستی اور سیاسی رویوں کی داستان
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا پاکستان دھشت گردی کے خلاف جنگ اپنے مفاد میں لڑ رھا ہے، امریکی پیسوں یا سازوسامان کے لئے نہیں۔ اس پر عمران خان نے انکے بیان کی توثیق کرتے ہوۓ کہا "سیاسی قیادت ڈری ہوئی ہے اس لئے آرمی چیف کو بیان دینا پڑا۔
صورتحال یہ ہے کہ آج سے چار سال قبل تک تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمیعت العلمائے اسلام بار بار یہ کہتے تھے کہ مزھبی جنونیت کےخلاف جنگ ہماری نہیں، ہم پراۓ کی جنگ کیوں لڑیں، یہ امریکہ کی جنگ ہے اس میں ہم کیوں کودیں۔ وہ بار بار یہ بھی کہتے تھے کہ طالبان سے بات کرنے کی ضرورت ہے، ان سےمزاکرات کئے جائیں۔ میز پر بیٹھ کر معاملات طے ہو سکتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی نے تو اسلام آباد میں اس ایشو پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اھتمام کیا جس میں عابد منٹو کے ساتھ میں بھی شریک تھا اورعاصمہ جہانگیر بھی تھیں، اس کانفرنس میں تمام مزھبی جما عتیں بھی شریک تھیں۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ اتنے بڑے بڑے پیٹوں والے مولانا حضرات کو دیکھا تھا۔ عابد منٹو اور عاصمہ جہانگیر کے سوا تمام دیگر اس بات پر زور دے رھے تھے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات شروع کئے جائیں۔ جبکہ ان دونوں کو موقف تھا کہ مزاکرات نہ کریں بلکہ ریست کو مزھب سے علیحدہ کرنے کے اقدامات پر غور کریں
اگلےروز تمام اخبارات کی ھیڈ لائینز تھیں کہ 22 سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر طالبان کے ساتھ مزاکرات کرنے پر زور دیا۔ ھمارا تو حسب معمول کوئی زکر ہی نہ تھا۔
پھر مزاکرات کی کوششیں ہوئیں۔ مولویوں کو سرکاری ھیلی کاپٹرز پر ان "جانوروں" سے مزاکرات کے لئے بھیجا گیا۔ نتیجہ یہ نکالا کہ کچھ گرفتار طالبان خاموشی سے رھا کر دیۓ گئے ار ان جنونیوں کا اثرورسوخ مزید بڑھ گیا۔
ھمارا یہ موقف تھا کہ طالبان کوئی جمہوری طاقت نہیں، وہ بادشاھت اور خلافت چاھتے ہیں۔ یہ ایک نئی طرز کی فاشسٹ قوت ہے جو سیاسی مخالفین کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان سے ریاست تمام رشتے ناطے توڑے تعلقات منقطع کرے۔ ان کی سبسیڈیز بند کی جائیں، دھشت گردی کو سیاسی کور نہ دیا جائے۔ یہ امریکہ کی نہیں، ھماری جنگ ہے۔ یہ جنونی ھماری تہزیب، ثقافت، رسم ورواج، جمھوریت اور پہچان کو ختم کرنا چاھتے ہیں۔ یہ آپ کے بھی گلے پڑیں گے۔
مگر ھماری سنتا کون تھا؟ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ ہمیں تو یہ سیاسی طور پر چلا کارتوس سمجھتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ سوشلزم گیا اور سوشلسٹوں کو کوئی اھمیت ہی نہ دی جائے۔ ھمارے پرسپیکٹوز وقت اور حالات سرست ثابت کر رھے تھے۔ اور ہم ان کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات رکھتے جاتے تھے۔ ہمارا وقت خراب تھا، پیریڈ خراب تھا، اور ہے۔ رجعت پرست قوتیں چھائی ہوئی تھیں اور اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
مگر حکمران طبقات کو حالات کے تھپیڑوں نے کہیں کا کہیں پہنچا ریا ہے۔ یہی آرمی جرنیل ان مذھبی قوتوں کو اپنا کہتے تھے، سیکنڈ لائن دفاع سمجھتے تھے، پاکستان کے دفاع میں انہیں خاص اھمیت دیتے تھے۔ ان کو ہر طرح کی ریاستی سرپرستی حاصل تھی۔
جس طرح امریکی سامراج نے 9/11 کے بعد مزھبی جنونیوں اور دھشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائیں کیں یعنی جن کو انہوں نے پالا پوسا تھا ان کے خلاف ھی اب بم برسائے جا رھے تھے اسی طرح 16 دسمبر 2014 پشاور کے اندوھناک واقعہ کے بعد فوجی جرنیلوں کی اکثریت بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئی کہ ان کو مار ہی دینا بہتر ہے۔
مگر رشتے ناطے آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ جب 5اکتوبر 2016 کو روزنامہ ڈان نے سریل امیلڈا کی خصوصی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ سویلینز نے فوجی قیادت کو کہا کہ وہ جلد ان جنونیوں کے خلاف اقدامات کریں ورنہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکارھوجائے گا۔ اس نے مزید لکھا کہ اس اھم اجلاس میں شہباز شریف اور آئی ایس آئی کی چیف کے درمیان تلخی اس وقت ہو گئی جب شہباز شریف نے کہا کہ ہم ان دھشت گردوں کو پکڑتے ہیں اور یہ چھڑا کرلے جاتے ہیں۔ فوجی جرنیل اس وقت سخت سیخ پا ہوئے۔
پھر ڈان لیکس کا شور پڑ گیا اس بات پر زور نہیں دیا گیا کہ کیوں کچھ فوجی ادارے ان مزھبی جنونیوں سے تعلقات ختم نہیں کرتے بلکہ اس بات پر زور دیا گیا کہ ہماری باتیں باھر کیسےپہنچیں اور مسلم لیگی قیادت نے اپنے سب سےاچھے ترجمان پرویز رشید کو اس لئے قربانی کا بکرا بنادیاکہ فوجی ناراض نہ ہوں۔
اب تو پہلی دفعہ آرمی چیف نے یہ درست بات کہی کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ یہ بات ھم دھائیوں سے کہ رھے تھے کہ اج کا اھم ترین تضاد مزھبی جنونیت کا پھیلاؤ ہے۔ اس کو روکنے کی تدابیر کو اھمیت ہونی چاھیۓ۔ مگر ھمارے اپنے بائیں بازو کے ساتھی بھی کہتے تھے کہ یہ ریاست کے پٹھو ہیں ریاست جب چاھے انہیں کنٹرول کر لےگی۔ پہلی بات درست تھی کہ یہ ریاستی سطح پر پھلے پھولے مگر دوسری درست نہ تھی۔ وہ یہ بات سمجھ نہیں رھے تھے کہ یہ ان ریاستی کنٹرول سے باھر اپنی ایک سماجی طاقت رکھتے ہیں۔
جس جماعت دعوہ کے بارے میں یہ تاثر عام تھا اور کافی حد تک درست بھی تھا کہ اسے مسلم لیگی حمائیت حاصل ہے اور اس بات میں وزن بھی تھا۔ وہی مزھبی جنونی گروہ اب اپنی"ملی مسلم لیگ" بنا کر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ضمنی انتخاب میں حصہ لے کر "ن" کو اچھا خاصہ دھچکہ لگانے کی پوزیشن میں ہے۔
سیاسی اتار چڑھاؤ تیزی سے تبدیل ہو رھا ہے۔ فوجی اداروں کو بھی اب وہ ماضی والی یاریاں رکھنا مشکل ھوتا جا رھا ہے۔ سیاسی رشتے بھی تبدیل ہو رھے ہیں۔ مزھبی جنونیوں کے خلاف اب ریاستی صف بندی تبدیل ہو گی۔
امریکی مزھبی جنونی صدر ٹرمپ اب اپنی اصلی شکل دکھا رھا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف بھارت اور افغانستان کو ساتھ ملا کر "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" کے پرانے سامراجی فارمولے کی نئی شکل پر کام کر رھا ہے۔ اس کی باتوں کوایک طرف رکھتے ہوئے اور ان کی مکمل مزمت کرتے ہوئے یہ سوچنا ہو گا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ان جنونیوں کے ساتھ کام کیا جائے جو پاکستان میں رھی سہی جمھوریت کو بستر گول کرنے کے ساتھ ساتھ لال قلعہ پر بھی اپنا جھنڈا گاڑنا چاھتے ہیں جو چاھتے ہیں کہ ڈر، خوف اور دھشت پھیلی رھے، ھنگامہ خیزی جاری رھے۔ بم چلتے رھیں،خود کش دھماکے جاری رہیں۔
ظاہر ہے ایسا تو کوئی نہیں چاھتا۔ مگراس کے لئے راستہ تبدیل کرنا ہو گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔