آج – 30؍جنوری 2012
نئی غزل کے اہم شاعروں میں شمار، ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف شاعر ” مظہرؔ امام صاحب “ کا یومِ وفات…
مظہرؔ امام کی ایک خاص پہچان ان کے تجربہ پسند تخلیقی مزاج کی وجہ سے قائم ہوئی۔ انہوں نے غزل کے فارم اور ہیئت میں کئی طرح کی تبدیلیوں کے مشورے دئے اور نئی ہیئتی صورت میں غزلیں بھی کہیں۔ مظہر امام کی آزاد غزل کہنے کی شروعات اگرچہ بہت آگے نہ بڑھ سکی لیکن اس سے ان کے زرخیز تخلیقی ذہن کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے۔
شاعری کے علاوہ مظہر امام نے تنقید بھی لکھی۔ ان کے تنقیدی مضامین ’آتی جاتی لہریں‘ اور ’ایک لہر آتی ہوئی‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ مظہر امام کی تنقید نظریوں اور تحریکوں کے اثر سے آزاد ایک سوچتے ہوئے ذہن کا شاندار نمونہ ہے۔ مظہر امام، مونگیر بہار میں ١٢ مارچ ١٩٢٨ء کو پیدا ہوئے تھے۔ مگدھ وشوودیالیہ سے اردو اور بہار وشوودیالیہ سے فارسی میں ایم اے کیا۔ 1951ء میں کلکتہ کے ایک روزنامے میں کام کیا اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں تین دہائیوں تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ٣٠؍جنوری ٢٠١٢ء کو انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
مشہور شاعر مظہرؔ امام کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے
میں وہی ہوں کہ جسے آپ نے چاہا تھا کبھی
—
یہ نہ کہنا کہ اندھیرا ہے بہت راہوں میں
اس سے ملنا تو ہتھیلی پہ قمر رکھ دینا
—
میرا فن میری غزل تیرا اشارا تو نہیں
حسن تیرا اسی پردے میں خود آرا تو نہیں
—
بھرا ہوا تری یادوں کا جام کتنا تھا
سحر کے وقت تقاضائے شام کتنا تھا
—
کیوں لوگ مزاروں پہ دعا مانگ رہے تھے
مجھ پر کسی آسیب کا سایہ بھی نہیں تھا
—
جس سے کترا کے نکلتے رہے برسوں سرِ راہ
اس سے کل ہاتھ ملایا تو وہ اپنا نکلا
—
میرے دشمن کے دل میں جو برسوں سے ہے
وہ خلا بھی میں اک روز بھر جاؤں گا
—
عجیب واقعہ تھا اس کو اپنے گھر لانا
کبھی چراغ اٹھانا کبھی قمر لانا
—
وہ آنکھ میری تھی جو اس کے سامنے نم تھی
خموش وہ تھا کہ یومِ نشور میرا تھا
—
نہ ہم نوا مرے ذوقِ خرام کا نکلا
یہ راستہ بھی اسی نرم گام کا نکلا
—
کوئی سنے نہ سنے عرضِ حال کرتا جا
نہ رک جواب کی خاطر سوال کرتا جا
—
اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
زندگی میری طرف دیکھ کہ میں آیا ہوں
—
میں ستارے کی طرح وقت پہ ہوتا ہوں غروب
شب ترا ساتھ رہا اب میں سویرا ہو جاؤں
—
رخصتِ شام ہے اور وعدے کا سایہ بھی نہیں
اب تکلف نہ کروں جا کے تقاضا ہو جاؤں
—
ٹوٹی ہوئی دیوار کا سایہ تو نہیں ہوں
میں تیرا ہی بھولا ہوا وعدہ تو نہیں ہوں
—
ہے اس کا ساتھ تو لب پر یہی دعا ہے کہ پھر
نہ آئے اور کوئی زندگی کے رستے میں
—
آج خود حسن کو دیکھا ہے سر کوچۂ عشق
دیکھیں آغاز کوئی تازہ روایت ہی نہ ہو
—
جاوداں قرب کے لمحات ہوئے ہیں مظہرؔ
طائرِ وقت کی بے بال و پری تو دیکھو
—
پھر آپ نے دیکھا ہے محبت کی نظر سے
گزرے نہ کہیں گردشِ دوراں بھی ادھر سے
—
دنیا کا یہ اعزاز یہ انعام بہت ہے
مجھ پر ترے اکرام کا الزام بہت ہے
—
دلوں کے رنگ عجب رابطہ ہے کتنی دیر
وہ آشنا ہے مگر آشنا ہے کتنی دیر
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
مظہرؔ امام
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ