(Last Updated On: )
انسان دنیا کی مخلوقات کے لیے اجنبی ہے کیونکہ یہ کسی اور سیارے سے آیا ہے ۔یہ اجنبی جب پہلی بار اس اجنبی سرزمین پر آسمان کی کھڑکی سے نیچے پھینکا گیا تو اسے بقول اقبال کہا گیا :
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!
ساتھ ہی ” سیرو فی الارض” کا حکم دے کر اجنبی انسان کی جستجو کو مہمیز دے دی گئی۔تو صاحبو تب سے یہ اجنبی نئی دنیا کی جستجو کے سحر میں مبتلا شرق تاغرب کونہ کونہ چھان رہا ہے۔ سمندر کی تہوں اور آسمان کی وسعتوں کو ناپتا پھرتا ہے ۔مارکوپولو،ابن بطولہ اور ہیون سانگ تو ہم نے نصابوں میں پڑھے ہیں۔ ایک اجنبی نے سات سمندر پار امریکہ ڈھونڈ نکالا تھا اور کچھ اجنبی یوں محو سفر ہوئے کہ
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
مظہر اقبال مظہر رستہ نہیں بھولا، نہ اپنی مٹی کی خوشبوکو خود سے جدا کر سکا ۔وہ تو چولستان کی سرزمین روہی کی رنگینی سے موتی چن لایا جس روہی کے متعلق خواجہ غلام فرید نے فرمایاتھا :
روہی رنگ رنگیلڑی اے
مظہراقبال مظہر کی”بہاولپور میں اجنبی “دیدہ زیب رنگوں سے مزین سرورق لیے جاذب نظر کتاب ہے جسے چھونے سے لطافت ٹپکتی ہے ۔سرورق پر چولستان کے تپتے ریگزاروں پر چلتا مسافر،سرخ اینٹوں سے فن تعمیر کا نادر شاہکار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، قدیم تاریخی فرید گیٹ ، ایک خوبصورت سرسبزدرخت، اوپری حصہ پر نیلگوں فلک جہاں سرخ رنگ میں ” بہاولپور میں اجنبی ” رقم ہے ۔
سرورق پر نظر پڑتے ہی ریگستان میں ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں کی حدت مسافرت کا احساس دلاتی ہے ۔تصاویر سے بہاولپور کی تہذیبی روایت کے نقش لپکتے ہیں ۔زیریں حصہ میں زیر اہتمام پریس فار پیس فاونڈیشن (یو کے) تحریر ہے ۔سرورق پرکشش، جاذب نظر اور دلآویز ہے ۔120 صفحات کی اس کتاب کا سنہ اشاعت 2021ء ، مقام اشاعت لندن ،تزئین وآرائش سید ابرار گردیزی نے کی ہے۔جبکہ قیمت 500روپے اور تعداد اشاعت ایک ہزار ہے۔ملنے کا پتا پریس فار پیس فاونڈیشن لوہار بیلہ ،ڈھلی باغ آزادکشمیر ہے ۔کتاب کی تزئین وآرائش بہت محنت اور دلجمعی سے کی گئی ہے ۔کاغذ،ترتیب،تزئین، رنگ ، نفاست اورذوق کے آئینہ دار ہیں ۔ انتساب والدہ محترمہ اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے نام ہے۔کتاب 21 ابواب اور دو افسانوں پر مشتمل ہے ۔
ابتدائی صفحات میں ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی اور شمس رحمان کی آراء درج ہیں ۔ڈاکٹر نسترن نے کتاب کی صنف کے متعلق لکھا ہے: ” بلاشبہ بہاولپور میں اجنبی کو مکمل سوانح حیات کے زمرے میں نہیں رکھ سکتے۔مصنف خود بھی اسے ڈائری کا حصہ کہتے ہیں ۔اس کے باوجودیہ سفرنامہ قابل ستائش اور مابعد سفرنامہ نگاروں کے لیے لائق رشک ہے۔”
شمس رحمان مظہر اقبال مظہر کے زبان وبیان اور اسلوب کے متعلق رقمطراز ہیں :
“زبان وبیان میں اندر ہی اندر سرائیکی اور پہاڑی کی مٹھاس بھی بہتی محسوس ہوتی ہے ۔سرائیکی بولنے والے دوسرے لہجوں کو بھی گلے لگاتے ہیں ۔”
پیش لفظ میں جاوید خان انسانی ارتقا اور اسلامی الٰہیات پر روشنی ڈالتے ہوئے ماضی سے پیار پر سوالات اٹھاتے ہیں۔تجسس،شوق اور جستجو کی طرف انسان کی فطری کشش کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مظہر اقبال مظہر نے ” اپنا بندہ ” لکھ کر مجھ جیسے لاکھوں کشمیریوں کو احساس دلایا ہے کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو شناخت کے بغیر جی رہے ہیں ۔مظہر کا اندازبے تکلفانہ اورشوخی لیے ہے ۔”میرے ہم وطن کشمیری تو کسی سے اس وقت تک نہیں کھلتے جب تک یہ تسلی نہ کرلیں کہ وہ ” اپنا بندہ” ہے۔”
مظہر کا تعلیمی سفر راولاکوٹ،لاہور، بہاولپور سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ شناخت کے مسئلہ پر تراڑ میں پیدا ہوکر پونچھی شناخت کی میراث تقسیم ہونے پر دل فگار ہے تو دوسری طرف ہجرتوں کے مقتل میں شناخت ڈھونڈتا ،یادوں کے منقش مناظر دکھاتا وجود سے تعلق جوڑ لیتا ہے۔” انسان اپنے وجود سے ڈرتا ہے،ترس کھاتا ہے اور واپس فطرت کی طرف لوٹ جاتا ہے کیونکہ فطرت ہی وہ بنیاد ہے جو اسے خود کے تخلیق ہونے کا احساس دلاتی ہے۔”
“اپنا بندہ” میں کشمیری شناخت کی تلاش کا اسلوب دلکش ،پہلودار اور دل پر شگفتہ ضرب لگانے والا ہے ۔منقسم کشمیریوں کی منقسم سوچ کے زاویے چھوٹے چھوٹے جملوں سے عیاں ہیں۔صدیوں سے شناخت کی تلاش میں بھٹکے کشمیریوں کے احساسات کی عکاسی خوبصورت جملوں میں کی گئی ہے ۔لکھتے ہیں : “یورپ کے ملکوں تک رسائی رکھنے والے کئی سرپھرے اقوام متحدہ کے چکر لگانے لگتے ہیں کہ شاید اس معمے کا حل وہاں سے نکل آئے۔”
مصنف نے کتاب کو چھوٹے چھوٹے ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔” یہ بہاول پور ہے” اور “بہاول پور دیکھیں مگر کیسے”میں کراچی سے بہاول پور پہنچنے ،فندق الکوثر ہوٹل میں رہائش ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طریق امتحانات، اور بہاول پور کی سیروسیاحت کی پیش بندی کا دلکش احوال تحریر ہے ۔مصنف نےریاست بہاولپور کے نواب اور قائداعظم سے تعلق کا ذکر کیا ہے اسے چولستان اور قلعہ دراوڑ دیکھنے کا اشتیاق بے قرار کیے رکھتا ہے ۔مصنف کی ملاقات کشمیری طلبہ سے ہوتی ہے جن کی وساطت سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہاسٹل میں قیام کا موقع ملتا ہے ۔مصنف نے اپنے گرائیں ملخی محمدریاض خان کی شگفتہ طبیعت اور مزاج کے متعلق لکھا ہے:
“وہ تو اٹھتے بیٹھتے شکسپیئر کے مشہور کرداروں کے مونولاگ ایسے دہراتے تھے کہ مجھے لگتا تھا کہ اگر صحیح سلامت واپس راولاکوٹ واپس پہنچ گئے توکسی دن ایسے ہی خود کلامی کرتے ہوئے اپنے قریبی گاؤں ترنی (تراڑ) کی نکی (پہاڑی) سے چھلانگ لگا دیں گے۔”
شہرگردی براستہ فرید گیٹ میں شہر کے مرکزی علاقے کی سیر ،نواب محمد صادق خان پنجم کا تعارف،شہر کی گلیوں کی مٹرگشت، سنگتی ڈھونڈنے کے مشورے اور وہ سب مناظر جو ایک اجنبی کسی نئی جگہ دیکھتا ہے ، سادہ، دلچسپ اور رواں اسلوب میں تحریر ہیں ۔اجنبی کی رگ ظرافت جگہ جگہ پھڑکتی ہے ۔
شگفتہ جملے سفرنامے کا تجسس برقرار رکھتے ہیں۔”اندرون بہاولپور” میں بہاولپور کے عباسی نوابوں کے کارناموں کا تذکرہ،فن تعمیر،عمارات، سکول ،کالج،یونیورسٹی، ہسپتال، مساجد،بازاروں کا اجمالی نظارہ شامل ہے ۔” ٹانگہ لہور دا نہ جہنگ دا” میں تہذیبی روایت کریدتے مصنف مختلف شہروں کے ٹانگوں اور کوچوانوں کے تقابلی جائزے سے ان کی ثقافت اجاگر کرتا ہے ۔” سرائیکی زبان کی جلترنگ ” میں سرائیکی کی مٹھاس اور دیگر علاقائی زبانوں سے اس کا مشاہداتی تقابل دلکش انداز میں لکھا گیا ہے۔” مرکزی لائبریری اور میوزیم” میں صادق ریڈنگ لائبریری کی تاریخی اہمیت،میوزیم میں موجود عباسی خاندان کی تاریخی نوادرات، تصویریں گاڑیاں، اسلحہ کے مناظر دیکھائے گئے ہیں ۔” جامع مسجد الصادق” کی تاریخی اہمیت، نمازیوں کی گنجائش ،فن تعمیر،کی بیش بہا معلومات کے ساتھ حضرت نورمحمد مہاروی کے ہاتھوں سنگ بنیادکا تذکرہ دلچسپ انداز میں تحریر ہے ۔ یہاں اجنبی مصنف محقق کا روپ دھارے گلشن ابرار کے حوالے سے تاریخی تناظر واضح کرتا ہے۔” بہاول وکٹوریا ہسپتال اور قائداعظم میڈیکل کالج” کے تاریخی خدوخال مختصرا” بیان ہوئے ہیں مصنف کا نقطہ نظر اداروں کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے زیادہ توجہ کا طالب ہے تاہم مشرق و مغرب کے امتزاج میں نغمگی تلاش کرلیتا ہے۔
“یہ گلیاں یہ چوبارہ”میں دو صدیاں قبل کے باسیوں کے طرز بودو باش اور گلیوں بازاروں کے ناموں کی تہہ میں جھانک کر نوادر تلاش کیے گئے ہیں ۔” کشمیری ناک” میں بہاولپور کی سرزمین پر کشمیر کے رسیلے پھل ناخ سے کشمیر اور سرائیکی کا تعلق جڑ جاتا ہے ۔سرائیکی لہجے کی مٹھاس ،پہاڑی اور سرائیکی کا تعلق، اور یکسانیت پر سیر حاصل اور پرمغز معلومات باہم پہنچائی گئی ہیں۔
“ایہڈا نواب اور نواب آف بہاولپور، میں بہاولپور کی وجہ تسمیہ،عباسی خاندان کی آمد،دراوڑ اور چولستان،بہاولپور کی آباد کاری اور پہچان، نواب صادق محمد خان پنجم کے انگریز حکام سے برابری کے تعلقات، آب پاشی کا نظام،سکول، کالج ،یونیورسٹی،ہسپتال،لائبریری،ہائی کورٹ،دارالامان،یتیم خانے ،جیسے کارناموں سے آگہی دیتے ہیں ۔مصنف کا لب ولہجہ اور اسلوب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پونچھ کی کسی درمنی میں کسی چیڑ کے درخت تلے بیٹھے دوستوں سے خوش گپیاں کررہے ہوں ۔لکھتے ہیں: بہاولپور کی تاریخ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ نواب آف بہالپور کو ملنے والے القابات ہی دودرجن کے لگ بھگ تھے ۔ایک معصوم کشمیری جسے گھر کی مرغی کے انڈے گننے کے لیے بھی ہاتھوں کے ساتھ پاوں کی انگلیوں کا استعمال کرنا پڑے،اس کے لیے نوابی القابات کی فہرست یاد رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔”
مصنف نے نواب صادق محمد خان کے اختیارات،القابات،اعزازات اور خانگی حالات تک کا احاطہ شگفتگی اور روانی سے کیا ہے۔ “بہاولپور کا تہذیبی ورثہ” میں خواجہ غلام فرید ،شہر فرید، فرید خان لکھویرا بہاولپور کی تاریخ سے جڑے ملتے ہیں .بغداد کے تہذیبی ورثے کی منتقلی عباسی خاندان کے سر جاتی ہے جبکہ علمی وروحانی فیض بی بی جیوندی،خواجہ غلام فرید،خواجہ نورمحمد مہاروی، حضرت ملوک شاہ، لال شاہ بخاری،اور مخدوم جہانیاں جیسے صوفیا کی نسبت سے اس سرزمین کو عنایت ہوا۔مصنف نے اس شاندار تہذیبی روایت کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ ریاست اپنی شناخت کھو چکی ہے ۔
” مسئلہ شناخت کا” بہاولپور اور کشمیر کی ریاستوں کے شناخت کھونے میں یکسانیت مصنف کے نقطہ نظر سے معنی خیز ہے ۔یہاں سفر نامہ فکری مزاج اپنا لیتا ہے۔یہاں دونوں ریاستوں کی شناخت کی بازیابی کے لیے تگ ودو کےمباحث ملتے ہیں ۔
صبح صادق سے صبح کاذب میں ترقی سے تنزل اور اجالوں سے اندھیروں کے سفرکی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔مادر علمی جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں یونیورسٹی کی تاریخ مرقوم ہے۔سرائیکیوں اور کشمیریوں کا مقدر میں دونوں ریاستوں کے ادب میں سماجی ناہمواریوں،ناانصافیوں اور پسماندگی کے عناصر کا ذکر ہے۔بقول عاشق بزدار
بندے ویکھ کے روندن زندگی کوں
میکوں زندگی ویکھ کے رو پئی اے
“بہاولپور کا صوفیانہ رنگ” میں خواجہ غلام فرید کا مقام ومرتبہ بیان کیا گیا ہے۔ بغداد الجدید آخری باب ہے جس میں مصنف واپس رخت سفر باندھتا ہے۔”بہاولپور میں اجنبی” دلآویز اور پر اثر مرقع ہے ۔ایک پکچر گیلری ہے جس میں بہاولپور اور کشمیر کے رنگ جھلکتے ہیں۔قدیم اور جدید کا حسین امتزاج یکجا کردیاگیا ہے ۔ایک قوس قزح ہے جس کا ہر تاثر نیا،انداز منفرد اور فکر رنگا رنگی لیے ہے ۔آپ چاہیں تو مصنف کے ساتھ سفر کرتے کبھی تاریخ کی شاہانہ راہوں پہ خود کو نواب محسوس کرنے لگیں، کبھی شگفتہ چٹکلوں پہ لوٹ پوٹ ہو جائیں اور کبھی شناخت کے معنی خیز جملوں پر من میں جھانکنے لگیں۔
مظہر اقبال مظہر کا اسلوب سادہ ،رواں دلنشیں اور پرتاثیر ہے۔سفر کی یادداشتوں کو بہت عرصہ بعد کورونا لاک ڈاون کی ذہنی ہجرت میں بڑے سلیقے اور ہنر مندی سے بیان کیا ہے کہ قاری مصنف کے ساتھ ہر بدلتے منظرسے محظوظ ہوتا جاتا ہے۔سفرنامہ نگار عموما” جزئیات اور زباندانی سے منظر کشی کرتے ہیں ۔مظہر منظر پہ منظر دکھاتے چلے جاتے ہیں۔اس کتاب کی خوبی ہی فطری سادگی اور روانی ہے۔سفر میں مصنف کا مزاج کبھی کبھی نوابوں جیسا دکھائی دیتا ہے لیکن دوسرے منظر میں چچا کے خوبصورت چاقو سے ناخ کاٹ رہے ہوتے یا کسی بگو گوشے کی چوٹی پر رسیلے پھلوں سے جیبیں بھر رہے ہوتے ہیں ۔
“بہاول پور میں اجنبی” دوران سفر کی کیفیات کا دلکش منظرنامہ ہے۔جوچشم ظاہر سے چشم باطن تک کا سفر کراتا ہے۔اس میں اجنبی شہر کے اشخاص ،عمارات،اخلاق وعادات،مزاج ،کردار، زبان،کلچر، تہذیب، خیالات و مشاہدات غرض ہر منظر سے قاری کو ساتھ لیےلیے پھرتا ہے۔بہاولپور کے کل اور آج سے واقفیت دلاتا سفر عمیق مشاہدے اور فکری وسعت کا حامل ہے ۔موضوعات کے انتخاب اور مناظر کے تسلسل ،جملوں کی ترتیب ، الفاظ کے مناسب استعمال، سادہ انداز، شگفتہ لب ولہجہ اور موثر طرزادائیگی کی وجہ سے اس کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ابواب کا اختصار اور جامعیت اسے دلچسپ بناتے ہیں ۔اس میں موضوعاتی تنوع پایا جایا ہے۔ تاریخ،جغرافیہ،سیاست،تمدن،علم وادب، معاشرت عرض قاری ہر رنگ میں رنگا جاتا ہے ۔بہاولپور میں اجنبی کا مطالعہ کم وقت میں زیادہ معلومات سے علمی توسیع کرتا ہے فکری توانائی اور نظری بالیدگی سے ذہنی وسعت میں اضافہ کرتا ہے ۔تجربے اور مشاہدے
کو حقیقی صورتحال میں پیش کرکے مظہر اقبال مظہر قاری کو حیرت و تجسس میں ڈال دیتا ہے کہ کب وہ اڑ کر بہاولپور پہنچے اور چولستانی سرزمین کے رنگ دیکھے جو تہذیب وثقافت کا منفرد احساس لیے روہی کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں برسات سے زندگی لوٹ آتی ہے اور انسان اور جانور پانی کے ٹوبے پر پانی پینے جمع ہو جاتے ہیں ۔وہ روہی جس کے متعلق
ایک شعر میں خواجہ غلام فرید نے فرمایا
وچ روہی دے رہندیاں نازک نازوی جٹیاں
دھوئیں دار فقیر تھیو سے فخر وڈیائیاں سٹیاں
بہاولپور میں اجنبی کا مطالعہ کرتے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ سرائیکی اور کشمیری ہمدردی ،بھائی چارے اور سیاسی شعور میں ایک جیسے ہیں ۔
بجھتے ہوئے دلوں پہ چھڑکتے ہیں روشنی
روہی کے لوگ کتنے مسافر نواز ہیں
بہاولپور میں اجنبی کا مطالعہ کرتے نوابوں سے جڑی باتیں بار بار تاریخ میں لے جاتی رہیں ۔
علامہ اقبال نے نواب بہاول خان پنجم کی تخت نشینی کے موقع پر 1903 میں ایک قصیدہ لکھا تھا جو مخزن لاہور میں شائع ہوا ۔اس کے دو شعر اہل ذوق کے لیے:
بزم انجم میں ہے گر چھوٹا سا اک اختر زمیں
آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں
چومتی ہے دیکھنا جوش عقیدت کا کمال
پائے تخت یادگار عم پیغمبر زمیں
بہاولپور میں اجنبی میں دو افسانے بھی شامل کیے گئے ہیں ۔پہلا افسانہ ” دل مندر” اور دوسرا” دوبوند پانی” فکری اعتبار سے اعلی’ پائے کے ہیں ۔انسانی جذبات واحساسات کی عمدہ ترجمانی کی کئی ہے ۔بوبا عشق میں مبتلا ہوکر فنا فی العشق ہوجاتا ہے ماں بھی اسے واپس گھر لانے میں ناکام رہتی ہے اس کی واپسی کی آس پر امید بن کر اس کو خوشخبری سنانے کی کوشش میں عدم سدھار جاتی ہے۔وقت کا دھارا بدلتا ہے۔ماں بیٹے کی درگاہ پر خواہشات ، آرزوں اور امیدوں کے مارے نیازیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور بوبے کی آس توڑنے والا درگاہ کا مجاور و متولی بنا جھاڑو دیتا دکھائی دیتا ہے۔
افسانہ معیار اورپختگی کا مظہر ہے کہیں بھی جھول نظر نہیں آتی ۔
دوسرا افسانہ” دو بوند پانی ” تھر کی دھرتی پر بلکتے انسانوں کا نوحہ ہے جہاں پانی کی پیاس موت بن کر ہر گھر میں جھانکتی رہتی ہے ۔یہ افسانہ غربت اور بے حسی کی عکاسی کرتا ہے ۔
دونوں افسانے بہترین انداز اور اسلوب کے حامل ہیں ۔ صحرائی زندگی میں انسانی جذبات واحساسات کا خوب احاطہ کیا گیا ہے۔افسانوں اور سفرنامے کا تال میل بھی کشمیریوں اور سرائیکیوں کی طرح شناخت کی تلاش میں ہے۔