مظہر علی خان کی کہانی
ایک زمانہ تھا جب صحافی بہت ایماندار ،بہادر اور انقلابی ہوا کرتے تھے ۔ساری انسانیت ان پر یقین کیا کرتی تھی ۔ایسے صحافی کسی سے ڈرتے تھے اور نہ ہی کسی کے خلاف گھٹیا پرپروپگنڈہ کرتے تھے ۔جبر کے دور میں بھی سچ بولنے سے نہیں ڈرتے تھے ۔ایسے صحافی اب کہاں۔مظہر علی خان بھی ان عظیم صحافیوں میں سے ایک ہیں ۔مظہر علی خان ایک پروفیشنل اور انتہائی قابل صحافی تھے ۔وہ ایسے ایماندار صحافی تھے جو کبھی بھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے ۔شاید صحافیوں کی اس نسل کا خاتمہ ہوگیا جنہوں نے ہمیشہ سچ اور انسانیت کا ساتھ دیا ۔مظہر علی خان طاہرہ مظہر علی خان کے شوہر تھے ۔ان کا ایک بیٹا ہے ،جن کا نام طارق علی ہے ۔ان کا ایک اخبار بھی تھا جس کا نام ویو پوئنٹ تھا ،وہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔مظہر علی خان ایک زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے ۔پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں مظہر علی خان کا شمار ایسے صحافیوں میں کیا جاتا ہے ،جن پر صحافی اور صحافت فخر کرتے ہیں ۔ان کا تعلق بظاہر ایک ایلیٹ فیملی سے تھا ۔وہ 6 جون 1917 کو پیدا ہوئے ۔نواب مظفر علی خان ان کے والد تھے ۔نواب مظفر علی خان پنجاب کے وزیر اعلی سر سکندر حیات کے کزن تھے ۔انیس سو سترہ وہ سال ہے جب روس میں انقلاب برپا ہواتھا ۔شاید اسی وجہ سے مظہر علی خان پر زندگی بھر لیفٹ کا رحجان غالب رہا ۔ایسا انسان جس کا تعلق اشرافیہ فیملی سے تھا ،وہ روحانی حوالے سے ہمیشہ مارکسٹ رہا ۔کہا جاتا ہے کہ مظہر علی خان نے اپنی خاندانی زمین کے ہاریوں کو مارکسٹ بنانے کا کام شروع کیا ۔طاہرہ مظہر علی خان سر سکندر حیات کی صاحبزادی ہیں ۔انیس سو بیالیس میں مظہر علی خان اور طاہرہ کی شادی ہوئی ۔سر سکندر حیات تو اپنی بیٹی کی شادی دولتانہ فیملی میں کرنا چاہتے تھے ،لیکن طاہرہ نے دولتانہ فیملی میں شادی کرنے سے انکار کردیا ۔انہوں نے کہا کہ وہ تو مظہر علی خان سے شادی کریں گی ۔سر سکندر حیات بیٹی کی ضد کے سامنے ہار مان گئے اور اس طرح ان دونوں کی شادی ہو گئی ۔طاہرہ مظہر علی خان بھی ایک منفرد اور کمال کی انسان ہیں ،سر سکندر حیات جیسے جاگیردار کی بیٹی ہونے کے باجود وہ پہلی خاتون ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ رکن بنیں ۔طاہرہ کا تعلق لیفٹ ونگ سے ہے ۔ایک رہنما تھے جن کا نام میاں افتخار الدین تھا ،انیس سو چھیالیس میں انہوں نے پروگریسو پیپر لیمیٹڈ کی بنیاد رکھی ،انہوں نے مظہر علی خان سے رابط کیا ،کہا کہ وہ ان کے اخبار کو جوائن کر لیں ،اس طرح مظہر علی خان صحافی بن گئے ۔انیس سو چھیالیس میں پروگریسو پیپر لیمیٹڈ نے پاکستان ٹائمز نکالا ۔فیض احمد فیض اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔مظہر علی خان نے بطور نیوزایڈیٹر زمہ داریاں سنبھال لیں ۔اس کے بعد انیس سو سنتالیس میں پاکستان بن گیا ،پاکستان ٹائمز اس زمانے میں سب سے بڑا اخبار تھا ،جس کا بڑا نام تھا ۔اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ پاکستان بننے کے تین سال بعد راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جبر کا نشانہ بنے ،انہیں گرفتار کرکے جیل بند کردیا گیا ۔اس طرح مظہر علی خان فیض کی جگہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بن گئے ۔انیس سو پچپن میں فیض صاحب جیل سے رہا ہوئے ۔اس طرح فیض پھر پاکستان ٹائمز کا ھصہ بن گئے ۔لیکن ایڈیٹر کی زمہ داریاں پھر بھی مظہر علی خان سرانجام دیتے رہے ۔1959 میں ایوبی مارشل لاٗ کا نفاز ہو گیا ۔پروگریسو پیپر لیمیٹڈ کو قومیا لیا گیا ،پاکستان ٹائمز کو بند کردیا گیا ۔مظہر علی خان کو کہا گیا کہ پاکستان ٹائمز کو وہ رن کرسکتے ہیں ،لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں آمر ایوب خان کے لئے کام کرنا ہوگا ،مظہر علی خان نے استعفی دے دیا اور کہا کہ وہ مارشل لاٗ حکومت کے ساتھ کام نہیں کرسکتے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نظریاتی طور پر لیفٹسٹ اور مارکسٹ ہیں ،یہ ان کا نظریاتی مسئلہ ہے ،اسی وجہ سے وہ مارشل لاٗ کے حق میں بطور صحافی کام نہیں کرسکتے ۔پھر کیا تھا مظہر علی خان جیسا عظیم صحافی اگلے سولہ برس تک بے روزگار رہا ۔اس عرصے میں انہیں کوئی کام کی نوکرینہ مل سکی ۔ادھر بیوی خود ایک کمیونسٹ اور لیفٹسٹ تھی ،خواتین کے لئے بھی کام کررہی تھی ۔لیکن میاں بیوی نے صبر و تحمل سے کام کیا ۔اسی زمانے میں ڈاکٹر کمال حسین جو بعد میں بنگلہ دیش کے وزیر اعلی بنے ،انہوں نے ہفت روزہ بنگالی فورم نکالا ،مظہر علی خان اس ہفتہ روزہ بنگالی فورم کے لئے لکھتے رہے ۔اسی زمانے میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف گوہر بھٹو صاحب کی حکومت میں گرفتار کر لئے گئے ۔اس طرح مظہر علی خان ڈان اخبار کے ایڈیٹر بن گئے ۔اس کے بعد معاملات چلتے رہے ،انیس سو پچھتر میں مظہر علی خان نے اپنا رسالہ نکالا ،جس کا نام ویو پوئنٹ تھا ۔ویو پوئنٹ ترقی پسند اور لیفٹسٹ سوچ کا ترجمان تھا ۔اس رسالے کی عالمی اہمیت بن گئی ۔لیکن بدقسمتی سے اسی زمانے میں جنرل ضیاٗ نے بزور طاقت مارشل نافذ کردیا ۔ویو پوئنٹ کے ایڈیٹر مظہر علی خان کو گرفتار کر لیا گیا ۔کچھ عرصے کے لئے رہا ہوئے تو انہیں دوبارہ ایک سازش کے تحت انیس سو اکاسی میں پھر گرفتار کر لیا گیا ۔مظہر علی خان کے مالی حالات اس زمانے میں بہت بدترین ہو چکے تھے ،انہوں نے اپنا بہت بڑا گھر بیچ دیا اور چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے لگے ۔جو گھر بیچا تھا ،اسی سے ویو پوئنٹ کو چلانے کی کوشش کی ۔اسی زمانے میں سنسرشپ کی پابندیاں بھگتی ،جیل گئے ،جیل میں تشدد برداشت کیا ۔1992 میں پیسوں کی کمی کے باعث ویو پوئنٹ کو بند کردیا گیا ۔ویو پوئنٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ بہت دلبرداشتہ تھے ۔28 جنوری 1993 کو ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گئے ۔یہ تھے مظہر علی خان جنہوں نے اپنی ساری زندگی حق ،سچ اور ترقی پسند سوچ کے لئے کام کیا ۔مظہر علی خان ،فیض احمد فیض اور اس طرح کے صحافیوں کی اس زمانے میں سیاستدانوں سے زیادہ عزت تھی ،اس زمانے میں عوام صحافیوں کو بہت عزت دیتے تھے ۔مشرقی پاکستان کا استحصال ہو یا آمریت کی غلاظتیں ،یا امریکی سامراجیت ،اس طرح کے صحافیوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ۔لاٹھیاں اور مارکٹائی برداشت کی ،لیکن ہمیشہ حق کے ساتھ رہے ،اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان کے صحافی ہی حقیقت میں قوم کا ضمیر ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جس رات مظہر علی خان کو دل کا دورہ پڑا،اسی رات انہوں نے اپنی بیوی طاہرہ مظہر علی خان کو کہا کہ ڈان کے ایڈیٹر کو فون کردو کہ وہ شاید صبح اپنا کالم نہیں بھیج سکیں گے ۔یہ تھے وہ صحافی جن کی وجہ سے آج بھی صحافت کی عزت کرنے کو دل کرتا ہے ۔آج کی صحافت اور صحافیوں کی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے کہ کس طرح جھوٹ اور منافقت کا پرچار کیا جارہا ہے ۔چاروں اطراف ایسے صحافیوں کا جھمگھٹہ جو جھوٹ اور لوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ،جو پیسوں اور دولت کی خاطر جمہوریت کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ایک طرف ڈاکٹر شاہد مسعود ،اوریا مقبول جان ،صالح ظافر اور عرفان صدیقی ہیں اور دوسری طرف مبشر لقمان جیسے صحافیوں کا راج ہے ۔آج کیا کوئی ایسا صحافی ہے جو مظہر علی خان یا فیض احمد فیض جیسا ہو ۔صحافت آج طاقتور حلقوں کے تلوے چاٹ رہی ہے ۔اخباروں اور میڈیا ہاوسز میں کوئی بھی ایسا صحافی ہے جو مظہر علی خان جیسا ہو ۔آج قوم کا ہر باضمیر انسان صحافت اور صحافیوں کو گالیاں دے رہا ہے۔جب مظہر علی خان جیسے صحافی تھے تو صحافت پر ناز کیا جاتا تھا ۔b
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔