انسانی تاریخ سیاست ، قومیت ، نسل اور خاص طور پر مذہب کے نام پر خون ،فساد اور قتل و غارت گری سے بھری پڑی ھے ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر کنعان ( بیت المقدس) کی طرف آئے تو انہیں کہا گیا کہ ” ان بستیوں میں کسی ذی روح کو زندہ نہ چھوڑیں ، یعنی چرند پرند ، جانور ، بچے بوڑھے عورتیں ۔ مرد ۔۔ اور انہوں نے یہی کیا۔
پہلی تین صدیوں میں یہودیوں اور رومیوں نے ایسے بہیمانہ مظالم مسیحیوں پر کیے کہ انسانیت کانپ اٹھی ۔
یوروپ کی مذہبی تاریخ وحشت و بربریت سے بھری پڑی ھے ، کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ نے ایکدوسرے کے خون کی ندیاں بہائیں ۔ بے رحمانہ طریقوں سے اپنے مخالفین کو اذیتیں دی جاتیں ، جو بیان کے قابل نہیں ۔ لندن اور یوروپ کے بعض عجائب گھروں میں یہ آلات محفوظ ہیں ، جن کو دیکھ کر جھر جھری آ جاتی ھے۔
قریش مکہ نے تیرہ سال تک مسلمانوں پر ہر طریقے سے تشدد کیا ، جن کی تفصیلات پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے , مخالفین اسلام مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ طاقت پکڑنے کے بعد انہوں نے قتال کیا ، یہاں تک کے آپس میں بھی خونریز جنگیں لڑی گئیں جن میں دونوں طرف سے دسیوں ہزار مسلمان قتل ہوئے۔
ھلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا اتنا قتال کیا کہ فرات کا پانی سرخ ہو گیا ، بغداد کے چوراہوں پر انسانی سروں کے مینار بنائے گئے ۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں قوموں نے ایک دوسرے پر وہ وہ مظالم ڈھائے کہ لفظ درندگی بھی ان مظالم کی شدت کا مفہوم ادا نہیں کر سکتا۔
موجودہ یوروپ کے ترقی یافتہ ملکوں نے مذہبی ،قومی ، علاقائی ، نسلی ، نظریاتی اور توسیع پسندانہ مقاصد کے حصول کے لیے سینکڑوں سال ایکدوسرے کا خون بہانے ( جس کی انتہا دوسری جنگ عظیم تھی ) کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ لی کہ جنگ و جدال اور قتل وغارت گری انسانی مسائل کا حل نہیں بلکہ انسانی المیوں میں اضافے کا سبب ہے ۔ اور یہ کہ ایسے معاشرے جہاں کثیر النظریاتی لوگ رہتے ہوں وہاں کسی ایک سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، یا مذہبی نظرئیے کو بزور طاقت نافذ کرنے سے کبھی امن و سکون اور خوشحالی ، نہیں آ سکتی ۔ ( روس کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں کمیونزم کی ناکامی کی ایک وجہ زبردستی ٹھونسے جانے والے نظریات بھی تھے)
پچھلی دو تین صدیوں میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص یوروپ میں مختلف علمی ، ادبی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی تحریکوں کے نتیجے میں شخصی آذادی کا سنہرا دور شروع ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یوروپ نے یہ سیکھا کہ نسلی ، قومی ، مذہبی ، لسانی اور دیگر تعصبات تباہی و بربادی کے سوا معاشرے کو کچھ نہیں دیتے ۔ خصوصا” مذہبی تعصب جس نے سینکڑوں سال تک یوروپ کو خون میں نہلائے رکھا ، اس کو ریاستی معاملات سے بالکل الگ کر دیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں امن و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ ریاست ہر شہری کے لیئے ماں جیسی بنی ۔ تعلیم ، صحت اور دیگر معاملات میں ریاست بلا تفریق رنگ و مذہب ہر فرد کے لیئے یکساں سہولیات دینے کی قانونا” پابند ہے یعنی ریاست کی نظر میں سب انسان برابر کے شہری ہیں اور مساوی حقوق رکھتے ہیں ،کسی پر کوئی جبر نہین ۔ ایک کیتھولک آذاد ہے کہ اپنے چرچ میں جائے اسی طرح دیگر کرسچین فرقے ، مسلمان ، ھندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے چرچز ، مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے کے لیئے آذاد ہیں ۔ کوئی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا ۔ بظاہر ریاست کے ذمہ داران کرسچین ہیں مگر وہ کسی کو مردود ، ملعون یا کافر نہیں کہہ سکتے ۔
ہر قسم کا تعصب جرم ہے خواہ کسی کی طرف سے بھی ہو ۔ اس سب کے نتیجے میں بالعموم یہاں کا معاشرہ امن کا گہوارہ ہے اور خوشحالی کا دور دورہ ہے ۔
پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت نے محض اس لیے کیا تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی عددی اور سیاسی برتری سے خائف تھی۔ اس وقت کی تمام مذہبی جماعتوں نے ہندوستان کی تقسیم کی پرزور مخالفت کی تھی ۔ کیونکہ برٹش انڈیا میں انہیں مثالی مذہبی آزادی حاصل تھی۔
جناح صاحب سمیت مسلم لیگ کے تمام لیڈر سیکولر ذھن رکھنے والے سیاسی لوگ تھے۔ جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں ایک راہ عمل متعین کر دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔
” آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں مسجدوں اور مندروں میں جانے کے لیے ، آپ کا مذہب کیا ہے ، ذات کیا ہے اور قوم کیا ہے اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔”
جناح صاحب نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو جب کہ وزیر خارجہ ایک احمدی سر محمد ظفر اللہ خان کو مقرر کیا۔
مگر جناح صاحب کی وفات کے بعد بہت تیزی سے ریاست پر وہ مذہبی عناصر غالب آتے چلے گئے جو جناح( قائد اعظم) کو کافر اعظم کہتے تھے۔
پھر پاکستان میں مذہبی ، گروہی ، صوبائی اور فرقہ وارانہ نفرت اور تعصب کا ایک دور شروع ہوا ۔ جسے حکومتوں نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی کسی کو کافر یا گستاخ رسول کہہ کر مار دے ۔ تو ریاست بھی اس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔
ہندوستان میں بھی موجودہ حالات بہت دگر گوں ہیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر غالب آتے جا رہے ہیں اور پاکستان کی طرح اقلیتی فرقوں پر ظالمانہ قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاک و ہند میں رہنے والے یوروپ اور اپنی خونی تاریخ سے سیکھتے ہوئے کینیڈا ، آسٹریلیا ، برطانیہ یا یوروپی یونین کی طرز پر فلاحی ریاستوں کے نظام کی طرف بڑھتے ہیں یا ابھی مزید عرصہ دراز اپنی نسلوں کو مذھبی ، قومی ، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بھینٹ چڑھائے رکھتے ہیں ۔
یاد رکھیں برصغیر میں فرقہ وارانہ نفرت اور تعصب کو حکومتیں یا مقتدر قوتیں عوام الناس کی توجہ ان کے بنیادی حقوق سے ہٹانے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
عوام الناس کو مذہب کے نام پر خوب بیوقوف بنایا گیا ہے ۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایک پوری نسل انتہا پسند بن چکی ہے۔ جو ناموس مذہب پر تو سڑکیں بلاک کر کے بیٹھ جاتی ہے مگر مظلوم انسانوں کے قتل پر کوئی احتجاج نہیں کرتی۔
افسوس۔۔۔۔
جس معاشرے میں ایک انسان بلا تفریق رنگ ، نسل ، قومیت ، مذہب یا فرقے کے بطور شہری مساوی حقوق نہیں رکھتا اور حکومت وقت اس کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت ایک ماں کی طرح نہیں کرتی ۔ وہ انتشار ، خلفشار اور فساد کا شکار رہتا ہے۔ وہاں آئے روز سانحات جنم لیتے ہیں۔
آپ نے جس فرقے ، مذہب یا قومیت میں جنم لیا ہے اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ قدرت کا فیصلہ تھا۔
بالکل اسی طرح اگر کوئی دوسرا انسان ایک دوسرے فرقے ، مذہب یا قومیت میں جنم لیتا ہے ، تو اس میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
بلا تفریق رنگ و نسل اور فرقہ و مذہب ہر انسان محترم ہونا چاہیے ۔
پاک و ہند کے ادباء و شعراء اور باشعور انسانوں کو ہر قسم کے ظلم اور نفرت و تعصب کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...