مذہب کا چورن اور کچے ذہن
سوال ہے کہ چندوں، خیراتوں، صدقوں، اور زکاتوں پر پلنے والے مذہب کے نمائندگان جب بد زبانی اور اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کو دین کی خدمت قرار دیں گے، الٹی سیدھی دلیلیں دے کر خود کو اعلیٰ و ارفع مسلمان ثابت کریں گے تو کیا دنیا ان سے متاثر ہو گی؟ کیا کوئی معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی ان سے اسلام سیکھنا چاہے گا؟
میں کہتا ہوں کہ ایک عام مسلمان بھی جو تھوڑا بہت شعور رکھتا ہے ایسے جنونیوں کے قریب بھی بیٹھنا پسند نہیں کرے گا. تو یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک جہاں بڑے بڑے سائنسدان، ڈاکٹر اور انجینئرز موجود ہیں، وہ ان جیسے احمقوں کی بات بھی سنیں گے؟ بلکہ الٹا وہ ان پاگلوں کو دیکھ کر ہنسیں گے؟
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ہمارے آج کے بیشتر نوجوان جو اپنا فارغ وقت محض سوشل میڈیا، ٹاک شوز یا گیمز کھیلنے میں صرف کرتے ہیں، کتاب بینی کی عادت سے عاری ہیں، دین کی درست تعلیم اور مذاہب کی تاریخ سے یکسر نابلد ہیں، وہ کسی مذہبی نوعیت کی بحث کے دوران پیدا ہونے والے اختلاف سے جان چھڑانے کے لئے مخالف کو جھٹ قادیانی یا شیعہ کہہ کر ھاتھ جھاڑ دیتے ہیں. ان کی بھیجے میں یہ بات نہیں آتی کہ مختلف نظریہ رکھنے والا ہر شخص قادیانی یا شیعہ نہیں ہوتا.
قادیانی مسلم ہیں یا غیر مسلم، اس بحث سے قطع نظر، کبھی آپ نے غور کیا کہ مسلمانوں میں جو دیگر فرقے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے بلکہ بڑے دھڑلے سے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں. زرا غور کیجئیے کہ اس صورتحال میں قادیانی یا دوسرے غیر مسلم آپ کے فتاویٰ جات کو بھلا کیا اہمیت دیں گے.
ترقی یافتہ ممالک کے کافر حکمرانوں کو ہمارے مولویوں کی سوکھی بھڑکوں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہو گا؟
سوال یہ بھی ہے کہ آپ یہ کیسے طےکرو گے کہ کس کے سینے میں کتنی محبت رسول ہے؟ آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ لوگوں کے ایمان ماپتے پھرو؟ زرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے کہ آپ خود کتنے پانی میں ہیں. آپ کا اپنا کیا مقام و مرتبہ ہے اللہ اور رسول کے سامنے؟ کیا آپ پر وحی نازل ہوتی ہے؟
بعض نوجوان جاہل بزرگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور راہ چلتے کسی قاتل کو اسلام کا مجاہد سمجھ بیٹھتے ہیں جو کہ ایک خطرناک مغالطہ ہے. مثلاً ممتاز قادری کی ہی مثال لے لیجیے. سامنے کی بات ہے کہ وہ ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا جو شائد مولویوں کا طریقہ واردات بھی نہیں سمجھتا تھا. مختصر یہ کہ چند شدت پسند مولویوں نے سلمان تاثیر سے کسی پرانی پرخاش کا بدلہ لینے کے لئے جان بوجھ کر ممتاز قادری کو اس کے خلاف بھڑکایا اور آخر کار اس بے چارے کا برین واش کر کے اسے انتہا پسند بنا دیا.
جب اس نے طیش میں آ کر اپنے ہی محسن کا قتل کر دیا (حالانکہ اس کی ڈیوٹی ہی اپنے افسر کی حفاظت کرنا تھی) مگر وہ حقیقی اسلام کا درس بھلا کر اپنے فرائض کو پس پشت ڈالتے ہوئے قتل جیسا گھناؤنا جرم کر بیٹھا اور گرفتار ہو گیا. تب وہ تمام مولوی جنہوں نے اس غریب کو استعمال کیا تھا کمال ہوشیاری سے منظر سے ہٹ گئے اور پولیس کی تفتیش اور عدالت کے شکنجے سے بچنے کے لئیے عجیب و غریب تاویلات پیش کرنے لگے جبکہ دوسری جانب قادری کو مجاہد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے لگے. جب عدالت کی کاروائی کے دوران قادری کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ مولویوں نے اسے استعمال کیا ہے تو اس نے عدالت سے معافی کی درخواست کی لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی چنانچہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قاتل کو اس کے جرم کی سزا مل گئی. اسلامی قانون میں بھی قاتل کی سزا یقیناً موت ہے. عدالت نے یہ فیصلہ اس لئے بھی دیا تاکہ آئندہ مولویوں کے دھوکے میں آ کر کوئی جاہل شخص کسی دوسرے بے گناہ مسلمان کو کافر سمجھ کر قتل نہ کر بیٹھے .
سمجھنا چاہیے کہ اسلام فساد نہیں سکھاتا. ہمیں دنیا کو اسلام کا وہ اچھا چہرہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے جو چہرہ اللہ کا قرآن سکھاتا ہے اور جس اسلام کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق اسلام لے آئے تھے.
جہاں تک ختم نبوت کا معاملہ ہے تو فی الواقع یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہی نہیں کیونکہ آغازِ اسلام سے پوری دنیا میں مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اللہ کے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور ان کو آخری نبی ماننے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ ختم نبوت کا معاملہ پاکستانی مولویوں کا وہ ڈھونگ یا اسٹنٹ ہے جسے وہ سیاسی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں.
غور کیجیے کہ تمام اسلامی ممالک میں کوئی بھی شخص نہ اس کے متعلق کسی سے استفسار کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو مارنے یا شک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک سوچی سمجھی بات ہے کہ مسلمان وہی ہوتا ہے جو محمد صلعم کو رسول اور آخری نبی مانے.
جہاں تک احمدیوں یا قادیانیوں کا معاملہ ہے تو پاکستان کے قانون کے مطابق وہ پہلے ہی غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جا چکے ہیں.
قادیانی یا احمدی قانونی طور پر غیر مسلم ضرور ہیں لیکن وہ پاکستان کے شہری بھی ہیں چنانچہ دوسری اقلیتوں کی طرح ان کے شہری حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی زمہ داری ہے. مین اسٹریم کے باشعور مذہبی راہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں آگے بڑھ کر عوام و خواص کو یہ چیز سمجھائیں کہ اقلیتوں کے ساتھ صلہ رحمی کا طرز قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ہے
یاد رکھیے کہ اس ملک میں جب تک مذہب کا چورن ہاتھوں ہاتھ بکتا رہے گا امن کا قیام ناممکن رہے گا اور دنیا میں اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بنتا رہے گا چنانچہ انہیں پاکستانی شہری کی حیثیت سے ہی ڈیل کرنا ہے نہ کہ ہندوانہ ذات پات کی طرز پر انہیں اچھوت سمجھنا ہے ورنہ ہمارے اور بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ جو آئے دن معمولی باتوں پر اقلیتوں کا بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں.
ظاہر ہے کہ کسی کو اپنا مؤقف سمجھانے یا راغب کرنے کا بہترین طریقہ اچھا اخلاق ہی ہو سکتا ہے نہ کہ دھونس اور لعن طعن.
لہازا کسی پر خوامخواہ الزام تراشی کرنا یا شک کرنا سوائے حماقت کے کچھ نہیں. ویسے بھی دلوں کے بھید تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس نے جس سے نپٹنا ہو گا روزِ محشر خود ہی نمٹ لے گا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“