مذہبی انتہا پسندی ، فنون لطیفہ اور کثیرالجہتی
(اطالوی اداکارہ جینا لولو بریجیڈا پر ایک نوٹ )
ہم جب بھی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی بات کرتے ہیں تو ہماری انگلی سیدھی ضیاءالحق کی طرف اٹھتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضیاءالحق کی آمریت چھاتے ہی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی نے ایک نئی شکل اختیار کی اور ہم سب اس کا خمیازہ اب تک بھگت رہے ہیں لیکن ’ مُلا ‘ تو سن 1947 ء میں قائم ہونے والے پاکستان کے وقت سے ہی اس ملک کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، جو اس وقت کُل چھ تھیں ، پر پہلے روز سے اپنا دباﺅ ڈالتا رہا ہے اور اس کے لئے فرقہ وارانہ فسادات بھی کراتا رہا ہے ۔ اس کی تفصیل ویسے تو خاصی طویل ہے لیکن دیگ کے ایک دانے کی طرح سن 1953 ء کے لاہور کو ہی لے لیں جب ’ مُلا‘ مجلس عمل نے حکومت پاکستان کو یہ الٹی میٹم دیا تھا کہ ؛
ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے ،
تمام احمدی افراد کو سرکاری ملازمت سے فارغ کیا جائے اور
احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے اور
اگر ایسا نہ کیا گیا تو’ مجلس عمل‘ راست اقدام کرے گی ۔
حکومت نے اس الٹی میٹم کو رد کیا تھا اورمُلاﺅں کی اس” مجلس عمل“ نے لاہور کے گلی کوچوں اور پنجاب میں خون کی ندیاں بہانا شروع کر دیں تھیں ۔ اس دباﺅ نے اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ لاہور شہر کا نظم و نسق فوج کے حوالے کر دے ۔ بات یہیں پر نہیں رُکی تھی ، حالات کو قابو میں لانے کے لئے جنرل اعظم خان کو 6 مارچ 1953 ء کو مارشل لاء لگانا پڑ گیا تھا جو 69 دنوں تک لاگو رہا تھا ۔ 23 فروری تا مارشل لاء کے اٹھائے جانے تک لگ بھگ ایک ہزار احمدی ( مختلف اندازوں کا اوسط ) کے علاوہ لگ بھگ سو دیگر ، جن میں چار فوجی بھی شامل تھے ، افراد مارے گئے تھے ( جب ملاﺅں نے یہ فساد کھڑا کیا تھا تومیں ابھی اپنی ماں کے بطن میں آنول سے بندھا تھا ) ۔
یل برائنر اور جینا لولو بریجیڈا کی فلم ' سالومن اورشیبا ' (Solomon and Shebaa) کی لاہور میں نمائش کے حقوق ریگل سینما کو چلانے والوں نے حاصل کئے تھے اوراس کے سائن بورڈ اس سینما کے پچھواڑے سائیکل سٹینڈ کے پاس تیار ہو رہے تھے ۔ جو لوگ لاہور کے ریگل سینما سے واقف ہیں انہیں یاد ہو گا کہ اس کا مرکزی دروازہ مال روڈ پر جبکہ دو دروازے ٹمپل روڈ پر واقع ہیں ۔ یوں اس سینما میں لگنے والی ہر فلم کے تین سائن بورڈ بنا کرتے تھے۔ سینما ہال میں فلم کا پہلا شو ، یعنی تین تا چھ ، جاری تھا ۔ میں اپنے دوستوں جِمی ، ٹونی اور قمر کے ہمراہ اسی حصے میں ، جہاں’ سالومن اورشیبا ‘ کا بل بورڈ بنانے کے لئے استاد قمر اور اس کے شاگرد رنگدار چاک سے ایک ضغیم لوہے کی چادر والے بورڈ پر چار خانے بنا کر اس پر فلم کے ایک ’ سٹل ‘ (still) سے خاکہ کشی کر رہے تھے ، کھیل رہا تھا کہ پندرہ بیس جوان اور ادھیڑ عمر مولویوں کا ایک گروہ ٹمپل روڈ والے اس دروازے سے اندر داخل ہوا جو سائیکل سٹینڈ کے پاس تھا ۔ یہ جتھا استاد قمر کو بورڈ بنانے سے منع کرتا ہوا کھانے پینے کی دکانوں کی طرف سے ہوتا اس حصے کی طرف چلا گیا جہاں ریگل سینما کا دفتر تھا ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے جِمی اور ٹونی کے والد کو استاد قمر کے پاس آتے دیکھا ۔ وہ اس کے پاس رکے ، کچھ بات چیت کی اور واپس چلے گئے ۔ استاد قمر نے اپنے شاگردوں سے بِل بورڈ کو الٹا کر رکھنے کو کہا ۔ جب وہ اسے الٹا کر رکھ چکے تو استاد اپنے شاگردوں کو لئے اس طرف چل پڑا جہاں پرانے بورڈ ڈھیروں کی تعداد میں پڑے تھے ۔ اگلی شام تک مجھے یہ پتہ چل چکا تھا کہ ’ سالومن اور شیبا‘ اپنی مقررہ تاریخ پر سینما میں ریلیز نہیں ہو رہی کیونکہ ’ مُلا ‘ سنسر بورڈ کے لاہور دفتر پر بھی حاوی ہو گئے تھے۔ جب تک سنسر بورڈ اور مولویوں کے درمیان کچھ طے نہ ہو جاتا یہ فلم کھٹائی میں پڑ چکی تھی ۔ مجھے بڑا غصہ آیا تھا کیونکہ یہ ایک ایسے ہیرو اور ہیروئن کی فلم تھی جو مجھے پسند تھے ۔ یل برائنر کی ’ میگنیفسینٹ سیون ‘ میں دیکھ چکا تھا اور جینا لو لو کی ’ ہنچ بیک آف ناڑیرڈیم ‘ دیکھ کر تو میں اس کا دیوانہ ہو چکا تھا ( 1960 ء کی’ میگنیفسینٹ سیون ‘ جاپانی ہدایت کار اکیرا کورو ساوا کی ’ سیون سمورائی 1954‘ کی امریکی شکل ہے جبکہ ’ ہنچ بیک آف ناڑیرڈیم ‘ وکٹر ہیوگو کے اسی نام کے ناول1831ء سے ماخوذ ہے ۔ ’میگنیفسینٹ سیون‘ کی ایک خوبی اس کا میوزک ہے جسے ’ ایلمر برنسٹائن ‘ کا ترتیب دیا تھا ۔ اس کی تھیم بعد ازاں بہت سے کمرشلز خاص طور پر ’ مالبرو ‘ سگریٹ کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے ۔) ۔
چند روز بعد مجھے پتہ چلا کہ سنسر بورڈ اور ’ ملاﺅں‘ کے درمیان یہ طے پا گیا ہے کہ فلم ’ سالومن انیڈ شیبا ‘ کے نام سے نہیں بلکہ ’ ملکہ سبا ‘ کے نام سے پیش کی جائے گی اور فلم کے کریڈٹس میں جہاں جہاں ’ سالومن ‘ لکھا ہے اس پر سیاہی پھیر دی جائے گی ۔ فلم کے بل بورڈوں پر پھر سے کام شروع ہو گیا اور اشتہار بازی بھی شروع کر دی گئی ۔
میں نے والد صاحب سے ضد کرکے فلم کا پہلا شو دیکھا ۔ فلم کے کریڈٹس میں ویسا ہی کیا گیا تھا جیسے سنسر بورڈ اور ’ ملاﺅں ‘ کے درمیان طے ہوا تھا ۔ فلم دیکھ کر مجھے وہ قصہ یاد آیا جو میری والدہ نے مجھے حضرت سلیمان کے بارے میں مختلف کہانیاں سناتے ہوئے سنایا تھا ؛ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکہ سبا بے پناہ حسین اور زیرک تھی ۔ حضرت سلیمان اس کے حسن اور عقل میں کسی قسم کی خامی تلاش نہیں کر پا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کچھ سوچ کر ایسا فرش بنوایا جو شیشے کا تھا جس کے نیچے پانی چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ جب ملکہ سبا آئی تو وہ یہ سمجھی کہ اس کو پانی میں سے چل کر تخت سلیمانی تک پہنچنا ہے ۔ ۔ ۔ یہ سوچ کر کہ اس کے لبادے کا گھیرا مبادا گیلا نہ ہو جائے اس نے اسے پنڈلیوں سے اونچا کر لیا ۔ ۔ ۔ یوں حضرت سلیمان کو دو باتوں کا پتہ چلا کہ ملکہ کی عقل کی بھی ایک حد ہے اور دوسرے یہ کہ انتہائی حسین ہونے کے باوجود ایک کمی یہ ہے کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
ملکہ سبا کے روپ میں جینا لولو نے زیادہ تر ایسے لباس پہن رکھے تھے جن سے اس کی پنڈلیاں کئی بار عریاں نظر آتیں تھیں اور حضرت سلیمان اس کے ارد گرد ہی نظرآ رہے ہوتے تھے ۔ مجھے لگا جیسے فلم بنانے والوں نے ’ قصص الانبیا ‘ سے انحراف کیا گیا تھا ۔ ( بعد ازاں مطالعہ وسیع ہونے پرمجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اس فلم میں نہ صرف ’ حضرت سلیمان و ملکہ سبا ‘ بارے میں اسلامی نکتہ نظر سے انحراف موجود تھا بلکہ ’ انجیلی‘ و ' تورایتی ' احوال کو بھی خاصا فکشنلائز کیا گیا تھا ، یاد رہے کہ ’ حضرت سلیمان و ملکہ سبا ‘ کے بارے میں انجیلی و تورایتی احوال اِن میں ’ اولین بادشاہ ‘ ( First Kings) کے دسویں باب اور ’ سیکنڈ کرونیکلز ‘ ( Second Chronicles ) کے نویں باب میں موجود ہے ۔ مجھے اُن ملاﺅں کی عقل اور علم پر بھی ہنسی آئی تھی جنہوں نے سنسر بورڈ اور فلم درآمد کرنے والوں سے مُک مُکا کیا تھا ۔ ’ سالومن اینڈ شیبا ‘ 1959ء کی فلم ہے جسے ’ کنگ ویڈور‘ نے ڈائریکٹ کیا تھا ۔ پانچ ملین ڈالر سے بنی اس فلم نے پہلے ہی رَن ’ run ‘میں بارہ ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کیا تھا ) ۔
کچھ ہی مہینوں بعد میں نے جینا لولو بریجڈا کی تیسری فلم دیکھی ۔ یہ ’ کم ستمبر‘ ( Come September ) تھی ۔ ہلکی پھلکی ، مزاح کے امتزاج سے بھرپور یہ ایک رومانی فلم تھی ۔ اس فلم کی دو باتیں اہم تھیں جنہوں نے اس وقت میرے ذہن میں یاد چھوڑ ی ؛
ان میں سے ایک تو یہ تھی کہ لیزا فلینی ( جینا لولو ) اور رابرٹ ٹالبوٹ ( راک ہڈسن ) اس فلم میں ایک عجیب طرح کی موٹر سائیکل چلاتے دکھائے گئے تھے جس کی ہیت ان موٹر سائیکلوں سے خاصی مختلف تھی جن کو دیکھنے کا میں عادی تھا ۔ اس کا نام بھی عجیب تھا ؛ لمبریٹا ( اس فلم کی نمائش کے کچھ ہی عرصے بعد پاکستان میں لمبریٹا اور ویسپا نامی سکوٹر داآمد ہونا شروع ہو گئے تھے جو اٹلی میں تیار ہوتے تھے ۔ بعد ازاں لمریٹا سکوٹر کو ویسپا نے پچھاڑ دیا تھا اور ہر طرف ویسپا چھا گیا تھا اور یہ پاکستان میں بھی اسمبل ہونے لگا تھا ) ۔
دوسرے اس فلم کا تھیم میوزک کمال کا تھا اور اس میں ایک گانا بھی سننے میں بہت بھلا تھا ، اس وقت مجھے انگریزی گانوں کے بولوں کی کچھ سمجھ نہ تھی ۔ ( ’ کم ستمبر‘ کی تھیم اگلے کئی سالوں تک مشہور رہی تھی ، اسے کئی موسیقاروں نے اپنے اپنے انداز میں بجایا ، دیگر زبانوں کی فلموں میں بھی اس تھیم کو استعمال کیا گیا ان میں بالی ووڈ کی 1967ء کی فلم ’ ہمراز‘ اور مادھوری ڈکشٹ کی 1995 ء کی فلم ’ راجہ ‘ بھی شامل ہیں ۔ اس تھیم کو اپنے زمانے کے مشہور گلوکار ، موسیقار ، گیت نگار اور اداکار ’ بوبی ڈرین ‘ نے ترتیب دیا تھا اور اس کا گانا ’ Multiplication, That's the name of the game ‘ بھی اسی نے گایا تھا ۔’ کم ستمبر‘ 1961ء کی فلم ہے ۔ مئی 1936ء میں پیدا ہونے والا ’ بوبی ڈرین ‘ شروع سے ہی کمزور صحت کا مالک تھا اور 1971ء میں اس کے دل کے دو ’والوز ‘ خراب ہونے پر انہیں مصنوعی ’ والوز‘سے بدلا گیا تھا ، اس کے بعد اسے گلوکاری سے پہلے اور بعد میں گھنٹوں ’ آکسیجن ‘ لینا پڑتی تھی ۔ دو سال بعد ہی اس کا دل پھر سے بیٹھ گیا اور وہ دوسری سرجری میں نہ بچ سکا اور 20 دسمبر 1973ء کو 37 برس کی عمر میں فوت ہو گیا ۔ وہ ان گنتی کے پہلے لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنے جسم کو دفنانے کی بجائے ’ میڈیکل ریسرچ‘ کے لئے دان دینے کی وصیت کی تھی ۔ )
ایک بات اور بھی تھی ؛ مجھے یہ اندازہ ہوا تھا کہ جینا لولو کی ادا کاری میں تنوع تھا ؛ کہاں’ ہنچ بیک ۔ ۔ ۔‘ کی ازمریلڈا ، ’ سالومن و شیبا ‘ کی ملکہ سبا اور کہاں’ کم ستمبر‘ کی کھلنڈری لیزا ، تینوں کردار ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے لیکن تینوں میں ایک قدر مشترک تھی ’ جینا ‘ دیکھ کر دل میں گدگدی ہوتی تھی اور جسم میں تناﺅ سا محسوس ہوتا تھا ۔
میں نے19600 کی دہائی کے آواخر تک جینا لولو کی کچھ اور فلمیں بھی دیکھیں جن میں برٹ لنکاسٹر اور ٹونی کرٹس کے ساتھ اس کی ’ Trapeze ‘ ، شین کونری کے مدِ مقابل اس کی ’ Woman in Straw ‘ ، ایلک گینس کے ہمراہ ’ Hotel Paradiso ‘ مجھے اب بھی یاد ہیں ۔ میں نے1970 کی دہائی کے اوائل میں اس کی آخری فلم دیکھی تھی اس میں وہ ڈیوڈ نیون کی بیوی مارتھا کا کردار ادا کر رہی تھی ۔ مجھے اس فلم کا نام صحیح طرح یاد نہیں ، یہ شاید ’ King,Queen,Knave ‘ تھا ۔ بعد ازاں ، میں نے ایک دفعہ ’ ڈان ‘ اخبار میں پڑھا کہ جینا لولو بریجیڈا نے اداکاری چھوڑ دی ہے اور وہ فوٹو جرنلسٹ بن گئی ہے ۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا ۔ پھر اخباروں نے یہ سنسنی بھی پھیلائی کہ کیوبا کا کمیونسٹ صدر فیدل کاسترو اس کا عاشق ہو گیا ہے ( اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ 1974 ء میں کاسترو کا ایک انٹرویو کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور دس پندرہ روز جو اس نے کیوبا کے اس رہنما کے ساتھ گزارے تھے ، نے اس افواہ کو جنم دیا تھا ) ۔
سن 19900 ء میں ، میںشکاگو ، امریکہ گیا تو وہاں ایک چینل پر ایک سوپ اوپرا ’ فیلکن کریسٹ ‘ (Falcon Crest) دیکھنے کا اتفاق ہوا اس کی کچھ اقساط میں جینا لولو نے بھی کردار ادا کیا تھا ۔ اس کی عمر ڈھل چکی تھی ، شاید پچاس کی ہو گی لیکن ایسے میں بھی وہ دل کی دھڑکن تیز کر دیتی تھی ۔
وہ اداکاری کے بعد فوٹو جرنلسٹ کے کیرئیر میں بھی کامیاب رہی اور اس کی تصاویر پر اب تک آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں:
Italia mia 1973 ، Wonder of Innocence 1994 اور Sculptures 2003 اہم ہیں ؛
’ اطالیہ مایا ‘کا پیش لفظ نامی اطالوی ادیب البرٹو موراویا نے لکھا تھا اور اس میں پونے دو سوسے زائد تصاویر ہیں جن میں آڈرے ہیپبرن اور پال نیومن جیسے فلمی ستاروں کے علاوہ ڈالی جیسے مصوروں اور ہنری کسنجر جیسے سیاست دانوں کے علاوہ کھلاڑیوں کی تصاویر شامل ہیں ۔ ’ عجائب ِمعصومیت ‘ نامی کتاب کا موضوع بچے ہیں جن کو اس نے انواعِ حیاتیات کے تقابل میں اس نظریے کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان سب کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ اس کتاب میں کارلو ربیا ، فلکوراٹیسی اور ارنسٹو کافو کے مضامین کے ساتھ ایک سو پچاس سے زائد تصاویر شامل ہیں ۔ اس کی ایک کتاب پچیس ملکوں کے ’ فوٹو رپوتاژ ‘ پر بھی مبنی ہے ۔ اس نے آخری بار 1997 ء میں فلم ’ XXL ‘ میں کام کیا تھا ۔
’جینا ‘ طبعاً مہم جو رہی ہے ، خاوند اور ایک بیٹے کے ہونے کے باوجود 19600 کی دہائی میں اس کے ایک سے زیادہ معاشقے تھے اور تو اور 2006 ء میں جب وہ 80 سال کو چھو رہی تھی اسے ایک 45 سالہ ہسپانوی مرد پسند آ گیا تھا ۔ وہ دنیا بھر میں گھومی ، انڈیا بھی گئی ، اندرا گاندھی سے اس کی خاصی دوستی تھی ۔ یہی مہم جوئی اسے سرد جنگ کے انتہائی گرم ماحول میں ہوانا بھی لے گئی جہاں اس نے فیدل کاسترو کا نہ صرف انٹرویو لیا بلکہ اس کے شب و روز کو سلولائیڈ پر منتقل بھی کیا ۔ فیدل کاسترو کا انٹرویو تو سامنے آ گیا لیکن سلولائیڈ کا فیتہ ابھی تک باہر نہیں آیا جس کے بارے میں اس نے اپنے 2013 ء کے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اسے مناسب وقت پر دستاویزی فلم کی شکل میں ریلیز کرے گی ۔ فیدل کاسترو کے بارے میں اس کا کہنا تھا ؛ ” وہ اپنی زندگی میں ایک عام آدمی ہے ، کیوبن عوام اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں اور اپنا دکھ درد اس سے بانٹتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اپنی زندگی کو کمیونسٹ انقلاب کو مستحکم کرنے اور کیوبن سماج میں انسانی مساوات قائم کے لئے وقف کر رکھا ہے جس وجہ سے اس کے شادی نہیں کی تھی ۔ ۔ ۔ “
’ جینا ‘ نے20133 ء میں اس نے اپنے زیورات کو نیلام کر دیا تھا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو ’ Stem Cell Therapy ‘ کے میدان میں ہونے والی تحقیق کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ جو لوگ اس’ تھراپی ‘ کے بارے میں شد بدھ رکھتے ہیں وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ’ جینا ‘ کتنی مستقبل پسند (Futurist) ہے ۔
جینا لولو بریجیڈا جس نے فلمی کیرئیر اپنانے سے پہلے سکول میں مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کی تھی ، اداکاری کے بعد بطور فوٹو جرنلسٹ کامیاب ہونے پر اب زیادہ وقت مجسمہ سازی کو دیتی ہے اور اس میں بھی کامیاب ہے ۔
4 جولائی 1927ء کو پیدا ہوئی ایک فرنیچر ساز کی بیٹی جینا لولو بریجیڈا زندگی کی 899 بہاریں دیکھ چکی ہے۔ وہ زیادہ تر سِسلی میں اپنی رینچ اور باغات میں رہتی ہے گو روم اور مونٹی کارلو میں بھی اس کی رہائش گاہیں ہیں ۔ وہ اس برس جولائی میں اپنی زندگی کی 90 ویں گرمیاں دیکھے گی ۔ ۔ ۔ لانگ لِیو جینا لولو بریجیڈا ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔