لاہور میں لبرٹی کے سامنے پراٹھوں کی دکانوں کی ایک قطار ہے۔ کراچی، نیو کراچی، اصلی کراچی، سلور سپون کراچی اور پتا نہیں کیا کیا کراچی۔ جونہی آپ پھولوں کی دکانوں سے موڑ مڑتے ہیں، نیم بے روزگار، پھٹے حال، پسینے میں شرابور لڑکوں کا ایک سیلاب اُمڈ آتا ہے۔ آپ اُنھیں پیچھے ہٹنے کا کہنے کے لیے شیشہ ذرا سا کھولیں تو دو تین مینیو کارڈز اندر سرکا دیے جاتے ہیں اور آوازیں آتی ہیں: بس یہ مینیو کارڈ ڈیش بورڈ کے آگے رکھ لیں، کوئی تنگ نہیں کرے گا۔ پھر وہ ایک دوسرے کو دھتکارنے، دھکے دینے، دھکیلنے اور نقلی قرار دینے لگتے ہیں۔
غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے یہ نوجوان اپنے احساسِ بے روزگاری سے آپ کو احساس جرم میں مبتلا کرتے ہیں۔ آپ کو یاد آتا ہے کہ کیسے آپ شان سے مکڈونلڈ میں جا کر اے سی والے ہال میں بیٹھتے ہیں، سخت سی کرسیوں پر جو زیادہ دیر نہ بیٹھنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
وہاں آپ لائن میں لگتے اور اچھے سلجھے ہوئے بچوں کی طرح پیسے ادا کرتے ہیں اور پھر آرام سے اپنے ٹوکن کے نمبر کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر کیچپ مانگی جائے تو مکڈونلڈی لڑکا بتاتا ہے کہ جا کر وہاں سے لے لیں۔ آپ چوتھی کلاس کے بچے کی طرح فوراً باادب انداز میں تعمیل کرتے اور بڑی تمیز سے کیچپ لاتے ہیں۔
پسینے میں شرابور، پان تھوکتے ہوئے، گریبان کے ٹوٹے بٹنوں والے، ہفتہ بازار والی دو تین سو کی چپلیں پہنے بھاگتے ہوئے اِن لڑکوں کی دنیا ہی اور ہے۔ ان کا راز بھی چٹنی ہے جس کا فارمولا اسم اعظم کی طرح چھپایا جاتا ہے۔ اردو بازار کے ڈوگر سنز، ڈوگر برادرز، ڈوگر اینڈ ڈوگر وغیرہ اور مسلم لیگ ق، ن، ف وغیرہ کی طرح یہ سب بھی خود کو اصلی اور سب سے پرانا قرار دیتے ہیں۔
چار پانچ دن پہلے بڑی تگ و دو اور تجربے کی روشنی میں جو ویٹر ہمارے حصے میں آیا وہ ٹیبل صاف کرتے ہوئے بار بار کہتا رہا: مولا خوش رکھے، آل نبی کا صدقہ ہے سب، چائے پسند آئی؟ پراٹھا ٹھیک تھا؟ ہر دفعہ بلائے جانے پر وہ کوئی ایسا جملہ ضرور بولتا کہ اُس کے عقیدے میں کوئی شک نہ رہے۔ مجھے نہ اُس پر پیار آیا نہ غصہ۔ لیکن سوچ رہا تھا کہ کوئی سلفی سنی گاہک آگیا تو اِس کی سرزنش بھی کرے گا اور شاید اِس سے پراٹھا چائے بھی نہ منگوانا چاہے۔ اگر یہ بار بار اعلان کر رہا ہے تو دوسرے دھڑے والے بھی بار بار اعلان کرنا چاہتے ہیں۔
بہرحال ہم نے شیعہ پراٹھے کھائے، شیعہ چائے پی، شیعہ ویٹر کو سلامی دی اور اُس لڑکے کو ڈھونڈا جس کی ٹانگ بمپر سے ہلکی سی ٹکرائی تھی تاکہ اُسے ایک دو سو روپے دے سکیں۔ مگر وہ کئی اور گاڑیوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
تہذیب کی کہانی کی بجائے ان پوسٹوں کی وجہ سے قارئین کی توجہ تھوڑی بٹ گئی ہے۔ مگر اب کتاب کی آمد آمد ہے تو ایک ہی بار لگاؤں گا۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...